مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

وسعت اللہ خان

یہ بات ہے دسمبر دو ہزار گیارہ کی، اس وقت کے وزیرِ اعلٰی شہباز شریف کی فلاحی اسکیم کے تحت پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی جانب سے حسبِ معمول دل کے ایک لاکھ سے زائد رجسٹرڈ مریضوں کو دواؤں کی مفت سپلائی جاری تھی۔ ان دواؤں میں کراچی کی ایک فارماسيوٹیکل کمپنی ایفروز لیب کی فراہم کردہ آئسو ٹیب بھی شامل تھی۔ اچانک دل کے امراض ميں مبتلا افراد لاہور اور اس کے مضافات سے کارڈیالوجی کی ایمرجنسی میں پہنچے لگے۔ جنوری کے وسط تک متاثرہ مریضوں کی تعداد پچیس ہزار تک پہنچ گئی۔ ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نپٹیں۔اکثر مریضوں پر ڈینگی کے حملے کا شبہ تھا مگر ڈینگی کی کوئی علامات نہیں تھیں۔مریض مرنے لگے اور یہ تعداد دو سو سے اوپر چلی گئی، جبکہ ایک ہزار مریضوں کی حالت غیر تھی۔

طبی حکام نے عالمی ادارہِ صحت سے رابطہ کیا۔ دواؤں اور مریضوں کے خون کے نمونے تشخِیص کے ليے بیرون ملک بھیجے گئے۔ اکتیس جنوری کو برطانوی ہیلتھ ریگولیٹری ایجنسی نے پتہ چلا لیا کہ آئسوٹیب کی گولیوں میں اینٹی پیراسیٹک دوا پائریمیتھامین کی بھاری مقدار پائی گئی ہے۔ تب تک انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اپنے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے مطابق چھیالیس ہزار مریضوں میں آلودہ آئسو ٹیب گولیاں تقسیم کر چکا تھا۔ چنانچہ آخری دو بیچز کی دوا فوری طور پر ان مریضوں سے واپس لی گئیں۔ جو مر گئے سو مر گئے۔۔ باقی مریضوں کی جان بچانے کے ليے عالمی ادارہِ صحت کے ماہرین کے مشورے سے کیلشیم فولینیٹ کی بھاری ڈوز دی گئی۔

تحقیقات سے پتہ چلا کہ آئسو ٹیب کی آٹھ اعشاریہ آٹھ ملین گولیوں میں سے چار لاکھ آلودہ پائی گئیں۔ فیکٹری میں ان کی تیاری کے دوران پچیس کلوگرام پائریمیتھامین کا ڈرم لیک ہو کے آئسو ٹیب کی پروڈکشن میں مکس ہو گیا۔۔ اور پھر اس اسٹاک کو حتمی معائنے کے بغیر پیکیجنگ کر کے لاہور بھیج دیا گیا۔

اتنے بڑے انسانی المیے کے بعد نمائشی قانونی کارروائی ضرور ہوئی مگر کسی قصور وار کا بال بیکا نہ ہوا۔ بس اتنا ہوا کہ اس سانحے کے بعد وفاقی سطح پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کا نگراں ادارہ وجود میں آ گیا، تاکہ ڈرگز ایکٹ مجریہ انیس سو چھہتر کے تحت ہر طرح کی ادویات کی تیاری، فراہمی اور کوالٹی کنٹرول کو یقینی بنایا جا سکے۔

ڈریپ کی موجودگی میں اپریل دو ہزار چودہ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے محکمہ صحت کی مدد سے لاہور میں دس مقامات پر چھاپہ مارا۔ ان جگہوں سے غیر رجسٹرڈ ناقص و آلودہ دوائیں، مشہور بین الاقوامی اور مقامی دوا ساز کمپنیوں کی جعلی پیکیجنگ، زائد المعیاد دوبارہ پیک کی گئی دوائیں، ایلوپیتھک اجزا کی ملاوٹ والی ہومیو پیتھک اور ہربل دوائیں، سرکاری و فوجی ہسپتالوں سے چرائی گئی دوائیں اور بیرونِ ملک سے اسمگلڈ دوائیں برآمد ہوئیں۔چھاپے کے دوران جو ریکارڈ ہاتھ آیا، اس کے مطابق یہ مال لاہور ڈویژن کے ساڑھے چار سو میڈیکل اسٹورز پر سپلائی کیا جاتا تھا۔ تیرہ ملزم گرفتار ہوئے۔ اس کے بعد کیا ہوا، خدا بہتر جانتا ہے۔

جنوری دو ہزار سترہ میں ایف آئی اے نے میو ہسپتال لاہور میں چھاپہ مار کے دل کی شریانوں میں ڈالے جانے والے اسٹنٹس کی ایک غیر معیاری اور ایکسپائرڈ کھیپ قبضے میں لی۔

حال ہی میں سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیب نے جان بچانے والی ادویات کے دو درجن سے زائد سیمپلز ٹیسٹ کيے۔ کراچی اور حیدرآباد سے جمع کيے گئے سیمپلز میں سے اٹھارہ سیمپلز میں کوئی فارماسوٹیکل اجزا نہیں تھے۔کچھ گولیوں اور کیپسولز میں پسا ہوا چاک اور آٹا بھی پایا گیا۔

قانون کے مطابق پاکستان میں مریضوں کو جو خون مہیا کیا جاتا ہے، وہ بلڈ اسکریننگ کے بغیر فراہم کرنا جرم ہے، مگر کچھ اچھی شہرت والے ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کے سوا ہنگامی طور پر جو خون مہیا کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں یقین سے کہنا مشکل ہے کہ يہ واقعی معیاری اسکریننگ کٹ سے گزارا گیا یا نہیں۔

تازہ ترین اسکینڈل اووسٹین انجکشن کا سامنے آیا ہے۔ یہ دوا ویسے تو کینسر کی بعض اقسام کے علاج کے ليے استعمال ہوتی ہے مگر گزشتہ پندرہ برس سے پاکستان سمیت کئی ممالک میں ان مریضوں کو بھی آنکھ میں انجکشن کے ذریعے اس کی ایک معمولی مقدار دی جاتی ہے، جن کی بینائی ضیابیطس کے سبب متاثر ہو رہی ہو، مگر اووسٹین کو موثر رکھنے کے ليے اس کی ڈوزیج ایک خاص ٹمپریچر میں ماہر فارماسسٹس کی نگرانی میں تیار کی جاتی ہیں اور انہیں چھ گھنٹے کے اندر استعمال کرنا ضروری ہے ورنہ افادیت کھو بیٹھتی ہیں۔ نیز ڈوزیج کی تیاری بکٹیریا سے محفوظ ماحول میں ہی ہو سکتی ہے۔

اچانک سے پتہ چلا کہ گزشتہ دو ہفتے کے دوران لاہور سمیت پنجاب کے کئی علاقوں میں اووسٹین کی آلودہ ڈوزیج کے سبب کم از کم اڑسٹھ مریضوں کی بینائی چلی گئی۔ دو ہسپتالوں پر چھاپہ مارا گیا، جہاں آلودہ ماحول میں یہ ڈوزیج تیار کی جاتی تھیں اور پھر ان کی بین الاضلاعی سپلائی برف کے تھرمس میں عام ٹرانسپورٹ کے ذریعے کی جاتی تھی۔

حسبِ معمول درجن بھر ڈرگ انسپکٹرز اور دو تین اعلٰی افسروں کو تب تک کے ليے معطل کر دیا گیا، جب تک میڈیا کے کیمروں کا رخ کسی اور اسکینڈل کی جانب نہیں مڑ جاتا اور جب تک ایک تحقیقاتی کمیٹی کے اوپر بننے والی ایک اور تحقیقاتی کمیٹی کے اوپر بننے والی ایک اور تحقیقاتی کمیٹی کی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی، تب تک اووسٹین کا صوبہِ پنجاب کی حدود میں استعمال غیر معینہ مدت کے ليے روک دیا گیا۔۔ یعنی دوا دستیاب ہو تو مریض کی شامت، نہ دستیاب ہو تو مریض کی شامت۔

وفاقی ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی، وفاقی و صوبائی وزارتِ صحت، ہیلتھ کمیشن اور کوالٹی کنٹرول بورڈ بدستور اپنی جگہ کام کر رہے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز کا پے اسکیل بظاہر بہت زیادہ نہیں پھر بھی اس آسامی پر بھرتی کے ليے بھاری سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں سمیت سب متعلقہ اداروں اور اہل کاروں کو خوش رکھتی ہیں اور یہ سب ان کمپنیوں کو خوش رکھتے ہیں۔ رہے مریض، تو ان کے ليے عرض ہے کہ:

بارِ حیات اٹھائیے، تنہا اٹھائیے،
یہ بوجھ آپ سے نہیں اٹھتا، اٹھائیے!
(تابش دہلوی)

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close