کیا ہم سب چائنا کا مال ہیں؟

محمد حنیف

آپ مانیں یا نہ مانیں ہمارے نگران وزیر اعظم کا تو یہی خیال ہے، انہیں نگران وزیر اعظم بنانے والے سیاستدان بھی یہی کہتے ہیں کہ انہیں تو ایک پرچی پکڑائی گئی تھی، اس پر کاکڑ صاحب کا نام لکھا ہوا تھا۔ یقیناً انہیں نگران وزیر اعظم بنانے سے پہلے کسی کو جرأت نہیں تھی کہ پوچھ سکیں کہ کاکڑ صاحب آپ کس کا مال ہیں؟

پچھلی صدی کے اواخر میں جب پاکستان کے بازاروں میں چینی مصنوعات کی بھرمار ہوئی تو پورے پاکستان میں ایک کہاوت بن گئی کہ چین کی مصنوعات سَستی لیکن غیر معیاری ہوتی ہیں۔ یہ کہاوت بازار سے نکل کر زندگی کے ہر شعبے میں پھیل گئی۔

کوئی پاکستانی اداکار زیادہ نخرہ کرے تو چائنا کا شاہ رخ خان، کوئی نوجوان گلوکار گٹار کے ساتھ زیادہ گلا پھاڑ کر گائے تو چائنا کا علی عظمت۔ کوئی ہماری طرح کا کالم نگار زیادہ دانشوری بگھارے تو چائنا کا نوم چومسکی۔۔

یہ لطیفے یا تو اس ’نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی‘ تک نہیں پہنچے، جہاں پر ہمارے نگران وزیر اعظم کی تربیت ہوتی ہے یا یونیورسٹی کا سلیبس ایسا ہے کہ وہاں پر ہر بازاری لطیفے کو قومی دفاعی پالیسی کا حصہ بنا لیا جاتا ہے

گذشتہ الیکشن سے پہلے کچھ امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا گیا تو انہوں نے محکمہ زراعت کو الزام دینا شروع کیا۔ محکمہ زراعت بھی چھوٹا موٹا ایک لطیفہ بن گیا

ابھی پانچ سال ہی پورے ہوئے تھے کہ ہمارے سب سے بڑے محکمے نے لاکھوں ایکڑ زمین حاصل کر لی ہے اور اعلان کیا کہ اب ہم آپ کو اصلی محکمہ زراعت بن کر دکھائیں گے

ہمارے نگران وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہِ امریکہ کے دوران شاید اپنی اور اپنے ملک کی دہشت بٹھانے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان چین کا اسرائیل ہے۔ ان کے ناقدین کو بھی سمجھ نہیں آیا کہ اعتراض اس بات پر کریں کہ پاکستان کا اسرائیل سے موازنہ کیا گیا یا اس بات پر کہ پاکستان کو چین کا اسرائیل کہا گیا۔

جیسے ایک زمانے میں ہمایوں سعید کو چائنا کا سلمان خان کہتے تھے، یعنی کہ ہم اسرائیلی بھی سستے ہیں اور غیر معیاری بھی ۔ پتا نہیں ہماری بیٹری کب جواب دے جائے۔

ہم آج بھی جمعے کے خطبوں میں فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی بربادی کی دعائیں مانگتے ہیں۔

اسرائیلی فوجی جب چاہتے ہیں بوٹوں سمیت ہمارے قبلہ نمبر 1 میں گھس جاتے ہیں۔ فلسطینی بھائیوں کے باغات پر تیزاب پھینکتے ہیں۔

غزہ اسرائیل کی شکارگاہ ہے، جہاں پر جنگی جہازوں کے ذریعے راکٹ داغ کر بچوں کو مارا جاتا ہے، ہسپتالوں کو اڑایا جاتا ہے۔ آج کل دنیا میں مقابلہ سخت ہے لیکن زیادہ تر نیم پڑھے لکھے لوگ اور ان میں کالے گورے مسیحی اور کچھ یہودی بھی شامل ہیں، جو کہتے ہیں کہ اسرائیل جیسی جدید ریاست اپنی پالیسیوں کی وجہ سے جمہوریت اور انسانیت کے نام پر بد نما داغ ہے۔

کئی سال پہلے راقم نے فلسطین کی ایک یونیورسٹی میں کچھ ہفتے پڑھایا۔ مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ زیادہ تر طلبا کے بڑوں میں سے کوئی پاکستان میں پاکستانی حکومت کے وظیفے پر پڑھ چکا تھا۔ کسی کا باپ پاکستان کی انجینیئرنگ یونیورسٹی کا گریجویٹ تھا تو کسی کی خالہ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر چکی تھیں۔ ایک کا ماموں لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے پڑھ کر آرکیٹیکٹ بنا تھا۔

ہم شاید ان زمانوں میں بھی خواب اسرائیل بننے کا ہی دیکھتے ہوں گے لیکن اتنی انسانیت اور مسلمانیت باقی تھی کہ اپنی اوقات کے مطابق ہاتھ فلسطینیوں کا ہی پکڑتے تھے۔

ہماری کلاس میں طلبا لکھنے کی مشق کیا کرتے تھے۔ ایک طالبہ نے ایک منظر لکھا، جس میں وہ اپنے گھر کی دو منزلہ کھڑکی سے اسرائیلی ایف 16 دیکھتی ہے جو اتنا قریب سے گزر رہا ہے کہ اسے کاک پٹ میں بیٹھے پائلٹ کی شکل بھی نظر آتی ہے۔

میں نے کلاس میں پوچھا کہ کیا یہ منظر انہیں قابل یقین لگتا ہے؟ سب نے کہا کہ وہ اس سے ملتے جلتے منظر بچپن میں دیکھ چکے ہیں اور اگر آج کلاس میں بیٹھے ہیں تو اس لیے کہ اسرائیلی ایف 16 کا راکٹ ان کے گھر پر نہیں لگا، ساتھ والے گھر پر لگا۔

مجھے نگران وزیراعظم کا پاکستان چین کا اسرائیل بننے والا بیان سن کر فلسطینی کلاس کے طلبا یاد آ گئے اور ڈر لگا کہ شاید وہ بھی یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے ایف 16 بھی ہمارے گلی محلوں میں گھس کر راکٹ داغیں گے اور تب ہی ہم اسرائیل بن سکیں گے۔

ہمارے نگران وزیر اعظم ہر تنخواہ دار شخص کی طرح تنخواہ کی کمی کی شکایت بھی کر چکے ہیں کہ تنخواہ میری صرف ڈھائی تین لاکھ اور مجھ سے توقع کی جاتی ہے کہ کبھی ایک ارب کبھی دو ارب کی ڈیل پر دستخط کروں۔

انہیں ان کی یونیورسٹی والوں نے یقیناً بتایا ہوگا کہ ہم فوجی جوان کو تنخواہ تیس پینتیس ہزار دیتے ہیں اور اس سے توقع رکھتے ہیں کہ گولی چھاتی پر کھانی ہے، پیٹھ پر نہیں۔۔

نگران وزیر اعظم کے غیر ملکی دورں پر ہمارے چائنا کے نوم چومسکی اعتراض کرتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ انہیں اور دورے کرنے چاہییں۔ دو ہفتوں کے لیے اپنی خوابوں کی ریاست اسرائیل میں جا کر وہاں کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کریں، ساتھ بچوں کو بھی لے جائیں۔

بچے نیویارک پیرس جا سکتے ہیں تو وہاں بھی جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد چین کا ایک صوبہ جس کا نام لینا ہماری ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوست کو ناراض کر سکتا ہے، اس صوبے میں کچھ دن رہ کر قوم کو بتا دیں کہ ہم اصلی اسرائیل بننا ہے یا چائنا کا اسرائیل۔

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close