زندگی کے شجر کی پوری کی پوری شاخیں جھڑ رہی ہیں۔۔ ماہرین کی تنبیہ

ویب ڈیسک

آپ نے شیخ چلّی کا وہ قصہ تو ضرور پڑھا ہوگا، جس کے مطابق وہ درخت کی جس ٹہنی پر بیٹھا ہے، اسی کو کاٹ رہا ہے۔۔ تب آپ یقیناً اس پر ہنس دیے ہونگے، لیکن اب رونے کا مقام ہے کہ آج کا انسان شیخ چلی بن چکا ہے، وہ جس شجرِ حیات پر بیٹھا ہے، اسی کو کاٹنے پر تلا ہے

حال ہی میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسان ’شجرِ حیات‘ کی پوری کی پوری شاخوں کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ اس تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ صورت حال چھٹی مرتبہ بڑے پیمانے پر مختلف جانداروں کے ناپید ہو جانے کا سبب بن سکتی ہے

ماہرین کے مطابق، پریشانی یہ ہے کہ ہم چیزیں اتنی تیزی سے کھو رہے ہیں کہ ہمارے لیے یہ تہذیب کے آئندہ خاتمے کی طرف اشارہ ہے۔ مختلف جانداروں کی تیزی سے معدومیت کی طرف بڑھتی اقسام سے خود بنی نوع انسان کا مستقبل بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ انسانوں کے پاس اس صورتِ حال کو روکنے کے لیے کم وقت رہ گیا ہے

واضح رہے کہ ’ٹری آف لائف‘ یا ’شجرِ حیات‘ ایک ایسا استعارہ، نمونہ اور تحقیقی آلہ ہے، جو حیاتیاتی ارتقا کی تشخیص اور زندہ اور معدوم ہو جانے والے جانداروں کے مابین تعلقات کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے

’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ (PNAS) میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے شریک مصنف اور میکسیکو کی خودمختار نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر جیرارڈو سیبالوس کہتے ہیں ”معدومیت کا بحران موسمیاتی تبدیلیوں کے بحران کی طرح برا ہے۔ اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔‘‘

نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”اس صورتحال میں جو شے داؤ پر لگی ہے، وہ خود بنی نوع انسان کا مستقبل ہے‘‘

یہ مطالعاتی جائزہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں محض کسی ایک نوع کے ناپید ہو جانے کا جائزہ لینے کے بجائے پورے کے پورے انواعی گروپوں یا genera کے معدوم ہونے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہوائی یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات رابرٹ کاوی کے مطابق ”یہ واقعی ایک اہم کام ہے، میرے خیال میں پہلی بار کسی نے پورے کے پورے انواعی گروپوں کے ناپید ہوتے جانے کی شرح کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے‘‘

برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر انتھونی بارنوسکی اس پہلو سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اس طرح یہ مطالعہ واقعی شجرِ حیات کی پوری کی پوری شاخوں کو پہنچنے والے نقصان کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ یہ زندہ چیزوں سے متعلق وہ معلومات ہیں، جو سب سے پہلے برطانوی سائنسدان چارلس ڈارون نے تیار کی تھیں

بارنوسکی کے مطابق اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے، ”ہم شجرِ حیات کی صرف اہم ترین ٹہنیوں کو ہی نہیں کاٹتے جا رہے، بلکہ بڑی شاخوں سے چھٹکارا پانے کے لیے جیسے آری استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ اس تحقیق میں محققین نے بڑی حد تک جانداروں کی ان اقسام پر انحصار کیا، جو انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی فہرست میں معدوم کے طور پر درج ہیں۔ محققین نے اپنی تحقیق کے دوران ریڑھ کی ہڈی والے یا فقاریہ (مچھلی کو چھوڑ کر) جانوروں کی اقسام پر توجہ مرکوز رکھی

ماہرین نے جانداروں کے تقریباً 5,400 انواعی گروپوں (لگ بھگ 34,600 انواع) پر مشتمل اس مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان میں سے 73 انواعی گروپ گزشتہ پانچ سو برس میں ناپید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پچھلی دو صدیوں میں معدوم ہو گئے۔ اس کے بعد محققین نے اس صورت حال کا موازنہ جانداروں کی انتہائی قدیمی باقیات یا فوسلز کے ساتھ بھی کیا

اس تحقیق کے دوران لگائے گئے اندازوں کے مطابق جانداروں کے ان 73 انواعی گروپوں کو معدوم ہونے میں پانچ سو سال نہیں بلکہ اٹھارہ ہزار سال کا عرصہ لگنا چاہیے تھا۔ تاہم اس طرح کے تخمینے حتمی اور یقینی نہیں کیونکہ جانداروں کی انواع کے ایسے سبھی گروپوں سے متعلق معلومات تو موجود نہیں اور اس سے متعلق فوسل ریکارڈ بھی نامکمل ہے

تو آخر شجرِ حیات کی شاخیں کیو جھڑتی جا رہی ہیں؟ پروفیسر جیرارڈو سیبالوس کے مطابق اس کی وجہ انسانی سرگرمیاں، جیسے فصلوں یا بنیادی ڈھانچے کے لیے دوسرے جانداروں کی رہائش گاہوں کی تباہی، نیز ضرورت سے زیادہ ماہی گیری اور شکار وغیرہ ہیں۔ اس محقق کے استدلال کے مطابق، ”اگر آپ ایک اینٹ نکالیں گے تو دیوار نہیں گرے گی۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ ہم چیزیں اتنی تیزی سے کھو رہے ہیں کہ ہمارے لیے یہ تہذیب کے آئندہ خاتمے کی طرف اشارہ ہے‘‘

سبھی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جانداروں کی انواع کی معدومیت کی موجودہ شرح تشویشناک ہے لیکن کیا یہ شرح چھٹی مرتبہ حیاتیاتی انواع کی بڑے پیمانے پر معدومیت کی ابتدا کی نشاندھی کرتی ہے (آخری مرتبہ ایک بڑے شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں 66 ملین سال پہلے ڈائنوسارز کا صفایا ہو گیا تھا)، یہی اس وقت جاری بحث کا مرکزی موضوع ہے

سائنسدان بڑے پیمانے پر انواع کی معدومیت کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ کسی نوع کے پچھتر فی صد جاندار ایک مختصر وقت میں ہلاک ہو جائیں۔ ماہرِ حیاتیات رابرٹ کاوی کہتے ہیں کہ اس ’صوابدیدی‘ تعریف کا استعمال کرتے ہوئے چھٹی مرتبہ بڑے پیمانے پر انواع کی معدومیت ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی۔۔ تاہم انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ”اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ موجودہ شرح یا اس سے بھی تیزی سے حیاتیاتی انواع کے پورے کے پورے گروپ معدوم ہوتے جائیں گے، تو پھر ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ ممکنہ طور پر انواع اور انواعی گروپوں کے خاتمے کے چھٹے بڑے عمل کا آغاز ہے‘‘

سیبالوس نے متنبہ کیا کہ انسانوں کے لیے اس صورتحال سے بچنے کے لیے کچھ کر سکنے کے مواقع ایک ایسی کھڑکی جیسے ہیں، جو تیزی سے بند ہو رہی ہے

انہوں نے کہا ”ترجیح جانداروں کی قدرتی رہائش گاہوں کی تباہی کو روکنا اور جو اپنے رہائشی مقامات کھو چکے ہیں، ان کو بحال کرنا ہے۔ جانداروں کی مختلف انواع کے بہت سے گروپوں کو بچانے کے لیے اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم ابھی سے عمل کرنا شروع کر دیں، تو ہم مجموعی طور پر جانداروں کے پانچ ہزار چار سو انواعی گروپوں یا genera میں سے بہت سے بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close