اگلے دن کی نئی صبح، نئی ہوا۔۔ جبکہ پرانا سورج نئی دھوپ لئے ہے۔ نہائے دو دن ہو چکے ہیں۔ میں نے حضور بخش سے کہا، ”سائیں! کچھ نہانے کا بندوبست ہو سکتا ہے۔“ وہ بولا ”میڈا سائیں! ابھی چادر تان کر نہانے کی جگہ بنا دیتا ہوں۔“ چادر کے بنے اس غسل خانے میں غسل میرے لئے تو نئی بات نہ ہے البتی نین کا امتحان ہے۔ سندھو کے پانی سے اشنان نے پوتر کر دیا ہے۔ جسم میں تازگی اور چہرے پر فریشنس آ گئی ہے۔ نین جینز کی پینٹ اور نیلی شرٹ میں میکناز گولڈ کی جولیا نیومر لگ رہی ہے اور میں بھی خود کو گریگری پیک سمجھنے لگا ہوں۔ پتہ چلا باقی دوست پہلے ہی دنوں کا گرد و غبار اتار چکے ہیں۔ تازہ ہوا میں پیڑ اور پودے جھوم رہے ہیں۔ سندھو کا پانی چڑھتے سورج کی دھوپ میں چمکنے لگا ہے۔ درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے خوش الہان پرندے خوشی میں اپنے اپنے راگ اور بولیاں الاپ رہے ہیں۔ حضور بخش میاں محمد بخش صاحب کا کلام گنگناتے ہوئے پراٹھے بنانے میں مصروف ہے:
دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے
اُس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے
ماواں نال بہاراں سجناں بن ماواں کس کاری
ماواں بعد محمد بخشا کون کرے غم خواری
سدا نہ باغیں بلبل بولے سدا نہ موج بہاراں
سدا نہ ماپے حسن جوانی سدا نہ صحبت یاراں
کپڑا پھٹے تے لگے تروپا دل پھٹے کی سینا
سجناں باج محمد بخشا کی مرنا کی جینا۔۔
میاں محمد بخش ؒ کے ان اشعار میں زندگی کا فلسفہ ہے۔ میاں محمد بخش ؒ کھڑی شریف میر پور آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔ کمال پنجابی شاعر اور درویش ہستی تھے۔ شہرہ آفاق کلام’سیف الملوک“ آپ ہی کی تصنیف ہے۔
باس اور مشتاق یہ کلام گنگنا کر فارغ ہوئے تو باس کہنے لگے، ”سندھو کی عظمت کا میں قائل ہو گیا ہوں۔ میں جب جنڈ ضلع اٹک میں تعینات تھا تو ایک دریائی چرواہے نے سندھو کے بارے کہا تھا ’بابا سائیں!بسندھو کی حیثیت ہمارے دیس میں ویسی ہی ہے، جیسی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی۔ اس سے بہت کچھ اور بہت اہم جڑا ہے۔ اس نے ملک پاکستان کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ یہ بوڑھا نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ چلتے چلتے راستے بوڑھے لگنے لگے ہیں۔ یہ کمال دریا ہے۔ دیوتا ہے سائیں دیوتا۔ لوگ اس سے ڈرتے بھی ہیں، اسے مانتے بھی ہیں اور اس سے محبت بھی کرتے ہیں۔“ ان پڑھ کی بات میں کتنی سیانت کی بات ہے۔ غور کریں۔
تھوڑی ہی دیر میں ہماری کشتی سندھو کے پانیوں سے کھیتی دریا کے بیچ پہنچ گئی ہے۔ اس کے ہلورے بھی بڑھ گئے ہیں۔ میں ڈرا۔ شاید حضور بخش میرے ڈر کو بھانپ گیا ہے۔ کہنے لگا، ”جناب! یہ بھی ان کشتی رانوں کی مہارت ہے کہ آپ کو سندھو کے بیچوں بیچ لئے جا رہے ہیں۔ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں بس تھوڑا فاصلہ طے کر کے ہم واپس کنارے کے قریب آ جائیں گے۔سندھو کے اس حصے میں کنارے کے قریب بھنور زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے سفر کنارے سے دور ہٹ کر کیا جاتا ہے۔“ اس کی بات سن کر سبھی کا حوصلہ بندھ گیا پر میرا دل اندر سے ڈرا ہی رہا ہے۔
گرمیوں میں دوپہر کے وقت سندھو کا پانی بھی کچھ گرم ہو جاتا ہے اور اس وقت سفر بھی کچھ مشکل ہوتا ہے۔ سب سے بڑی مشکل کہ سورج کی کرنوں میں چمکتا سندھو کا پانی خود پر نظر بھی ٹکنے نہیں دیتا۔ چاچا گاموں بولا، ”سائیں! گرمی کے موسم میں دوپہر سے پہلے ہی لنگر ڈال لیتے ہیں اور پھر سہ پہر ڈھلتے سفر دوبارہ شروع کیا جاتا ہے، سورج ڈوبنے تک۔“
ادھر سورج ہمارے سر پر پہنچا ادھر کشتی بھی کنارے لگی ہے۔ درختوں کی چھاؤں میں دری بچھا کر سبھی سستانے لگے ہیں۔ سورج کی حدت میں کچھ کمی آئے گی تو آگے کا سفر شروع ہوگا۔
مجھے داستان گو کی سر گوشی سنائی دی ہے، ”میں تونسہ کا چکر لگا کر مٹھن کوٹ پہنچتا ہوں۔ میرا اور چناب کا سنگم مٹھن کوٹ۔(یاد رہے پنجاب کے باقی دریا پنجند پر ملتے ہیں۔) میدانی علاقوں میں، میں جانوروں، انسانوں اور فصلوں کو زندگی دیتا بہتا ہوں۔ ہاں میری طغیانی میں موت اور تباہی ہے۔“
مجھے سکردو میں کہی محمد علی کی بات یاد آ گئی ہے۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ سر! سندھو نہ ہمیں کوئی فائدہ دیتا ہے اور نہ کوئی نقصان پہنچاتا ہے لیکن پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں یہ زندگی دیتا خوشحالی بکھیرتا ہے۔ خوشیاں اور غم بھی بانٹتا ہے
سندھو بتاتا ہے، ”ڈیرہ غازی خاں کے علاقے میں ریت کے میدان صرف ریت کے رنگ کے نہیں ہیں بلکہ بھورے، پیلے، سرخی مائل اور کہیں کہیں سفید ہیں۔ اب یہاں کا منظر نامہ بھی بدل چکا ہے۔ وقت کے ساتھ ہونے والی ترقی اور تبدیلی یہاں بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ قصبے شہر بن گئے ہیں۔ کبھی خرگوش، لومڑیاں، تیتر، پہاڑوں پر اڑیال، چرخ، چیتے پائے جاتے تھے۔ مجھ میں اود بلاؤ بھی تھے۔ صحراؤں میں طوطے، الو، بٹیر، تلور، گدھ، کالا تیتر، کبوتر، فاختہ اور دوسرے چرند پرند بھی تھے۔ بڑھتی آبادی اور بے تحاشا غیر قانونی شکار نے بہت کچھ ختم کر دیا ہے۔ میرا پانی جب پشتوں سے باہر نکل کر نشیبی علاقوں میں بھر جاتا ہے تو اس میں سارس، بگلے، مرغابی وغیرہ جمع ہو جاتے ہیں۔ پرندے سرسبز کھیتوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہی پرندے ہیں جو ان کھیتوں میں موجود درختوں پر بنے گھونسلوں میں رہتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے مارنے والی ادویات نے ان حشرات الارض کے ساتھ ساتھ پرندوں کو بھی ختم کر دیا ہے۔ مدت ہوئی گدھ نظر ہی نہیں آئے۔کھیتوں کے اس سمندر میں ریگستانی جزیرے بھی ملتے ہیں۔ ریت کی پہاڑیاں بلند اور بنجر ہیں البتہ کہیں کہیں درختوں کے بیلے ضرور ہیں۔“
ڈیرہ غازی خاں میں کئی برس پہلے مجھے سردار محسن کھوسہ کے ڈیرے جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اعلیٰ نسل کے کچھ شاندار گھوڑے دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی سندھو کے کناروں پر بڑا شکار تھا۔ یہاں وائلیڈ بور اور دوسرے جانور تھے۔ گھوڑے پر سوار ان جانوروں کے شکار کی سنسنی کا اندازہ آپ کی سوچ سے باہر ہے۔ اس خطے کے مرد آج سے چالیس پچاس سال پہلے ایسے ہی شوق رکھتے تھے۔ پوری اسپیڈ پر گلپ کرتا گھوڑا اور اس سے آگے جان بچاتا ہوا شکار۔۔ رونگھٹے کھڑے کر دینے والا نظارہ ہوتا ہے اور پھر دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے شکار کا نشانہ گھڑ سوار کی مہارت اور جوانمردی ہے۔ یہ سب بڑا سنسنی خیز اور قابل دید ہے۔ خیر اب تو جنگل بھی ویسا نہیں رہا ہے اور شکار بھی کم ہو گیا ہے۔۔ البتہ گھوڑے پالنے اور گھڑسواری کا شوق ختم نہیں ہوا۔ ہاں گھوڑوں پر شکار کی عادت ضرور کم پڑ گئی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔