قوموں کے عروج و زوال کا موضوع مؤرخوں میں دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ کبھی اسے فتوحات کی نظر سے دیکھا گیا تو کبھی معاشی خوشحالی سے اور کبھی علمی کارناموں سے، لیکن بعض مؤرخوں نے ان تینوں کو ملا کر عروج و زوال کو بیان کیا ہے۔
رومی سلطنت کے بارے میں اس کے اہم مؤرخین نے رومی تاریخ کے مختلف مرحلوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے عروج میں جن اخلاقی اقدار کا کردار رہا ہے، ان اقدار میں نیکی، بہادری، جرأت، دیانت اور قومی فخر شامل ہیں۔ زوال اس وقت شروع ہوا، جب ان اخلاقی اقدار میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی اور ان کی جگہ بدعنوانیوں، عیاشیوں اور سازشوں نے لے لی۔
اس موضوع پر برطانوی مصنفہ Catalina Balmaceda نےPolitics and Morality in the Roman Historians کتاب لکھی، جس میں عروج و زوال کا تذکرہ مؤرخوں کے تاریخی نظریات میں ملتا ہے۔ مؤرخ رومی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا ریپبلکن عہد، دوسرا آگسٹس سے نیرو تک جبکہ تیسرا نیرو کے بعد کا دور جس میں آہستہ آہستہ سیاسی انتشار پیدا ہوا۔
مؤرخ اپنے زمانے کے اعتبار سے ان ادوار کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ مثلاً رومی سیاستدان اور تاریخ دان Sallust جو ریپبلکن دور کو رومیوں کی اخلاقی اقدار کے لحاظ سے اہمیت دیتا تھا۔ اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس کے اپنے زمانے میں یہ اخلاقی اوصاف بدعنوانیوں سے آلودہ ہوتے چلے گئے۔ اس کا ایک سبب وہ یہ بتاتا تھا کہ جب بھی نیکی اور دیانت کی جگہ ذاتی مفادات اور خواہشات آجائیں تو اس سے قومی کردار کمزور ہو جاتا ہے۔ وہ اس کا بھی مخالف تھا کہ سیاست پر خاندانوں کا قبضہ رہے اور دوسرے باصلاحیت افراد کو آگے بڑھنے کے مواقع نہ ملیں۔ اس کی مثال وہ ریپبلکن دور میں خاندانی امراء اور بہادر طبقے سے دیتا تھا۔
Marius جو Plebian یا عوام کا نمائندہ تھا اور بطور رومی جنرل اس نے کئی کارنامے سرانجام دیے تھے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی عظمت کی نشانی خاندانی شجرے نہیں بلکہ وہ زخم ہیں جو اس کے سینے پر ہیں۔ مشہور فلسفی Cicero (d.43BC) بھی نئے ابھرتے ہوئے طبقے کا حامی تھا۔
Sallust اس پر بھی اظہار افسوس کرتا رہا کہ اس کے اپنے عہد میں زبان کا استعمال بھی بگڑ گیا تھا۔ اس کی لطافت اور شگفتگی ختم ہو گئی تھی اور اس کی جگہ بھدے اور بے معنی الفاظ نے لے لی تھی۔ خاص طور سے وہ سیاست میں سازش کے عمل کو تباہ کن سمجھتا تھا۔
Sallust اپنے زمانے میں رومی زوال کی علامتیں دیکھ رہا تھا جبکہ آنے والے مؤرخ Livy نے رومی سلطنت کی جامع تاریخ لکھی ہے۔ لیوی نے Augustus کا زمانہ بھی دیکھا تھا۔ اس عہد میں رومی سلطنت فتوحات کی بدولت وسیع ہو گئی تھی۔ امن و امان تھا۔ معاشی خوشحالی تھی۔ فتوحات کے جلوس نکلتے تھے اور عوام کو اپنے جرنیلوں پر فخر تھا۔ نئی یادگاریں تعمیر ہو رہی تھیں اور جیوپیٹر کے مندر میں مال غنیمت جمع ہو رہا تھا۔ ان علامات کی بنیاد پر Livy اپنے عہد کو رومی سلطنت کا عروج سمجھتا رہا۔ ان کے دور میں ان عورتوں کا بھی ذکر ہے جنہوں نے رومی سلطنت کی خاطر کارنامے سرانجام دیے اور قربانیاں بھی دیں۔ لہٰذا ان کی تاریخ میں قدیم رومی عہد کے اوصاف پائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے سلطنت اور معاشرہ پائیدار بنیادوں پر قائم ہوا تھا۔
تیسرا اہم مؤرخ Tacitus تھا جو دور انتشار کی پیداوار تھا۔ اس لیے اس نے سلطنت اور معاشرے میں اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کیا۔ اس کا مقابلہ وہ ان جرمن قبائل سے کرتا ہے جو جنگجو تھے، باہمی متحد تھے، سادہ زندگی گزارتے تھے اور آزاد رہتے ہوئے اپنے کردار کی تشکیل کرتے تھے۔ ان کے سردار نہ تو محلوں میں رہتے تھے، نہ عیاشی والی زندگی گزارتے تھے اور نہ ہی اپنے لوگوں پر جبر کرتے تھے۔
جرمن قبائل کے برعکس رومی جنرلز بدعنوانیوں میں ملوث ہو چکے تھے۔ مال و دولت اکٹھا کرتے تھے۔ آپس کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے فوج بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھی۔ سلطنت میں ہونے والی بغاوتوں کا خاتمہ مشکل ہو گیا تھا۔ جب نیکی، دیانت اور جرأت ختم ہو جائیں تو پھر کسی بھی قوم کے لیے اپنے عروج کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے Tacitus بھی رومی زوال کو دیکھ رہا تھا۔ قوم کے اخلاقی کردار کی کمزوری اس کے زوال کا سبب بن رہی تھیں۔
ان کے علاوہ کچھ مؤرخوں نے ان شخصیات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جنہیں ہیروز کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ Julius Caesar کو رومی تاریخ میں اور بعد میں آنے والے مؤرخوں اور ادیبوں نے بطور ہیرو پیش کیا ہے۔ اس میں سیزر کی اپنی وہ تحریریں بھی ہیں جو اس نے جرمن قبائل کو شکست دے کر اور برطانیہ کے حملے کے بعد لکھی تھیں۔ اسلوب کے لحاظ سے اس کی یہ تحریریں بے حد موثر ہیں۔ ان کی بنیاد پر ایک عظیم فاتح اور ادیب قرار دیا گیا ۔
Suetonius جو ایک رومن ہسٹورین (Historian) تھا۔ اس نے سیزر پر تنقید کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک تو اس نے اپنی تحریروں میں اپنے کردار کے بارے میں مبالغے سے کام لیا۔ دوسرے جرمن قبائل کی فتوحات میں وہ قتل عام اور خونریزی کا مرتکب ہوا۔ جس پر سینیٹ نے بھی اس پر تنقید کی۔ برطانیہ میں حملہ کر کے اس نے وہاں لوٹ مار کر کے دولت اکٹھی کی۔ چونکہ اس کے پاس فوجی طاقت تھی، اس لیے جب وہ واپس روم آیا تو سینیٹ اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلا سکی۔ اُس نے سینیٹ کو اپنا ماتحت کر کے خود کو تاحیات ڈکٹیٹر بنا لیا۔ لہٰذا اس کے قتل کے بعد اس کا خاندان اقتدار میں آگیا اور روم ریپبلکن سے بادشاہت میں بدل گیا۔
ایک اور رومی مؤرخ نے سیزر پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ڈکٹیٹر کے بعد شہنشاہ بننے کا خواہش مند تھا۔ ریپبلک کو بچانے کی خاطرBrutus اور اس کے ساتھیوں نے سیزر کو قتل کیا۔ اس میں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا اس لیے رومی تاریخ میں سیزر نہیں بلکہ بروٹس اور اس کے ساتھی ہیروز ہیں۔
بعد کے مؤرخوں نے اور خاص طور سے شیکسپئیر نے اپنے ڈراموں میں سیزر کو بطور ہیرو پیش کیا ہے، جبکہ بروٹس اور اس کے ساتھی رومی قوم کے اخلاقی کردار کے حامی تھے۔ وہ رومی سلطنت کو بادشاہت کے جبر سے نجات دلا کر اس کی آزادی اور نیکی کو واپس لانا چاہتے تھے۔
تاریخ کو ہمیشہ مختلف نظریات کی روشنی میں لکھا جاتا رہا ہے۔ انہی نظریات کے درمیان معاشرے کے طبقے کے مفادات نظر آتے ہیں۔ کہیں مؤرخ حکمرانوں کی خوشامد کرتے اور کہیں وہ ان کے اختیارات کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان نظریات کے تصادم میں تاریخ آگے کی جانب بڑھتی ہے۔
عروج و زوال کے اس تناظر میں جب ہم پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں ابتدا ہی سے عروج کے کوئی آثار نہیں ملتے بلکہ زوال کی علامتیں نمایاں ہیں، جو آہستہ آہستہ اُبھر کر مکمل طور پر ہمارے سامنے آگئی ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اخلاقی اقدار کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ سیاست پر خاندانوں کا قبضہ ہے۔ فوج اپنی مراعات کو محفوظ رکھنے کے لیے سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور معاشرے کے بقیہ افراد اپنی زندگی کے تحفظ اور ذاتی مفادات کے لیے قومی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں، اگر ہم غور کریں تو رومی سلطنت کے زوال اور پاکستان کے زوال میں مماثلت دکھائی دے گی۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)