بھارت کی ہمالیائی ریاست سکم میں ایک بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم کے ٹوٹنے کے بعد سیلاب سے کم از کم 41 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے، مکانات اور پل بہہ گئے ہیں اور ہزاروں لوگ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں
زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں جمعے سے سینکڑوں امدادی کارکن کیچڑ کے ملبے اور تیز بہاؤ والے برفیلے پانی کو چھان رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی آفت ہے، جس کے بارے میں بہت سے لوگ برسوں سے خبردار کر رہے تھے
یہ تباہ کن سیلاب بدھ کی صبح شروع ہوا، جب ایک پہاڑی علاقے میں واقع جھیل میں سیلاب آنے کے بعد بڑی مقدار میں پانی نیچے ایک بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم سے ٹکرا کر وادی میں بہہ گیا
یہ واضح نہیں ہے کہ ہلاکت خیز سیلاب کس وجہ سے آیا، لیکن ماہرین نے شدید بارش، اور 6.2 شدت کے اس زلزلے کو ممکنہ وجہ بتایا ہے، جس نے منگل کو پڑوسی ملک نیپال کو نشانہ بنایا تھا
تاہم یہ تباہی ماحولیات سے متعلق ایک مخمصے کی بھی نشاندہی کرتی ہے، جس کے بارے میں مقامی ماحولیاتی کارکن پریشان ہیں۔ ان کارکنان کا کہنا ہے کہ ہمالیہ میں تعمیر کیے جانے والے ڈیم، ماحول دوست توانائی کے قومی ایجنڈے کے لیے بہت خطرناک ہیں
سکم ریاست کے سب سے بڑے، چھ سال پرانے تیستا 3 ڈیم کا ڈیزائن اور جگہ کا تعین، اس کی تعمیر کے وقت سے ہی متنازعہ تھا
عالمی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق سکم اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے 2019ع میں مرتب کردہ ایک رپورٹ میں لوناک جھیل کو ایسے شدید سیلاب کے لیے ’انتہائی کمزور‘ قرار دیا گیا تھا, جو ڈیموں کو توڑ نے کے قابل ہو اور جان و مال کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا سکتا ہے
دوسری جانب ڈیم کے آپریٹر، اور ڈیم کی حفاظت کی ذمہ دار مقامی محکموں نے جمعہ کو کسی تبصرے سے انکار کیا ہے
واضح رہے کہ بھارت صاف توانائی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لئے ڈیموں پر انحصار کر رہا ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کو سست کرنے کی عالمی کوشش کا حصہ ہیں
بھارتی حکومت کا مقصد 2030 تک ملک کی ہائیڈرو پاور کو ، 70,000 میگاواٹ کرنا ہے اور اس نے ملک کے شمالی پہاڑی علاقے میں سینکڑوں نئے ڈیم بنانے کی منظوری دی ہے
لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں موسموں کی شدت مییں اضافہ جو جزوی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے، بہت سے ڈیموں اور زیریں علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خطرے میں ڈالتا ہے
ایک سال میں مون سون کے موسم میں غیر معمولی بارشوں کے باعث شمال مشرقی بھارت میں آنے والا یہ تازہ ترین سیلاب تھا۔ ہماچل پردیش کی قریبی ریاست میں اگست میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے تقریباً پچاس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جولائی میں ریکارڈ بارشوں نے شمالی بھارت میں دو ہفتوں کے دوران ایک سو سےزیادہ افراد کو ہلاک کیا
اس تباہی کی ایک مثال گزشتہ ماہ طوفان ڈینیئل کی وجہ سے ڈیم ٹوٹنے کے بعد لیبیا کے شہر درنا کو پہنچنے والا تباہ کن نقصان ہے
تیستا-3 ڈیم کے ڈیزائن اور جگہ کا تعین اس وقت سے متنازعہ تھا جب اسے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ بھارتی حکومت کی جانب سے ہائیڈرو پاور انرجی کو وسعت دینے کے دباؤ کا حصہ تھا۔ مقامی کارکنوں کا استدلال تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی حالات ہمالیہ کے علاقےمیں ڈیم کو بہت خطرناک بنا دیتے ہیں
غیر سرکاری تنظیم ساؤتھ ایشین نیٹ ورک فار ریورز، ڈیمز اینڈ پیپل کے ہمانشو ٹھاکر کا کہنا ہے کہ، ”ریاست کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہونے کے باوجود، وہاں کوئی قبل از وقت وارننگ سسٹم نصب نہیں کیے گئے تھے حالانکہ گلیشیئر کا بہہ جانا ایک واضح خطرہ تھا“
جمعہ کو انڈیا کی نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق، وہ بھارت کی چھپن معروف برفانی جھیلوں میں سے زیادہ تر پر ریئل ٹائم الرٹس کے لیے ابتدائی وارننگ سسٹم قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں
ٹھاکر نے کہا کہ حکام ہمالیائی ریاست اتراکھنڈ میں 2021 کے ڈیم کی ٹوٹ پھوٹ سے سبق سیکھنے میں ناکام رہے جس میں اکیاسی افراد ہلاک ہوئےتھے
ڈیم کے آپریٹرز، اور ڈیم کی حفاظت کے لیے ذمہ دار مقامی محکمہوں نے جمعہ کو تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا
2021 میں، بھارت کی وفاقی حکومت نے بندوں کی حفاظت کا ایک قانون پاس کیا جس کے تحت آپریٹرز اور مقامی حکومتوں کو ہنگامی حالات کے لیے منصوبہ بندی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، لیکن تیستا-3 ڈیم کی بھارت کے چیف ڈیم ریگولیٹر، سینٹرل واٹر کمیشن کے ذریعے نگرانی کے لیے درج نہیں کیا گیا ہے
2021 میں ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ڈیم تباہ کن سیلاب کی وجہ بن سکتے ہیں۔ جنوبی لوناک جھیل میں حالیہ برسوں میںپانی کی سطح بلند رہی ہے کیونکہ گرم آب و ہوا گلیشیئرز کو پگھلا رہی ہے، جس سے ڈیم پر دباؤمیں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہےکہ بدھ کو ڈیم میں شگاف کی وجہ کیا تھی