سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط57)

شہزاد احمد حمید

میں اپنے دوست ستاروں کو چاندا ماموں کے گرد جھرمٹ میں چمکتے دیکھ رہاہوں۔یہ دلفریب نظارہ ہے۔ بچپن سے ہی مجھے ان ستاروں اور چندا ماموں سے خاص نسبت ہے۔ اس زمانے میں آسمان صاف اور ستاروں سے چمکتا دمکتا ہوتا تھا۔ کئی بار لگتا یہ ستارے مجھ سے زیادہ دور نہیں ہیں اور کتنی بار ان کو بچپن میں گننے کی کوشش بھی کی۔ اس دور کے بچے ایسی کوشش کرتے کرتے ہی سو جایا کرتے تھے۔ کون بھلا انہیں گن سکتا ہے۔ وقت آگے بڑھتا رہا اور یہ ہم سے دور جانے لگے۔ دور جاتے جاتے یہ ہمارے شہروں سے ہی روٹھ گئے اور سائنسی ترقی کے اس دور میں یہ کبھی کبھار ہی درشن دیتے ہیں۔ سارے پاکستان میں ایسا نہیں۔ تاروں بھری جگمگاتی رات دیکھنے کے لئے شمالی علاقہ جات، صحرا اور دیہی علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ باقی دنیا میں بھی ان کی دمک ماند نہیں پڑی ہے۔ ہمارے ہاں تو فضائی آلودگی اتنی بڑھ گئی ہے اور حد یہ ہے کہ”سموگ“ سورج بھی نہیں نکلنے دیتا۔ یہاں سندھو کے کنارے اس ویرانے میں انہیں دیکھا تو اپنا بچپن یاد آ گیا ہے۔

باس کہنے لگے، ”مجھے بھی ان ستاروں کی چمک دمک یاد ہے لیکن ہمارے دیہاتوں میں ابھی بھی رات تاروں کی چمک اور ستاروں کی کہکشاں پرانے دور والی ہی ہے۔ تمھارے شہر آلودگی کا گڑھ ہیں لہٰذا ستارے بھی روٹھ گئے ہیں۔ چولستان کی راتیں بھی تمھیں یاد ہی ہوں گی۔ شفاف آسمان پر ستارے۔۔۔ اللہ اللہ کیا دلکش رات ہوتی ہے۔ دل چاہتا ہے رات بھر جاگ کر ان ستاروں کو ہی دیکھتے رہیں۔“

واہ صحرائی رات، چاند اور ستارے، آنکھ پلک چھپکنا بھول جاتی ہے۔ کتنی ہی رات بیت چکی ہے۔ ڈرا دینے والا سناٹا ہے۔ دور دور تک کسی چراغ کی روشنی بھی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ خنکی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے قریب جلتی لکڑیاں بھی کب کی بجھ چکی ہیں۔ ہم اٹھے اور اپنے خیمے کی طرف چل دئیے ہیں۔ ہوا تیز چلنے لگی ہے۔

صبح آج بھی کل کی طرح کی تازہ ہے دھوپ نرم اور ہوا ذرا گرم ہے۔ سندھو کے پانی کی روانی البتہ مستانی ہے۔ میں حضور بخش کے پاس چلا آیا ہوں۔ وہ بولا، ”سائیں! رات کیسی گزری۔“ میں نے جواب دیا؛ ”خوب سویا لیکن رات ہوا بہت تیز تھی اور ڈر بھی کافی لگا لیکن رات کے آخری پہر نیند بھی خوب آئی۔“ میری بات سن کر وہ بتانے لگا، ”میڈا سائیں! سندھو کنارے کبھی کبھی رات کو تیز ہوا کا طوفان آتا ہے۔ ہوا کی آواز اور رات کی سیاہی خوف زدہ کر دیتی ہے۔ گزری رات بھی کچھ ایسی ہی ہوا چلی تھی۔ سائیں! چند دن پہلے کی بات ہے۔ ہم گڈو کے قریب خیمہ زن تھے۔ اتفاق کہہ لیں اُس رات بھی ایسی ہی تیز ہوا چلی تھی۔ ایسی ایسی سیٹی بجاتی تھی کہ دل دہل دھل جاتا تھا۔ ایک بار تو یوں لگا کہ خیمے ہی اڑ جائیں گے۔ ہوا کی آواز اور شور سے محسوس ہو رہا تھا باہر جن بھوتوں نے حملہ کر دیا ہو۔ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ خوف سر سے پاؤں تک جسم میں سرایت کر گیا تھا۔ سائیں! اکثر ایسی تیز ہوا اپنے پیچھے دکھ اور کرب کی داستانیں بھی چھوڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات منظر بہت دل سوز ہوتے ہے۔ شکر ہے رات خیریت سے گزر گئی۔ ویسے ہمارے لئے یہ ہوا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یقیناً آپ کے لئے طوفانی ہوا تھی۔“ مجھے لگا سندھو نے سرگوشی کی ہے جیسے کہہ رہا ہو، ”دیکھا میرا ایک اور روپ۔“

نئی صبح طلوع ہو رہی ہے۔میں سندھو کو بہتے دیکھنے لگا ہوں۔ لہردر لہر آتی موج پر بکھرے دھوپ کے موتی۔ لشکارے مارتی دھوپ ان کی چمک دمک میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ حضور بخش کی آواز پر ناشتہ کرنے چلا آیا ہوں۔ ناشتے کے بعد کشتی ایک بار پھر سندھو کے پانی پر کھینے لگے گی۔

چاچا کا موڈ آج صبح ہی سے بہت رومانی ہو رہا ہے۔ وہ چپو چلاتے خواجہ فریدؒ کا کلام ’میڈا عشق وی توں‘ گا رہا ہے۔ حضور بخش تھال بجا رہا ہے۔ نا جانے اس گیت میں ایسا کیا ہے جب بھی سنو دل میں ہی اتر جاتا ہے۔ یقین کریں چاچا بہت اچھا گا رہا ہے۔ مجھے لگا سندھو کی لہروں میں بھی ہلچل ہے۔

ہماری آج کی منزل گڈو بیراج سے کچھ پہلے ہمارے دوست اور میزبان وڈیرہ نور محمد کا گاؤں ’گوٹھ وڈیرہ نور حسن خان موضع دبیر حسین آباد‘ کے نام سے منسوب ہے۔ اس کے گاؤں سے تقریباً ایک کلو میٹر کی دوری پر سندھو بڑے سکون اور وسیع پاٹ میں بہتا ہے۔ گھنا وسیع بیلہ سندھو کے مشرقی کنارے سے دو تین کلومیٹر کی دوری پر دریا کے عین بیچ واقع اور ڈاکوؤں کی بڑی پناہ گاہ ہے۔ یہاں پہنچنے کا راستہ موٹر بوٹ یا کشتی ہی ہے۔ یہ گاؤں شاید پاکستان کا واحد مقام ہے جہاں 3 صوبے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی سرحدیں ایک دوسرے سے 1 کلو میٹر کے (radius) دائرہ میں آپس میں ملتی ہیں۔ بلوچستان کی سرحد (ضلع سوئی) یہاں سے 3 کلو میٹر اور سندھ کی سرحد (ضلع کشمور) ایک کلو میٹر کی دوری سے پنجاب سے ملتی ہیں۔ ضلع راجن پور کی سرحد آدھ کلو میٹرکی دوری پر ہے۔ شام کی ڈھلتی کرنوں کے ساتھ کشتی کا رخ گوٹھ نور محمد کی جانب ہے۔ سندھو سے اس کا ڈیرہ دو(2) کلو میٹر دور ہے۔ سندھو کے پانیوں کو چھوتی ہلکی ہوا نے موسم خوش گوار کر دیا ہے۔ ہوا کے علاوہ دوسری آواز کشتی کے ڈیزل انجن کی ہے۔

کشتی کنارے لگی اور وڈیرہ نور مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہہ رہا ہے۔

صادق آباد کشمور مرکزی شاہراہ سے بیس منٹ طویل پکی سڑک (جو 2010 ء میں محکمہ بلدیات نے اسی(80) لاکھ کی لاگت سے تعمیر کی تھی) سرسبز کھیتوں (اس میں بہت سے کھیت وڈیرے نور کی ملکیت ہیں) سنسان ویرانوں اور کٹی پھٹی زمین کے درمیان سے گزرتا وڈیرے نور محمد کے گاؤں آتا ہے۔ کثافت سے پاک آب و ہوا، گاؤں کا پرسکون ماحول، ترو تازہ ہوا اورقریب سے بہتا دنیا کا عظیم دریا۔۔ سندھو۔ اس سولنگ روڈ کا ٹھیکہ وڈیرے نور کے پاس تھا۔ یہیں نور سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی جب میں چیف انجنئیر بلدیات محترم کرامت علی (مرحوم) کے ساتھ اس منصوبے کے معائنہ کے لئے آیا تھا۔

میرا دوست دشتی قبیلے کی ہر دلعزیز شخصیت ’چیف مقدم وڈیرہ نور حسن خان دشتی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وڈیرے نور کا ڈیرہ کشادہ اور اس سے ملحقہ حویلی اس کی خوشحالی کی نشانی ہیں۔ چھرا بدن، لمبا قد، بڑی چمکتی آنکھیں۔خوش شکل، خوش اخلاق، مہمان نواز، تعلیم یافتہ اور خوش لباس۔ یہ ہے میرا دوست میرا میزبان۔ چہرے کی مسکراہٹ، پر تکلف دستر خوان وڈیرے کی محبت اور خلوص کے عکاس ہیں۔ ایسے ہی سادہ اور پر خلوص لوگ اس دھرتی کا سرمایہ، اس کی پہچان اور اس کی ثقافت کے امین ہیں۔

ہم وڈیرے کے ڈیرے چلے آئے ہیں۔ نور حسن مجھے اور نین کو اپنی والدہ سے ملوانے حویلی چلا آیا ہے۔ ماشااللہ وڈیرے نور حسن کی والدہ ایک سن رسیدہ اور خالصتاً دیہاتی خاتون ہیں۔ اس بوڑھی عورت کا نورانی چہرہ دور سے لاٹیں مارتا نظر آتا ہے۔ ایسے روشن چہرے اب کم کم ہی ایسی شان بان سے نظر آتے ہیں۔خوب بلائیں لیں، دعائیں دیں، ماتھا چوما۔ نین کو انہوں نے اپنے پاس ہی بیٹھا لیا ہے۔

واپس ڈیرہ پر آیا اور صحن میں بچھی نواڑ کی چارپائی پر دراز ہو گیا ہوں۔ نا جانے ان چارپائیوں میں ایسی کیا بات ہے کہ لیٹتے ہی نیند آنے لگتی ہے۔ تھکاوٹ اتر جاتی ہے۔ شاید اس میں بھی ان سادہ لوگوں کا خلوص رچا ہے۔

وڈیرے نور محمد سے میری دوستی اسی روز شروع ہو گئی تھی، جب میں پہلی بار اس کے گاؤں میں اُسے ملا تھا۔ یہ دبلے بدن کا عام سا شخص انتہائی پر خلوص اور دوستی نبھانے والا ہے۔ میری سیاحت کے شوق کا سن کر وہ مجھے ’گڈو بیراج‘ (کشمور) لے گیا تھا۔(جہاں اس کے چاچا عبدالرزاق خان اسٹور افسر واپڈا گڈو میں ملازم تھے۔) وہ گرمی کا موسم تھا اور سندھو انتہائی چوڑائی میں پھیلا بہہ رہا تھا۔ سورج کی روشنی میں تا حد نظر اس کا پانی موتی بکھیر رہا تھا۔ ہم نے گڈو پاور ہاؤس بھی دیکھا تھا جہاں چیکو سلاوکیہ کی بنی ٹربائینز بجلی پیدا کرتی ہیں۔ کارکردگی میں شاندار۔ لگائے جانے سے لے کر 2013ء تک ماسوائے mainteance کے یہ کبھی بھی بند نہیں ہوئیں ہیں۔ پاور ہاؤس کی سیر کے بعد نور محمد کے ماموں کے ہاں ہم پرتکلف ضیافت سے لطف اندوز ہوئے تھے۔ مدت بعد یہاں آیا تو وہ وقت آنکھوں میں گھوم گیا ہے۔ مجھے یاد آیا ہم سندھو کے ساتھ کچے راستے پر سفر کرتے کسی جگہ سے پکی سڑک پر چڑھے گڈو پہنچے تھے مگر وہ راستہ ذہن کے کنوس سے محو ہو چکا ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود میں یاد نہ کر پایا۔ بڑھاپا چیز ہی ایسی ہے۔7 سال پہلے نورمحمد مجھے سندھو کی سیر کو لے گیا تھا۔ میں ڈرتے ڈرتے موٹر بوٹ پر سوار ہوا تھا۔ موٹر بوٹ سے ہم اس بیلے کے قریب سے واپس مڑے تھے جو ڈاکوؤں کا مسکن تھا۔ وڈیرے نے مجھے بتایا تھا کہ ”اس بیلے میں ڈاکو رہتے ہیں اور پولیس بھی کم کم ہی ادھر جاتی ہے۔“ تقریباً پندرہ بیس منٹ کی دریائی سیر سے واپس آئے تو میں واپس اپنے دفتر بہاول پور چلا گیا۔ یہ ہے میری وڈیرہ حسن سے دوستی کی کہانی جو آج بھی محبت اور خلوص کے محترم جذبہ پر قائم ہے۔

”اس علاقے میں سندھو کے عین درمیان بیلہ یا جزیرہ کوئی عام یا نظر انداز کرنے والی جگہ نہیں ہے۔“ نور حسن نے ہمیں بتایا، ”یہ مشہور زمانہ ’چھوٹو گینگ‘ کی پناہ گاہ ہے۔ یہ بدنام زمانہ گروہ عرصہ دراز سے اس بیلے کو اپنی پناہ گاہ بنائے ہیں۔ ان کے پاس جدید اسلحہ، موٹر بوٹس ہیں جو ہماری پولیس کے پاس نہیں ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس پناہ گاہ میں پولیس کی کچھ کالی بھڑیں ان کی مدد گار رہی ہیں۔ ان کو ہاتھ ڈالنے سے پولیس بھی ڈرتی ہے۔ یہاں بدنام زمانہ غلام رسول عرف چھوٹو کا راج ہے۔

سندھو کہہ رہا ہے؛”تم میری کہانی لکھنے یہاں پہنچے ہو دیکھو وقت نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ اینٹوں کی بنی سڑک اب کارپیٹ ہو چکی ہے۔ آبادی بڑھ گئی ہے اور کھیت کھلیان کم ہو گئے ہیں۔ سڑک پر موٹر سائیکلوں کی بھیڑ ہو چکی ہے لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ میری روانی ہے۔ شام ہونے کو ہے۔ ڈوبتا سورج ہر روز میرے پانیوں پر ناقابل یقین مناظر تراشتا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ اڑتے پرندے میرے پانی سے جیسے چھوتے گھروں کی راہ لئے ہیں۔ میری پر سکون لہریں پر سورج کی بنفشی کرنوں نے اپنا رنگ چڑھادیا ہے۔ دن کو سنہرا نظر آنے والا پانی اب مختلف رنگوں کی قوس قزاح بناتا اندھیرے کے انتظار میں ہے۔ ہر جاتا منظر ایک نیا رنگ دے کر غائب ہو جاتا ہے۔ مجھے لگا کہ سورج بھی کہیں میرے پانی پر ہی اتر ے گا اور پیچھے اندھیراچھوڑ جائے گا۔“ واہ اللہ! تیرے رنگ نرالے ہیں تو ہی خالق و مالک ہے تمام جہانوں کا۔۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close