جوابی حکمتِ عملی کے طور پر پی ٹی آئی کے حلفیہ وڈیو بیانات۔۔

ویب ڈیسک

9 مئی کے واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے پریس کانفرنس اور ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے عمران خان سے اعلان تعلقی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی یا عام تاثر کے مطابق ان سے یہ سب کچھ کروایا گیا ہے

گذشتہ ہفتے پاکستان تحریکِ انصاف کے سیالکوٹ سے رہنما اور عمران خان کے قریبی ساتھی عثمان ڈار ’قانون لاگو کرنے والے اداروں کی حراست’ سے حیران کن طور پر ٹی وی پر نمودار ہوئے اور پرائم ٹائم میں ’انٹرویو‘ بھی دے ڈالا

انہوں نے اپنی ’حراست‘ کے بعد ٹی وی انٹرویو میں عثمان ڈار نے 9 مئی کے واقعات کی ذمہ داری عمران خان پر عائد کی۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے جن سابق عہدے داروں نے یہ الزام عمران خان پر دھر کر پارٹی چھوڑی، ان سب نے پریس کانفرنس کا سہارا لیا لیکن اس بار مختلف یہ تھا کہ سیدھا پرائم ٹائم میں انٹرویو ہی نشر کر دیا گیا

اگرچہ یہ طریقہ کچھ زیادہ کارگر دکھائی نہیں دے رہا اور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے کارکنوں سے لے کر عوام تک اسے بھونڈی کوشش قرار دے رہے ہیں

لیکن اس کے باوجود جوابی حکمتِ عملی کے طور پر تحریک انصاف کے متعدد روپوش رہنما اپنی وڈیوز جاری کر کے حلفیہ بیانات دے رہے ہیں کہ عمران خان نے انہیں کبھی تشدد اور قومی تنصیبات پر حملوں کی ہدایات جاری نہیں کیں

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس بارے میں وہ بعد ازاں کوئی اور بیان جاری کرتے ہیں تو وہ زبردستی اور مجبوری کے عالم میں لیا گیا بیان ہوگا

اس سلسلے کا سب سے پہلا بیان عثمان ڈار کی والدہ کی طرف سے جاری ہوا، جس میں انہوں نے کہا کہ عثمان ڈار سے گن پوائنٹ پر انٹرویو کروایا گیا ہے اور اب وہ خود میدان میں اتر کے الیکشن لڑیں گی اور دکھائیں گی کہ وہ ’شیر‘ کا کیا حشر کرتی ہیں

اس کے بعد پی ٹی آئی کراچی کے سینیئر رہنما فردوس شمیم نقوی، پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان، حماد اظہر، خیبر پختونخوا کے صدر علی امین گنڈا پور، اور مراد سعید سمیت کئی رہنماؤں نے اپنے حلفیہ وڈیو بیان جاری کیے اور یہ کہا کہ اس کے بعد ان کی طرف سے عمران خان کے خلاف دیا جانے والا کوئی بھی بیان جبراً ہوگا

تحریک انصاف کے رہنماؤں کے عمران خان کے حق میں پیغامات میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے ہمیشہ عدل و انصاف، آئین و قانون، اتحاد اور امن کا درس دیا۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھا چکے ہیں کہ عمران خان ایک سچے اور محب وطن پاکستانی ہیں

تو کیا یہ پی ٹی آئی کی نئی حکمت عملی ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے خلاف بننے والے بیانیے اور اداروں کی کاروائیوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں؟

اور اگر یہ نئی حکمت عملی ہے تو اس کے پیچھے کون ہے اور اس کا آئیڈیا کہاں سے آیا ہے

اس سلسلے میں پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ نئی حکمت عملی پارٹی کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے کے توڑ کی کوششوں کا حصہ ہے اور اس کی منظوری کور کمیٹی نے دی تھی

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ پارٹی کے خلاف پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کے لیے گرفتار اور زیر حراست رہنماؤں کے جبراً لیے گیے بیانات اور انٹرویوز کا انتظار کرنے کی بجائے ان رہنماؤں کی طرف سے پہلے ہی وڈیو بیانات جاری کر دیے جائیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ پروپیگنڈے کا توڑ ہوگا بلکہ جن اراکین کی گرفتاری متوقع ہے، ان کی حراست بھی رک جانے کے امکانات ہیں کیونکہ یہ واضح ہو جائے گا کہ پارٹی پالیسی پر ان کے بیانات پہلے ہی آ چکے ہیں اور دباؤ کے تحت آنے والے بیانات کا فائدہ نہیں ہوگا

تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق پی ٹی آئی کی اس نئی حکمت عملی کا تعلق اس کے ابھی تک روپوش رہنماؤں کی ممکنہ گرفتاری اور اس کے بعد ان سے حاصل کیے جانے والے بیانات سے ہے۔ ’تحریک انصاف نے اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔‘

انہوں نے کہا ’ان حلفیہ وڈیوز کا تحریک انصاف کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ انہوں نے عثمان ڈار کے کامران شاہد کو دیے گیے انٹرویو کے بعد بننے والے تازہ ترین بلبلے کو بڑی کامیابی سے پھوڑ دیا ہے۔‘

ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اس وقت کسی قسم کی لڑائی لڑنے کی بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے اور وہ کسی بھی طریقے سے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے

ان کا کہنا ہے ’وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور انتخابات ہو جائیں، اس کے بعد اس کے نتائج کے تناظر میں اگلی حکمت عملی بنائیں گے۔ فی الحال وہ انتخابات کے انعقاد تک صرف اپنی بقا چاہتے ہیں۔‘

سینئیر صحافی اور کالم نگار ارشاد احمد عارف کے مطابق پی ٹی آئی نے ان حلفیہ وڈیوز کا سلسلہ عثمان ڈار کے انٹرویو کے بعد بیانیے کی جنگ میں دفاعی پوزیشن پر چلے جانے کے بعد شروع کیا۔
’پہلے تحریک انصاف کے جن لوگوں نے ایسے بیان دیے، وہ واضح نہیں تھے اور انہوں نے سنی سنائی باتیں کیں۔ عثمان ڈار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کور کمیٹی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ٹائیگر فورس کے سربراہ بھی تھے اور 9 مئی کے حوالے سے پی ٹی آئی کی یوتھ اور ٹائیگر فورس کا نام لیا جاتا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی دفاعی پوزیشن میں چلی گئی اور انہیں یہ حکمت عملی اپنانی پڑی جو دفاعی کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں جارحانہ بن گئی اور یوں انہوں نے اپنا دفاع ان وڈیوز کے جارحانہ بیانیے کے ذریعے کیا۔‘

ارشاد احمد عارف کے مطابق یہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close