دہلی کے لیفٹنینٹ گورنر (ایل جی) وی کے سکسینہ نے بُکر ایوارڈ یافتہ معروف بھارتی مصنفہ، صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن ارون دھتی رائے کے خلاف منگل کو مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اکتوبر 2010 میں نئی دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ’اشتعال انگیز‘ تقریر کی تھی۔ یہ ایسا اقدام ہے، جسے ملک میں آزادی اظہار کے لیے تازہ ترین دھچکا قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے
اکسٹھ سالہ انعام یافتہ مصنفہ وزیراعظم نریندرمودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے انہیں انڈیا میں متنازع شخصیت بنا دیا ہے
ایل جی نے کشمیر یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کی منظوری دی ہے۔ یہ عدالتی کارروائی تعزیراتِ ہند کی دفعات 153 اے، 153 بی اور 505 کے تحت چلائی جائے گی
انہوں نے کہا کہ بادیِ النظر میں ارون دھتی رائے اور شوکت حسین کے خلاف مذکورہ دفعات کے تحت کارروائی کا معاملہ بنتا ہے
ان دفعات کا تعلق نفرت پر مبنی تقریر اور دو فرقوں میں دشمنی پیدا کرنے سے ہے، جن کے تحت عدالتی کارروائی کرنے کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہوتی ہے
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک کارکن سشیل پنڈت نے 28 اکتوبر 2010 کو ارون دھتی رائے اور شوکت حسین کے خلاف رپورٹ درج کرائی تھی، جس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی
2010 میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے کمیٹی کے زیر اہتمام ’واحد راستہ آزادی‘ کے بینر تلے منعقدہ ایک کانفرنس میں کی گئی تقاریر کی پاداش میں بغاوت کا الزام پر ارون دھتی رائے اور دیگر کے خلاف درخواست جمع کرائی گئی تھی
ان کا الزام تھا کہ 21 اکتوبر 2010 کو سیاسی قیدیوں کی رہائی سے متعلق کمیٹی کی جانب سے ’آزادی۔ واحد راستہ‘ بینر کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنس میں اشتعال انگیز تقریریں کی گئی تھیں
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کانفرنس میں ’کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے پر تبادلۂ خیال ہوا تھا۔‘
رپورٹ میں کشمیر کے حریت پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی اور دہلی یونیورسٹی میں ایک پروفیسر سید عبد الرحمان گیلانی کے بھی نام شامل تھے۔ ان دونوں کا انتقال ہو چکا ہے
واضح رہے کہ دہلی ایک مکمل ریاست نہیں ہے۔ وہ مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام ایک خطہ ہے۔ ایل جی صدر کے نمائندہ ہیں۔ ان کا عام آدمی پارٹی کی منتخب حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے
حکومت نے یہ قدم دہلی کے ایک میڈیا ادارے ’نیوز کلک‘ اور اس سے متعلق صحافیوں کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر تین اکتوبر کو دہلی پولیس کے چھاپے کے بعد اٹھایا ہے
پولیس کی اس کارروائی کے خلاف اگلے روز پریس کلب آف انڈیا میں صحافیوں کا احتجاجی جلسہ ہوا تھا، جس میں ارون دھتی رائے نے بھی شرکت کی تھی
اس وقت انھوں نے ایک میڈیا ادارے ’دی وائر‘ سے گفتگو میں صحافیوں کے خلاف پولیس کارروائی کی مذمت کی تھی اور موجودہ صورتِ حال کو ایمرجنسی سے بھی خطرناک بتایا تھا
انہوں نے اس اندیشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ ’اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر بھارت ایک جمہوری ملک نہیں رہے گا۔‘
سینئر کانگریس رہنما اور اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے مقدمہ چلانے کی منظوری دینے پر ایل جی کی مذمت کی اور کہا کہ ’ایل جی (اور ان کے آقاؤں) کی حکومت میں تحمل اور برداشت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
ان کے بقول ’اگر کوئی تقریر کی جاتی ہے اور اس سے بہت سے لوگ غیر متفق ہوں تب بھی ریاست کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مزید کہا کہ ’میں نے اس سلسلے میں 2010 میں جو کہا تھا اس پر اب بھی قائم ہوں۔ اس وقت ان کے خلاف بغاوت کے قانون کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اب ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘
ان کے بقول سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کی بارہا وضاحت کی ہے۔ ایسی تقریر جس سے برارہ راست تشدد نہ بھڑکے بغاوت نہیں مانی جائے گی۔
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے سوشل میڈیا ہیڈ امت مالویہ نے پی چدمبرم کے بیان پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایل جی نے بغاوت کی دفعہ 124 اے کے تحت ارون دھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری نہیں دی ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ (بغاوت کا) معاملہ سپریم کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ میں زیرِ سماعت ہے
ان کے بقول ارون دھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری تعزیرات ہند کی دفعات 153 اے،153 بی اور 505 کے تحت دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ ارون دھتی رائے کے خلاف نئی دہلی کے تلک مارگ تھانے میں بغاوت کی دفعہ 124 اے، دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے، نفرت پر مبنی تقریر اور دیگر دفعات کے تحت رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔ لیکن اس وقت ان کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اپریل 2010 میں سیکیورٹی فورسز نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سرحد پار سے دراندازی کر رہے تھے
رپورٹس کے مطابق ہلاک شدگان کا تعلق بارہ مولہ ضلع کے رفیع آباد سے تھا اور وہ سویلین تھے۔ اس واقعے کے خلاف سرینگر میں احتجاج ہوا تھا۔ بعد میں احتجاج نے عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔ 21 اکتوبر 2010 کو دہلی میں منعقد ہونے والی کانفرنس اسی احتجاج کا حصہ تھی جس میں ارون دھتی رائے اور دیگر نے تقاریر کی تھیں
قانونی چارہ جوئی کی اب منظوری دینے کے فیصلے کو سول سوسائٹی کے ارکان اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور مودی حکومت پر اختلاف رائے کا گلا گھونٹنے کا الزام عائد کیا۔
سابق وفاقی وزیر اور انڈین نیشنل کانگریس کے سینیئر رکن پی چدمبرم نے کہا، ’میں 2010 میں اروندھتی رائے کی تقریر پر جو کچھ کہا تھا، اس پر قائم ہوں۔ اس وقت ان کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘
انہوں نے غداری کے قانون کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ’اب ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی منظوری دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘
مصنف ہرش مندر نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، ’جب تقاریر کی جاتی ہیں، چاہے دوسرے لوگ کتنے ہی اختلاف کیوں نہ کریں، ریاست کو رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میں اظہار رائے کی آزادی اور بغاوت کے نوآبادیاتی قانون کے خلاف کھڑا ہوں۔
’اروندھتی رائے نے جمہوری انڈیا کے سفر کے ہر موڑ پر انصاف اور سچائی کے لیے طاقت، ہمت اور فصاحت کے ساتھ بات کی ہے۔‘
مصنفہ مینا کنڈاسامی نے کہا، ’آج ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے 2010 میں کی گئی ایک تقریر کا حوالہ دینا حکومت کی مایوسی اور سچ بولنے کے خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن انہیں خاموش نہیں کیا جاسکے گا۔
’اگر مودی ایک دہائی قبل کی گئی تقریر کی وجہ سے انڈیا کے سب سے ذہین اور بہادر مصنف کے پیچھے پڑ رہے ہیں، تو اس سے حکومت کی مایوسی کی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔‘
رائے آخری بار چار اکتوبر کو دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں صحافیوں کے ایک مظاہرے میں نظر آئی تھیں۔ انہوں نے ’نیوز کلک‘ نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹر پربیر پورکیاستھا اور ان کے ایک منتظم کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی تھی۔
نیوز کلک کو انڈیا کے ان چند باقی میڈیا اداروں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مودی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا ویب سائٹ کو چین سے غیر قانونی فنڈنگ ملی ہے یا نہیں، نیوز کلک نے مالی بدانتظامی کی تردید کی اور کہا کہ اس کی ویب سائٹ ’چینی پروپیگنڈے کی تشہیر نہیں کرتی۔‘
انڈیا کی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے بدھ کو دہلی میں پرکیاستھا کے گھر کی تلاشی لی اور کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی خلاف ورزی پر درخواست درج کی ہے۔