ہم کشمور اور گڈو بیراج کو پیچھے چھوڑتے روہڑی کو رواں ہیں۔بایک سو ساٹھ (160) کلو میٹر کی یہ مسافت انشاءاللہ ہم اڑھائی گھنٹے میں طے کریں گے۔سندھو لمبی خاموشی توڑتے بولا؛ ”سنو سیاحو! کیا تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ مجھ پر کُل کتنے بیراجز تعمیر کئے گئے ہیں؟“ پہلی بار وہ سوال کرکے کچھ دیر خاموش رہا کہ شاید ہم میں سے کوئی جواب دے سکے۔ ہماری خاموشی دیکھ کر بتانے لگا، ”بیراج سے مراد دریا کے پانی کو نہروں میں موڑنا ہے آب پاشی کے لئے، سیلاب کنٹرول کرنے کے لئے اور ان نہروں کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کے لئے بھی۔ انہی مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مجھ پر چھ (6) بیراجز تعمیر کئے گئے ہیں۔ پہلا ’جناح بیراج‘ ہے جو 1953ء میں تعمیر ہونا شروع ہوا اور یہاں چھتیس سو (3600) میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے اور بڑے رقبے کو سیراب بھی۔ دوسرا ’چشمہ بیراج‘ 1966ء میں تعمیر شروع ہوئی۔ یہاں ایک سو اسی (180) میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔تیسرا ’تونسہ بیراج‘ جو مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خاں کی وسیع زمین سیراب کرتا ہے۔ ’گڈو بیراج‘ کا سنگِ بنیاد 1957ء میں رکھا گیا اور یہاں سے بارہ سو (1200) میگا واٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔ یہ کشمور، لاڑکانہ، سکھر اور نصیر آباد کے اضلاع کی وسیع زمین سیراب کرتا ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے کا ’لائیڈ بیراج‘ اور آج کا ’سکھر بیراج‘۔ (1932ء میں تعمیر ہوا)۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تشکیل دیتا ہے۔ یہاں سے نکالی گئی 7 نہریں سندھ کے مختلف اضلاع کی پچاس (50) لاکھ ایکڑ زمین سیراب کرتی ہیں۔ مجھ پر تعمیر ہونے والا آخری ’کوٹری یا غلام محمد’ بیراج ہے۔ یہ بھی 1955ء میں تعمیر ہونا شروع ہوا اور آب پاشی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یوں میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تشکیل دیتا ہوں، سب سے زیادہ زمینیں سیراب کرنے کا اعزاز بھی رکھتا ہوں۔ خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں ہر سو پھیلی ہریالی میری ہی مرہونِ منت ہے۔“
ہم چھبیس (26) جولائی2021ء کشمور سے روہڑی اور پھر الائیڈ برج کو پار کر کے سکھر پہنچیں گے۔ابن بطوطہ یکم محرم 734 کو یہاں سے گزرا تھا۔
یہ روہڑی ہے۔ سندھو کے مشرقی کنارے آباد ’روہڑی‘ کا چھوٹا شہر کبھی قدیم ’اروڑ سلطنت‘ کا دارلحکومت تھا۔روہڑی اور سکھر جڑواں شہر ہیں۔ سندھو کے مشرقی اور مغربی کناروں پر آباد۔ ہم ماضی کا ’لائیڈ ڈؤسن‘ برج کراس کر رہے ہیں۔ابن بطوطہ سکھر شہر کے بارے لکھتے ہیں کہ بکھر (ابن بطوطہ نے اسے ”بکھر“ لکھا ہے) خوبصورت شہر ہے۔ دریائے سندھ کی ایک شاخ اس کے بیچ سے گزرتی ہے۔ شاخ کے درمیان میں ایک زاویہ بھی ہے۔ اسے کشلو خاں نے بسایا تھا۔ روہڑی اور سکھر کے درمیان جس قلعہ کے آثار نظر آتے ہیں، وہی بھکر ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج کا سکھر ہے۔ یہیں میر محمد معصوم بھکری مصنف تاریخ معصومی کا مقبرہ ہے۔ روہڑی پرانا شہر نہیں اسے 1297ء میں بسایا گیا تھا۔ ابن بطوطہ کا بکھر آج کا ہی سکھر ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ سندھو کی ایک شاخ کا سکھر کے درمیان سے گزرنا اور میر معصوم کی درگاہ کا ہونا۔ یہ دونوں ہی سکھر کی نشانیاں ہیں۔ جنوب کی جانب جزیرہ ’سادھو بیلہ‘ (سادھ بَیلَو) ہے۔ ہندوؤں کا قدیم باعظمت مقام۔ یہاں ایک مندر بھی ہے۔ ابنِ بطوطہ نے ایک قوم ’سامرہ’ کا ذکر کیا ہے۔ یہ شاید قلم کی غلطی ہے اس سے مراد ’سومرا‘ قوم ہے جو نہایت قدیم اور نسلی اعتبار سے راجپوت ہے۔
انگریز نے یہاں لائیڈ بیراج (آج کا سکھر بیراج) تعمیر کیا تاکہ سندھو کے پانی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ نتیجتاً سندھ کا بے آب و گیاہ خطہ ہریالی میں بدل گیا ہے۔ سر چارلٹن ہیرسن“ sir charlton harrison کے ڈیزائین کردہ اس برج کی تعمیر کا کام چیف انجنئیر ”سر آرنلڈ میسٹو“ sir arnoald musto کی نگرانی 1923ء میں شروع ہو ا اور 1932ء میں مکمل ہوا۔ اس بیراج کی کل لمبائی چار ہزار سات سو پچاس فٹ (4750)فٹ ہے، جو ساٹھ ساٹھ (60) فٹ چوڑے چالیس (40) دروں (دروازوں) پر مشتمل ہے۔ ہر دروازہ پچاس (50) ٹن وزنی ہے۔ پیلے پتھر اور اسٹیل اسٹرکچر کا بنا یہ بیراج دس(10) ملین کیوبک فٹ پانی کو سات نہروں (ان نہروں کی کل لمبائی چھ (6) ہزار میل بنتی ہے) کے ذریعے کنٹرول کرکے دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام تشکیل دیتا ہے۔ الائیڈ برج کے پرانے پل سے اب صرف ریل گاڑی ہی گزرتی ہے جبکہ دوسری ٹریفک کے لئے 1962ء میں ایوب برج تعمیر کیا گیا ہے۔
”دوست سنو؛“ سندھو کی سرگوشی میری سماعتوں سے ٹکرائی ہے۔ ”دریائے سندھ پر تعمیر کردہ لائیڈ برج درمیان سے کسی ستون کے سہارے کے بغیر کھڑا فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین برجز میں ہوتا ہے۔ اس کے افتتاحی پتھر پر ’الائیڈ برج‘ شہنشاہ ہند جارج دی ففتھ۔ (Loyad Bridge..Emperor of India King George the 5th) کے الفاظ کندہ ہیں۔روایت کے مطابق جب بیراج مکمل ہوا تو کوئی بھی ٹرین ڈرائیور بیراج کے پل سے ٹرین گزارنے کو تیار نہ تھا۔ نیچے موجیں مارتا سندھو، بغیر ستون کے سہارے کھڑا پل۔ خوف آتا تھا اور ریل گزارنے کا کسی کو حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ انگریز سرکار نے بڑے انعام کا لالچ بھی دیا تب بھی کوئی ریل ڈرائیور تیار نہ ہوا۔ سکھر جیل میں قید سزائے موت کے ایک قیدی ’جمالو کھوسو بلوچ‘ نے حوصلہ پکڑا کہ مرنا تو ہے ہی، کیوں نہ قسمت آزمائی جائے۔ اسے انجن چلانے کی تربیت دی گئی اور پہلی ہی کوشش میں بغیر کسی پریشانی کے وہ ریل کو سندھو کے پار لے گیا۔خوشی میں اس کی بیوی ’جمالو او جمالو‘ پکارنے لگی۔ کہتے ہیں کہ اسی سے مشہور لوک گیت ’ہو جمالو‘ کی ابتدا ہوئی۔“ پہلی ٹرین گزرنے اور لوک گیت ’ہَو جمالو‘ کی ابتداء کی اس سے مستند تصدیق سندھو کے علاوہ بھلا اور کون کر سکتا ہے۔
”لائیڈ برج میوزیم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔بہت کم لوگ اس میوزیم کے بارے جانتے ہیں۔ لائیڈ بیراج روڈ پر قائم یہ میوزیم اس بیراج کے حوالے سے بہت اہم معلومات سیاحوں کو فراہم کرتا ہے۔ اس میں یہاں استعمال ہونے والے میٹریل کے نمونہ جات، بیراج پر استعمال ہونے والی مشینری، مثلاً ہیوی کرین، روڈ رولر، نٹ بولٹ بنانے والی لیتھ مشین، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تاریخ اور انجنئیرنگ کے شعبہ سے وابستہ افراد کے لئے یہ بڑی دلچسپی کا باعث ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانوی دور حکومت نے اس ملک کے انتظامی، تعلیمی، مواصلات اور صحت کے شعبہ جات میں دور رس اثرات مرتب کئے ہیں۔ علاوہ ازین اس عجائب گھر کی تصویر گیلری کی تو کیا بات ہے؟ اس گیلری میں بیراج کی تعمیر سے تکمیل تک کے مختلف مراحل کی تصویر کشی انسانی محنت اور لگن کی کہانی بیان کرتی ہے۔“
”سندھ بہت قدیم ہے۔ سکندر اعظم سے لے کر راجہ داھر تک۔ محمد بن قاسم سے لے کر انگریز تک کی تاریخ کے آثار اس دھرتی کے مختلف مقامات شہروں، ویرانوں اور بیابانوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخ کی ان نشانیوں کو مٹنے سے بچایا جائے اور آنے والی نسل کے لئے محفوظ کیا جائے۔“
”آؤ تمہیں روہڑی اور سکھر کے بارے کچھ بتاؤں۔ روہڑی؛ کہتے ہیں اروڑ کا قدیم شہر آج کے روہڑی سے تقریباً چھ میل دورہی آباد تھا۔ بدھ ادب میں بھی اس کا ذکر ’اروکا‘ کے نام سے ملتا ہے۔ عربوں کے سندھ پر حملے سے پہلے اروکا کے بارے زیادہ معلو مات نہیں ملی ہیں البتہ اروڑ ’راجہ داھر اور رائے سلطنت‘ کا دارلحکومت تھا۔ یہ اروڑ ہی تھا جسے 711ء میں محمد بن قاسم نے فتح کیا۔ روہڑی کا شہر اس کے بعد آباد ہوا اور اروڑ تاریخ کے پنوں میں کھو گیا۔ یہ قدیم دور میں غلہ کی بڑی منڈی تھی۔ کبھی سندھو اس شہر کو چھوتا بہتا تھا مگر962ء میں آنے والے زلزلے سے اسے شدید نقصان پہنچا اور سندھو نے راستہ بھی تبدیل کر لیا۔ یہ صحرا کی طرح گرم علاقہ ہے اور اس کا شمار پاکستان کے گرم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ سندھو کے کنارے آباد پرانی بستیوں میں گندم، جو، مٹر اور کھجور کی کاشت ہوتی تھی۔ بعد میں کپاس اور خوبوزہ بھی اگایا جانے لگا ہے۔
”نیرچس“ جس نے سکندر کے ساتھ سندھو کا سفر کیا تھا لکھتا ہے: ”اس دور میں یہاں کماد (گنا) بھی کاشت ہوتا تھا۔ سال کی دو فصلیں خریف اور ربیع حاصل کی جاتی ہیں۔ خریف کی فصل گندم اور موسم خزاں میں تیار ہوتی ہے جبکہ ربیع کی خاص فصل کپاس موسم بہار میں تیار ہوتی ہے۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔