امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں افریقہ سے لائے ہوئے غلاموں کی بڑی تعداد آباد تھی، جو سفید فام مالکوں کے کھیتوں میں محنت مشقت کرتی تھی۔
جب انہیں غلام بنا کر لایا گیا تو ان کی شناخت کو بدل دیا گیا۔ ان کے نئے نام رکھے گئے۔ ان کے مذہب کو تبدیل کیا گیا اور انہیں مسیحی بنایا گیا اور ان کی محنت و مشقت کو تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ اس سے انکار کر کے انہیں حقیر اور کم تر ثابت کیا گیا۔
ان کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ بدصورت، رنگ کے کالے، بدبودار، سُست اور کاہل ہیں۔ اس صورت میں ان کے ساتھ سختی کا سلوک کرنا درست ہے۔
نیگروز کے بارے میں تاریخ کا دوسرا نقطہ نظر لکھنا دشوار تھا، کیونکہ ان کی اپنی کوئی تحریر نہیں تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مورخوں نے سابق غلاموں سے انٹرویوز لے کر ان کی زندگی اور کاموں کے بارے میں تحقیق کی، لہٰذا امریکی غلاموں کی ایک نئی تاریخ تشکیل ہوئی، جس نے سفید فام نسل پرستی اور اس کے رویوں کو تنقیدی انداز میں پیش کیا۔
غلامی کے اس موضوع پر Paul D. Escott کی کتاب Slavery Remembered قابلِ ذکر ہے۔
مصنف نشاندہی کرتے ہیں کہ غلامی کے ادارے کو قائم رکھنے کے لیے سفید فام مالکوں نے سزا اور اذیت کو استعمال کیا تاکہ غلاموں میں ڈر اور خوف رہے اور وہ کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں۔
سزاؤں میں عام طور پر کوڑے مارنا ایک سزا تھی، جب غلام کھیتوں میں کام کرتے ہوتے تھے تو فورمین بعض اوقات بلاوجہ ہر ایک کو کوڑے مارتا تھا۔ کام میں سستی دکھانے پر مختلف سزائیں تھیں۔ مثلاً گردن میں لوہے کا طوق پہنا دیا جاتا تھا۔ پاؤں کو زنجیروں سے باندھ دیا جاتا تھا۔ سخت سزا کی صورت میں رسّی سے باندھ کر درخت پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ کبھی ان کے ہاتھوں کو آگ میں جلایا جاتا تھا اور کبھی ان کے زخموں پر مرچیں چھڑکی جاتی تھیں۔ خیال یہ تھا کہ ان سزاؤں کے ڈر سے غلاموں کو قابو میں رکھا جا سکے گا، اور ان میں ہمت نہیں ہو گی کہ وہ مالکوں کے احکامات کی خلاف ورزی کریں۔
کام کے لیے پورا ہفتہ ہوتا تھا اور چھٹی کا کوئی دن مقرر نہیں ہوتا تھا۔ مردوں اور عورتوں کے خاص لباس ہوتے تھے جو سال میں دو مرتبہ انہیں دیے جاتے تھے۔ ان کی رہائش بیرک نما کمروں میں ہوتی تھی اور ناقص غذا کھانے کے لیے دی جاتی تھی۔ اگر کسی غلام کی شادی ہوتی تھی تو مالک کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ عورت زیادہ بچے پیدا کرے تا کہ بڑے ہو کر وہ غلاموں میں شامل ہو جائیں۔ چھوٹے بچوں کو صفائی کے کام پر لگا دیا جاتا تھا اور 15 سال ہونے پر ان سے پوری محنت و مشقت لی جاتی تھی۔
غلاموں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا گیا تھا، وہ غلام جو کھیتوں میں کام کرتے تھے ان کا تمام وقت صبح سے شام تک کھیتوں میں گزرتا تھا، دوسرے کاریگر غلام تھے جو ہُںرمندی، فنی مہارت کی وجہ سے زیادہ تکالیف برداشت نہیں کرتے تھے۔ تیسرے گھریلو غلام تھے۔ گھر کا کام کاج کرنے کی وجہ سے سفید فام آقا ان کا خیال کرتے تھے۔ ان کو کھانے پینے کی بھی سہولتیں تھیں۔ کوچ مین جب وردی پہن کر گاڑی چلاتا تھا تو وہ خود کو دوسرے غلاموں سے برتر سمجھتا تھا۔
غلاموں میں وفاداری کے جذبے کو قائم رکھنے کے لیے چرچ میں عبادت کے وقت پادری اپنے وعظ میں بائبل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تلقین کرتے تھے کہ غلاموں کو مالکوں کا وفادار رہنا چاہیے اور کام میں سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے لیکن اس وعظ اور تبلیغ کے باوجود غلاموں کے اندر مالکوں کے برتاؤ کے خلاف جذبات ابھرتے رہتے تھے جو مزاحمت کی شکل بھی اختیار کر لیتے تھے۔
مزاحمت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ غلام فرار ہو جاتے تھے، لیکن ان کو جلد ہی پکڑ لیا جاتا تھا۔
فرار ہونے والے غلاموں کو روکنے کے لیے ہر طرف سفید فام گارڈز کی چوکیاں تھیں۔ پکڑنے کے بعد فرار ہونے والے غلام کو سخت سزائیں دی جاتی تھی۔ کچھ غلام فرار ہو کر قریبی جنگل میں چھپ جاتے تھے اور ان کے ساتھی انہیں کھانے پینے کی اشیا فراہم کرتے تھے۔ مزاحمت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا، کہ بیمار ہو جائیں اور اپنے حصے کا کام پورا نہ کریں۔
سفید فام مالکوں کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ غلام مل کر نہ بیٹھیں تا کہ ان میں کوئی اتحاد پیدا نہ ہو، اس لیے غلام خفیہ میٹنگز کرتے تھے اور اپنے دکھ درد بیان کرتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ان میں کمیونٹی کا احساس پیدا ہو اور متحد ہو کر وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ غلاموں نے اس ماحول میں رہتے ہوئے بلیک کلچر کو بھی پیدا کیا اس کا اظہار ان کی موسیقی اور رقص میں تھا۔
انہوں نے موسیقی کے آلات بنائے اور ڈھول تیار کیے جس کی تھاپ پر وہ رقص کرتے اور گاتے تھے۔ بلیک کلچر نے ان کو ایک نئی شناخت دی۔ امریکہ میں لِنکن کی صدارت میں سِول وار شروع ہوئی تو فیڈریشن کا مقصد یہ تھا کہ ساؤتھ کو علیحدہ نہیں ہونے دیا جائے گا اور یونین کو برقرار رکھنے کے لیے غلامی کا خاتمہ کرنا چاہیے تاکہ جنوب کی ریاستیں کمزور ہوں۔
اس جنگ میں غلاموں نے فیڈریشن کی فوجوں کا ساتھ دیا کیونکہ یہ غلامی کے خاتمے کے لیے جنگ کر رہی تھیں، لہٰذا جب جنگ ختم ہوئی اور فیڈریشن کی فوجوں نے جنوب میں اپنا اقتدار قائم کیا تو غلاموں کو ایک نیا تجربہ ہوا کہ فیڈریشن کے فوجی بھی سفید فام تھے اور ان میں بھی نیگروز کے خلاف تعصبات تھے، لہٰذا خانہ جنگی نے غلاموں کو آزاد تو کیا مگر اس کے ساتھ ہی ان کے لیے نئے مسائل بھی پیدا کیے جن میں سب سے بڑھ کر بیروزگاری تھی۔
غلاموں کے کچھ خاندانوں نے روزگار کی تلاش میں شمال کی ریاستوں میں ہجرت کی مگر یہاں بھی یہ تعصبات کا شکار ہوئے۔ جو غلام جنوب میں رہ گئے تھے۔ انہوں نے سابق آقاؤں کے کھیتوں میں تنخواہ لے کر کام کیا۔ جنوبی ریاستوں کے باشندوں نے غلاموں کی آزادی کو برداشت نہیں کیا۔
Kuklux Klan ایک دہشت گرد جماعت تھی جو نیگروز کو ہراساں کر کے رکھتی تھی۔ اس کے ساتھ جنوب کی سوسائٹی نے نسل پرستی کے تحت نیگروز کا بائیکاٹ کیا، ان کو سفید فام تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ ان کا گرجا گھر علیحدہ تھا، ان کے پادری بھی نیگروز ہوتے تھے۔ ہوٹلوں میں ان کے داخلے پر پابندی ہوتی تھی۔ بسوں میں ان کے لیے پچھلی نشستیں تھیں، سفید فام اور نیگروز کے درمیان شادی بیاہ ممنوع تھا۔
ان تعصبات اور نفرتوں کے درمیان بلیک کمیونٹی نے اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ 1960 کی دہائی میں جب کینیڈی امریکہ کے صدر بنے تو علیحدگی کے ان قوانین کو ختم کر کے بلیک کمیونٹی کو اس کے حقوق دیے گئے۔
اگرچہ جمہوریت نے بلیک کمیونٹی کو سیاسی حقوق تو دیے مگر اب بھی امریکی سوسائٹی میں نسلی تعصبات جاری ہیں، جب کہ بلیک کمیونٹی نے اپنا کلچر، موسیقی، ادب اور آرٹ پیدا کر کے اپنی شناخت کو مستحکم کر لیا ہے، لیکن ان کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔ غلامی سے آزادی تک ان کی مزاحمت اور جدوجہد سے ان کے آزادی کے جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)