بھارتی ریاست گجرات کے چوتھے بڑے شہر راجکوٹ کے کھریچیا گاؤں کے پینسٹھ سالہ کسان دھنجی بھائی گذشتہ دو دہائیوں سے اپنے کھیت کو سیراب کرنے کے لیے پانی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ دھنجی بھائی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے بائیس سالوں میں پانی کے حصول کے لیے اپنے فارم میں 22 گڑھے (بورنگ) کھودے ہیں، ان میں سے بعض کی گہرائی 1350 فٹ تک تھی، لیکن ان میں سے کسی سے پانی نہیں ملا
اس ناکامی کے بعد دھنجی کو اپنے بیٹے کو شہر بھیجنا پڑ گیا ہے تاکہ وہ وہاں کچھ کما سکے۔۔ کیونکہ بغیر پانی کے کھیتی باڑی نہیں ہوتی، اور کم پانی میں جتنی ہو سکتی ہے، اس سے گھر نہیں چلانا ممکن نہیں۔ اب وہ اپنے کھیت میں صرف اتنا کاشت کرتے ہیں کہ تھوڑا سا گزارا ہو سکے
لیکن اس سب کے باوجود کسان دھنجی بھائی نے پانی کے حصول کے لیے اپنی کوششوں سے ہاتھ نہیں کھینچا۔۔ انہوں نے مختلف دیہاتوں سے بہت سے لوگوں کو بلایا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کھیت میں پانی کے لیے کہاں بورنگ کرنی چاہیے۔ انہوں نے کچھ روایتی طریقوں سے زیرِ زمین پانی کی موجودگی کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کی لیکن وہ تمام طریقے ناکام ہو گئے
آخر کار دھنجی بھائی نے سرکاری محکمے سے مدد لینے کا فیصلہ کیا لیکن بدقسمتی سے ان کی یہ کوششیں بھی بارآور نہ ہو سکیں
اس ساری محنت، دوڑ دھوپ اور کوشش میں اب تک ان کا لاکھوں روپے کا خرچہ آ چکا ہے
دھنجی بھائی کی طرح اب انڈیا کی ریاست گجرات میں بہت سے کسان اور دیگر ضرورتمند لوگ استعمال کے لیے زمینی پانی حاصل کرنے کے لیے بور کھودنے کے باوجود پانی نہ ملنے یا بور کے فیل ہونے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں
ان کی طرح بہت سے لوگ پانی کی کھوج لگانے کے لیے روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں، جن میں کھیت میں زمینی پانی کی صحیح جگہ کی جانچ کرنے کے لیے ہاتھ میں بیلچہ لے کر چلنا شامل ہے۔ برسوں سے استعمال ہونے والے یہ روایتی طریقوں کے بارے میں کسانوں اور دیگر لوگوں کی طرف سے مؤثر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے
اب جب بھاری لاگت سے بور کھودنے کے بعد پانی نہ ملنے کے واقعات سامنے آئے ہیں تو یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیا یہ جاننے کا کوئی سائنسی طریقہ موجود ہے کہ زمینی پانی دراصل زمین میں کہاں اور کتنا گہرا ہے؟
انڈیا سمیت ہمارے ملک پاکستان میں بھی اس کام کے لوگ روایتی طریقوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں تاکہ زمینی پانی کی موجودگی کا تعین کیا جا سکے۔ انہی میں سے ویرل چودھری بھی ایک ہیں، جو تاپی ضلع کے گاؤں وانکلا کے رہنے والے ہیں اور وہ آم اور کپاس کی کاشت کرتے ہیں
وہ اپنے تجربے کے بارے میں کہتے ہیں ”میرے کھیت میں ایک بور ویل ہے۔ ہم زمینی پانی کی تلاش کے لیے پرانے ’شریفال طریقہ‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ جس کے لیے ہم گاؤں کے ایک تجربہ کار ماہر شخص کو بلاتے ہیں۔ اس عمل میں، وہ اپنے ہاتھوں میں پھل لے کر میدان میں گھومتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ پانی کس مقام پر ہے اور کہاں بورنگ کی جائے“
زمینی پانی کا تخمینہ لگانے کے دیگر طریقوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ایک تجربہ کار آدمی درخت کی ایک چھوٹی شاخ ہاتھ میں لے کر چلتا ہے اور جہاں کھڑا ہوتا ہے وہاں پانی موجود ہوتا ہے
انھوں نے کہا ”اس کام کے لیے خاص طور پر مشینیں تیار کی گئی ہیں لیکن اگر ہم شریفال جیسے طریقوں سے کچھ نتائج حاصل کر سکتے ہیں تو ہم مشینوں کا استعمال کیوں کریں؟ آخر کار مشین بھی مہنگی ہے۔ صرف بڑے کسان ہی زمینی پانی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مشینیں رکھنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ہم روایتی طریقے سے مطمئن ہیں“
ایسے ہی ایک اور کسان گاندھی نگر کے دیہگام تعلقہ کے موہن لال کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کھیت میں بور کھودنے کے لیے جگہ طے کرنے کے لیے ’ایک برہمن‘ کو بلایا تھا
موہن لال کہتے ہیں ”میں کھیت میں آلو، مونگ پھلی اور کپاس کی کاشت کرتا ہوں۔ ہم نے گاؤں کے برہمن کو بلایا اور ان کی تجویز کے مطابق بورویل کھودنے کا فیصلہ کیا“
جام نگر کے چندر گڑھ گاؤں میں رہنے والے کملیش بھائی دھولریا بھی ایک کسان ہیں، وہ زمینی پانی کی جانچ کے ایک اور روایتی طریقے پر عمل کرتے ہوئے بورہول کھودنے کی بات کرتے ہیں
کملیش بتاتے ہیں ”ہمارے پاس چار بور ہیں، ہمارا پڑوسی میدان میں چل کر زمینی پانی کی درست جگہ اور گہرائی کا اندازہ لگانے میں ماہر ہیں۔ وہ چھڑی کے سہارے چلتے ہیں اور زیر زمین پانی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی پر اس حوالے سے قدرت کی رحمت ہے۔ ہر بار ان کی پیشین گوئی کے مطابق زمین میں پانی پایا گیا ہے“
اس طریقے کے بارے میں انہوں نے بتایا ”اس طرح چھڑی کے سہارے چلتے ہوئے ماہر میدان میں چار پانچ جگہیں دکھاتا ہے۔ ان جگہوں پر ایک ایک کر کے بور کھودنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ایک سو فٹ تک کھدائی کے بعد بھی پانی نہ ملے تو دوسری جگہ کھدائی کی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک میں پانی پایا جاتا ہے“
کملیش بھائی جدید سائنسی تکنیکوں کے بھی محدود ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ گاؤں کے بہت سے لوگوں نے اس عمل کے لیے مشینوں کا استعمال کیا ہے، لیکن پانی نہ نکلنے کے معاملے سامنے آئے ہیں، اور یہ عمل بہت مہنگا ہے
تو آخر زیر زمین پانی کی گہرائی کو جانچنے کے سائنسی طریقے کے بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں۔۔ زیر زمین پانی کی صحیح گہرائی اور موجودگی کو جانچنے کے طریقوں کے بارے میں مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی، وڈودرا کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر کرشنا تیواری کا کہنا ہے کہ ان طریقوں سے کوئی بھی شخص زیر زمین پانی کی گہرائی کا درست اندازہ لگا سکتا ہے۔
ہائیڈروجیولوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر کرشنا زیر زمین پانی کی گہرائی اور موجودگی جاننے کے لیے دستیاب سائنسی طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اس کام کے لیے ایک اہم سائنسی طریقہ برقی مزاحمت کا اصول ہے۔ یہ طریقہ بجلی کے کنڈیکٹوٹی کے قانون پر مبنی ہے“
اس طریقہ کار کے لیے استعمال ہونے والے آلے کو بھی بنیادی اصول کے طور پر الیکٹرک ریسسٹیویٹی کا نام دیا گیا ہے۔ طریقہ کار میں ڈیوائس کے تاروں یا الیکٹروڈز کو زمین میں آٹھ سے دس انچ گہرائی میں دھنسا دیا جاتا ہے۔ کرنٹ کو تار سے اس طریقہ کار کے ذریعے زمین میں منتقل کیا جاتا ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح معلوم کی جاتی ہے
ڈاکٹر کرشنا نے اس ڈیوائس کے کام کرنے کے بارے میں بتایا ”زمین میں پانی کا صحیح تخمینہ برقی کرنٹ گزرنے کے بعد ڈیوائس کی ریڈنگ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مدد سے ہمیں اس بارے میں مخصوص معلومات ملتی ہیں کہ آیا کسی بھی جگہ زیر زمین پانی موجود ہے یا نہیں، اور پانی کی موجودگی اور اس کی قسم کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے“
ان کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق اس طریقے سے زیر زمین پانی کے بہاؤ اور حجم کے بارے میں بھی درست معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”آلات کی مدد سے تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد، سافٹ ویئر کی مدد سے اس ڈیٹا کی تشریح کی جاتی ہے“
اس کے علاوہ ڈاکٹر کرشنا ایک اور سائنسی تکنیک Resistivity Imaging System کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ اسے اس کام کے لیے ایک بہتر تکنیک کہتے ہیں
اس نئے بہتر طریقے کے کام کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ”اس تکنیک میں، بہتر آلے کے 12 سے 24 الیکٹروڈز کو زمین میں ڈالا جاتا ہے تاکہ زمینی پانی کا تخمینہ لگایا جا سکے۔ جس کی مدد سے سافٹ ویئر کے ذریعے زمین اور اس کے اندرونی عناصر کی دو جہتی تصویر حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے نتائج صرف ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں مل جاتے ہیں، جسے ہم کمپیوٹر کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں“
اس معاملے پر ایم جی انسٹیٹیوٹ آف سائنس کے پروفیسر ہیمن مجیٹھیا کہتے ہیں ”اگر مٹی ریتلے پتھر سے بھرپور ہے، تو زمینی پانی کی اچھی مقدار موجود ہے۔ لیکن اگر اسے پتھریلی مٹی سے بدل دیا جائے تو یہ پانی جذب نہیں کر پاتی اور زیر زمین پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے“
گجرات واٹر ریسورس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (GBRDCL) کے سپرنٹنڈنگ انجینئر، پناکن ویاس کے مطابق سال کے مختلف حصوں میں زیر زمین پانی کی سطح مختلف ہوتی ہے
ان کا کہنا ہے ”موسم سرما کے آخر اور موسم گرما کے اوائل کے دوران برف پگھلنے اور اچھی بارشوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ موسم گرما کے دوران، پودوں کی نشوونما، گرم آب و ہوا اور بخارات کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح میں کمی واقع ہوتی ہے“
زیر زمین پانی کے تخمینے کے سائنسی طریقے بتانے کے بعد ڈاکٹر کرشنا نے دوسرے قدرتی طریقوں اور اشاروں کے بارے میں بتایا، جو زیر زمین پانی کی حیثیت کے بارے میں کچھ اندازہ دیتے ہیں
اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا درخت اور کیڑے زمینی پانی کی موجودگی کے اشارے ہو سکتے ہیں؟
اس بارے میں ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے ”سائنسی طریقوں کے علاوہ، ہائیڈرو بائیولوجیکل انڈیکیٹرز کے نام سے جانا جانے والا طریقہ اس مقصد کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے“
اس میں سائنسدان درختوں اور کیڑوں کی موجودگی کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ زیر زمین پانی کی گہرائی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ان طریقوں کو ورامی ہیرا کی کتاب ’براتسمہتا‘ میں بھی بیان کیا گیا ہے، جسے پودوں کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے
اس طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر کرشنا کہتے ہیں ”اس طریقے میں سائنسدان نیم، ناریل، کھجور یا کھجور جیسے درختوں کی نشوونما اور نشوونما کی سمت کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان تمام درختوں کی جھکی ہوئی شاخیں نہیں ہیں، لیکن بعض اوقات ان درختوں کی شاخیں غیر معمولی طور پر نیچے کی طرف جھک جاتی ہیں۔ جب ایسی حالت ہوتی ہے، تو یہ اس مٹی میں زیر زمین پانی کی نمایاں مقدار کی نشاندہی کرتا ہے“
ڈاکٹر کرشنا کا کہنا ہے کہ درختوں کے علاوہ کیڑوں کی موجودگی بھی زمینی پانی کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے ”دیمک بھی ایک ایسا ہی اشارہ ہے۔ زیر زمین پانی ایسے زمین یا کھیت میں پائے جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جہاں دیمک کا حملہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی مٹی میں بہت کم گہرائی میں پانی ملنے کا امکان ہے“
یہ تمام اشارے زیر زمین پانی کے تخمینے کے عمل میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کرشنا کہتے ہیں ”اس عمل کے بعد، سائنسدان لا آف کنڈیکٹویٹی کے طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے زمینی پانی کی موجودگی کے بارے میں درست پیشین گوئیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ ان دو طریقوں کا مجموعہ وقت اور پیسہ بچا سکتا ہے“
ڈاکٹر کرشنا نے زیر زمین پانی کی موجودگی کا تعین کرنے روایتی اور اندازے پر مبنی طریقوں کو توہم پرستی قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”زیر زمین پانی کی موجودگی کا تعین کرنے کے لیے ناریل، خشک لاٹھی، منتر اور تانبے کی سلاخوں کے استعمال کے طریقوں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے“
ان روایتی طریقوں کی کامیابی کے بارے میں دلیل دیتے ہوئے انہوں نے کہا ”اس طریقہ کار کے کامیاب ہونے کی واحد وجہ یہ ہے لوگ پہلے سے جانتے ہیں کہ آس پاس کنویں میں پانی موجود ہے اور علاقے میں زیر زمین پانی کی موجودگی کا قوی امکان ہے“
پناکن ویاس زیر زمین پانی کی جانچ کے روایتی طریقوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اس طریقہ پر عمل کرنے والے لوگ تجربے کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ اگر زمین میں پانی ہے تو ظاہر ہے کہ قریبی کھیت میں پانی ہے۔ عام طور پر ایک چھوٹے سے علاقے میں زمینی پانی کی موجودگی سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔“
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں
بی بی سی گجراتی کی روچیتا پوربیا کے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے۔