معروف سائنسدانوں نے ایک مرتبہ پھر خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی زمین پر زندگی کے وجود کے لیے خطرہ بن رہی ہے
غیر ملکی خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 ریکارڈ گرم ترین سال ہوگا، جہاں زمین کے تمام حصے شدید گرمی کی لہروں کی لپیٹ میں رہے ہیں یا پھر دوسرے کئی علاقے سیلاب کا شکار ہوئے ہیں
سائنسی جریدے بائیو سائنس میں شائع ایک نئی رپورٹ میں تحقیق کاروں کے گروپ نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم 2023 میں موسمی تبدیلی کے بدترین واقعات سے حیران ہیں، ہم اس نامعلوم خطے سے خوفزدہ ہیں، جس میں ہم اب داخل ہو چکے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ انسانوں نے اپنے سیارے (زمین) کو گرم کرنے والے گیسز کا اخراج روکنے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کی، جہاں گرین ہاؤس گیسز ریکارڈ سطح پر ہیں اور گزشتہ سال فوسل فیول کے لیے سبسڈی میں اضافہ ہوا ہے
واضح رہے کہ یہ تشویش ناک تشخیص تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات میں ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کی عالمی کانفرنس میں موسمیاتی مذاکرات سے صرف ایک ماہ قبل سامنے آئی ہے
تحقیق کاروں نے کہا کہ ہمیں آب و ہوا کی ہنگامی صورت حال کے بارے میں اپنے نکتہِ نظر کو ماحولیاتی مسئلے، زندگی کے وجود کو درپیش خطرے سے نکالنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں
آب و ہوا سے متعلق اس مطالعے میں پینتیس سیاروں کی اہم علامات کے حالیہ اعداد و شمار پر غور کیا گیا اور معلوم ہوا کہ ان میں سے بیس اس سال ریکارڈ حد سے زیادہ ہیں
یورپی یونین کی کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس نے کہا کہ ستمبر سے پہلے تین مہینے اب تک ریکارڈ گرم ترین تھے، جو تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار برسوں میں سب سے زیادہ گرم ترین تھے
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2023 میں آب و ہوا سے متعلق بہت سے ریکارڈ خاص طور پر سمندروں میں درجہِ حرارت زیادہ مارجن سے ٹوٹ گئے ہیں
رپورٹ میں کہا گیا کہ ممکنہ طور پر سنگین اثرات میں سمندری زندگی اور مرجان کی چٹانوں کو لاحق خطرات اور بڑے طوفانوں کی شدت میں اضافہ شامل ہے
سیارے کے لوگوں کو اس سال گرمی کی لہروں اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ امریکا، چین بھارت اور دیگر ممالک میں شدید سیلاب نے بھی تباہی مچادی ہے
رپورٹ میں کہا گیا کہ کینیڈا میں ریکارڈ جنگل کی آگ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہے، جس سے ملک کے کل 2021 گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتا ہے
رپورٹ میں ماہرین نے کہا کہ 2023 سے پہلے عالمی درجہ حرارت کے دن صنعتی سطح سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیرس معاہدے میں 1.5 سینٹی گریڈ کا دہائیوں میں جائزہ لیا جائے گا
لیکن اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور رپورٹ کے اولین مصنف ولیم رپل نے کہا کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں ہر سال درجہ حرارت اس سطح یا اس سے زیادہ ہونے کا خدشہ ہے جو کہ موسمیاتی فیڈ بیک لوپس اور ٹپنگ پوائنٹس کو خطرات سے دوچار کرے گا
انہوں نے کہا کہ درجہِ حرارت ایک بار عبور ہونے کے بعد ٹپنگ پوائنٹس ہماری آب و ہوا کو ایسے تبدیل کر سکتا ہے جنہیں تبدیل کرنا مشکل یا ناممکن ہو سکتا ہے
ایکسیٹر یونیورسٹی میں گلوبل سسٹمز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور رپورٹ کے شریک مصنف ٹم لینٹن نے کچھ ٹپنگ پوائنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ”ہم اب ان سے نہیں بچ سکتے اور یہ نقصان کو کم کرنے سے زیادہ ہے، تاہم ایسا کرنے کے لیے گیسوں کا اخراج کم کرنا چاہیے اور درجہ حرارت میں اضافہ روکنا چاہیے۔ سینٹی گریڈ کا ہر حصہ اہمیت رکھتا ہے اور اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے“
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدی کے اختتام تک تین سے چھ ارب لوگ کے لیے حالات مشکل ہو سکتے ہیں
شریک مصنف نے کہا کہ بہت سے عالمی رہنماؤں نے موسمیاتی تبدیلیوں روکنے اور زمین پر زندگی برقرار رکھنے کے لیے پالیسیاں بنانے کے بجائے معمول کے مطابق سرگرمیاں جاری رکھنے کی حمایت کی ہے
انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ حالیہ شدید موسمی واقعات آئندہ موسمیاتی کانفرنس میں پالیسی سازوں کو فوسل فیول کے اخراج میں کمی اور موسمیاتی موافقت کے لیے فنڈز میں اضافہ کرنے میں مدد کریں گے۔