امریکا کے نیورو سائنس دانوں نے اب تک کا چھٹا بنیادی ذائقہ دریافت کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے ’امونیم کلورائیڈ‘ کا نام دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ بنیادی ذائقہ ہے
اب تک دنیا میں پانچ بنیادی ذائقے موجود تھے، جس میں چار ذائقے انسان کی ابتدا سے ہی موجود ہیں لیکن پانچویں ذائقے کو سوا صدی قبل جاپانی سائنس دانوں نے دریافت کیا تھا
اس وقت ہر انسان ’کھٹا، میٹھا، نمکین اور کڑوا‘ ذائقہ محسوس کرنے کے علاوہ ’امامی‘ نامی پانچواں ذائقہ بھی محسوس کر سکتا ہے
این پی آر کے مطابق، ایک بنیادی ذائقہ – جیسے میٹھا، نمکین، کھٹا، کڑوا اور امامی – – ذائقہ کے کیمیائی سائن کو زبان پر مخصوص ریسیپٹرز کو متحرک کرنا چاہیے ۔ اب تک، سائنسدانوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس زبردست امونیم کلورائیڈ ردعمل کے لیے کون سے رسیپٹرز ذمہ دار تھے
تاہم اب امریکی ماہرین نے بتایا ہے کہ دراصل انسان چھٹے بنیادی ذائقے ’امونیم کلورائیڈ‘ کو بھی محسوس کرتا ہے
حال ہی میں طبی جریدے ’نیچر‘ میں شائع تحقیق کے مطابق امریکی ریاست کیلی فورنیا کی یونیورسٹی کے اعصابی سائنس دانوں نے طویل تحقیق کے بعد دریافت کیا کہ کھٹے ذائقے کو محسوس کرنے والے زبان کے پروٹین ریسیپٹرز، چھٹے ذائقے کو بھی محسوس کرتے ہیں
محققین نے کہا کہ سائنس دان طویل عرصے سے جانتے ہیں کہ زبان امونیم کلورائیڈ کو سخت ردعمل دیتی ہے
ماہرین کے مطابق زبان کے پروٹیین ریسیپٹرز ’امونیم کلورائیڈ‘ نامی ذائقے کو بھی محسوس کرتے ہیں، جو دراصل بیک وقت ’کڑوا، نمکین اور تھوڑا سا کھٹا‘ ہوتا ہے
ماہرین کے مطابق مذکورہ ذائقے کے اجزا گوشت، پھلوں اور سبزیوں میں پائے جاتے ہیں، اس لیے بعض اوقات انسان ایسی غذا کھاتے وقت لاشعوری طور پر اس کا ذائقہ سمجھ نہیں پا رہا ہوتا
یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی نیورو سائنس دان اور اس تحقیق کی شریک مصنفہ ایملی لیمن کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ سکینڈے نیوین ملک میں رہتے ہیں تو آپ اس ذائقے سے واقف ہوں گے اور ممکن ہے کہ اسے پسند کرتے ہوں۔‘
سالٹ لکوریس (نمکین ملٹھی) کم از کم 20 ویں صدی کے اوائل سے کچھ شمالی یورپی ممالک میں مقبول کینڈی رہی ہے اور اس کے اجزا سالمیاک نمک یا امونیم کلورائیڈ پر مشتمل ہیں۔
اگرچہ سائنس دانوں کو معلوم ہے کہ زبان امونیم کلورائیڈ چکھنے پر کسی نہ کسی طرح سے ردعمل ظاہر کرتی ہے لیکن زبان پر موجود مخصوص پروٹین ریسیپٹرز جو یہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں وہ دہائیوں کی وسیع تحقیق کے باوجود پوشیدہ رہے ہیں۔
یہ صورت حال اس وقت مزید واضح ہو گئی جب حالیہ تحقیق میں زبان کے پروٹین ریسیپٹر کے ذریعے کھٹے ذائقے کا پتہ لگانے والی پروٹین کا انکشاف ہوا جسے او ٹی او پی ون کہا جاتا ہے۔
یہ پروٹین زبان میں خلیوں کی جھلیوں کے اندر موجود ہوتی ہے اور ہائیڈروجن آئنز کے لیے راستہ بناتی ہے۔ ہائیڈروجن آئنز کھٹی غذا کا اہم جزو ہیں، جو اس راستے سے زبان کے خلیوں تک پہنچتے ہیں
او ٹی او پی ون، لیموں پانی جو سائٹرک اور ایسکوربک ایسڈ سے بھرپور ہوتا ہے اور سرکے جیسے دیگر ترش مشروبات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح جب اس طرح کی خوراک زبان تک پہنچتی ہے تو زبان ان کی کھٹاس محسوس کرتی ہے
چوں کہ امونیم کلورائیڈ سیل میں ہائیڈروجن آئنز کے ارتکاز کو بھی متاثر کرتا ہے اس لیے محققین کا خیال ہے کہ آیا یہ او ٹی او پی ون کو بھی متحرک کرتا ہے
اس بات کا جائزہ لینے کے لیے سائنس دانوں نے او ٹی او پی ون ریسیپٹر کے پیچھے موجود جین کو لیبارٹری میں تیار کردہ انسانی خلیات میں داخل کیا تاکہ خلیات او ٹی او پی ون ریسیپٹر تیار کریں
اس کے بعد محققین نے ان خلیوں کو تیزاب یا امونیم کلورائیڈ میں ڈالا اور ردعمل کی جانچ کی
ڈاکٹر لیمن نے کہا کہ ’ہم نے دیکھا کہ امونیم کلورائیڈ، او ٹی او پی ون چینل کو واقعی بھرپور انداز میں فعال کرتا ہے۔ یہ اسے تیزاب کے مقابلے میں اچھا یا بہتر طور پر فعال کرتا ہے۔‘
امونیم کلورائیڈ سے امونیا کی تھوڑی سی مقدار خلیے کے اندر منتقل ہوتی پائی گئی۔
چونکہ امونیا الکلی ہے اس لیے وہ پی ایچ (تیزاب یا بنیادی مادے کی مقدار) کو بڑھاتی ہے جس سے ہائیڈروجن آئن کم ہوجاتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پی ایچ کا یہ فرق او ٹی او پی ون کے ذریعے ہائیڈروجن آئنز کے سفر کا سبب بنتا جس کا پتہ چینل میں برقی موصلیت میں تبدیلیوں کی پیمائش کرکے لگایا جاسکتا ہے۔
اس کی پیمائش کے لیے سائنس دانوں نے عام چوہوں اور جینیاتی طور پر تبدیل کیے گئے چوہوں میں ذائقہ محسوس کرنے والے خلیوں کو استعمال کیا، جو او ٹی او پی ون پیدا نہیں کرتے
انہوں نے یہ پیمائش کی کہ جب امونیم کلورائیڈ کو استعمال کیا گیا تو ذائقے کے خلیات نے برقی ردعمل کو کتنی اچھی طرح پیدا کیا۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ او ٹی او پی ون امونیم کلورائیڈ جیسی نمکین چیزوں پر ردعمل ظاہر کرنے کے معاملے میں عام چوہوں کے ذائقے کے خلیات کے لیے اہم ہے لیکن او ٹی او پی ون کے بغیرچوہوں کے ذائقے کے خلیے نمکین ذائقہ چکھنے کے بعد دماغ کو صحیح سگنل بھیجنے میں ناکام رہے۔
اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ او ٹی او پی ون امونیم کلورائیڈ پر ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔
سائنس دانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ فعال او ٹی او پی ون پروٹین والے چوہوں میں امونیم کلورائیڈ کا ذائقہ غیر پرکشش پایا گیا اور انہوں نے نمک سے بھرا پانی نہیں پیا۔ جب کہ اس پروٹین کی کمی والے چوہوں کو نمک کی بہت زیادہ مقدار والے محلول پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
ڈاکٹر لیمن کے مطابق: ’یہ واقعی بڑی بات تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امونیم کے جواب میں رویے پر مبنی ردعمل کے لیے او ٹی او پی ون چینل کی موجودگی ضروری ہے۔‘
محققین کو یہ بھی پتہ چلا کہ کہ او ٹی او پی ون چینل دوسری انواع کے مقابلے میں انواع کی کچھ اقسام میں امونیم کلورائیڈ کے لیے زیادہ حساس دکھائی دیتا ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ امونیم کلورائیڈ کا ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیت جانداروں کو ایسے نقصان دہ حیاتیاتی مادے کھانے سے روکنے میں معاون ثابت ہوئی ہو جن میں امونیم کی مقدارزیادہ تھی۔
ڈاکٹر لیمن نے وضاحت کی ہے کہ ’امونیم فاضل مادے میں پائی جاتی ہے۔ کھاد پر غور کریں جو کسی حد تک زہریلی ہوتی ہے۔ اس لیے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا پتہ لگانے کے لیے ہمارے اندر ذائقے کے نظام نے ترقی کی۔‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ضمن میں انواع کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے
سائنسدانوں کی جانب سے چھٹے بنیادی ذائقے کو دریافت کرنے کے بعد عام انسان پریشان ہیں کہ وہ ’کھٹے، میٹھے، نمکین اور کڑوے‘ کے علاوہ باقی دو ذائقوں کو کس طرح پہچانیں، لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ باقی دریافت ہونے والے دونوں ذائقے انسانی ارتقا سے موجود ذائقوں کا مکسچر ہیں، یعنی ان میں چاروں ذائقوں کا ذائقہ محسوس کیا جا سکتا ہے
یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب سائنس دانوں نے چھٹے ذائقے کو بے نقاب کیا ہو۔ ستمبر 2015 میں، جیسا کہ این پی آر نے رپورٹ کیا، کیمیکل سینسز جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق نے اولیوگسٹس (لاطینی زبان میں ’چربی کا ذائقہ‘) کا معاملہ پیش کیا۔ اس سے سات مہینے پہلے، فلیور نامی جریدے میں ، آسٹریلوی محققین نے دلیل دی تھی کہ ”اگلے پانچ سے دس سالوں میں حتمی طور پر یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ آیا چربی کو چھٹے ذائقے کے طور پر درجہ بندی کیا جا سکتا ہے۔“
آیا اولیوگسٹس یا امونیم کلورائد سرکاری چھٹے ذائقے کے طور پر کوالیفائی کرتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔ سائنسی برادری کو اسی نتیجے پر پہنچنے میں 80 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا جیسا کہ جاپانی کیمیا دان Kikunae Ikeda، جس نے 1900 کی دہائی کے اوائل میں امامی کو پانچویں بنیادی ذائقے کے طور پر شناخت کیا
چھٹے ذائقے کی دریافت کا دعویٰ اپنی جگہ، لیکن جاپان سے ’تصوراتی پھل‘ کے ذائقے پر مبنی ٹافی کے حوالے سے ایک دلچسپ خبر بھی سامنے آئی ہے
اگرچہ بہت سے دلچسپ پھلوں کے ذائقے ہیں، جن میں پھلوں کے مجموعے (ٹوٹی فروٹی) کا ذائقہ بھی شامل ہے، تاہم اکثر کمپنیاں اب بھی دستیاب پھلوں تک محدود ہیں۔۔ لیکن کیا ہو اگر کوئی ایسی ٹافی بنالے جو کہ دنیا کے کسی بھی پھل کو چھوڑ کر محض ایک خیالی پھل کے ذائقے پر مبنی ہو
یہی وہ خیال تھا جس کی بنا پر جاپانی کمپنی کانرو نے ایک نئی قسم کی ٹافی متعارف کروائی، جس کا ذائقہ ’Kiraspika no Mi‘ کا ہے، جو کہ ایک تصوراتی پھل ہے
ٹافیاں بنانے والی جاپانی کمپنی ٹافیاں بنانے کے اپنے آئیڈیے کی وجہ سے خبروں کی سرخیوں میں ہے، جبکہ اس چیونگم نما ٹافی کی مارکیٹ 2023 میں کافی پھیل گئی ہے
یہ ذائقہ اور ذاتی تجربات کا راز ہی ہے، جو کانرو کمپ کی مصنوعات کو اتنا مقبول بناتا ہے۔ یہ گزشتہ مہینے عالمی سطح پر معروف سیون-الیون اسٹور چین میں پچھلے مہینےمتعارف کرا گیا اور دیکھتے دیکھتے ہے تیز رفتاری سے فروخت ہو نے لگا۔