ماحولیاتی تبدیلی اب ہمارے لیے نیا لفظ نہیں رہا، معلوماتی وسائل کی کثیر دستیابی کی وجہ سے اب ہم ہر قسم کی معلومات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ ماضی میں ماحول کے بارے میں جاننا ہو یا مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے اثرات کے بارے میں معلومات درکار ہو، سب ہماری انگلی کی دوری پر ہے۔
ہمارے اندر ماحول کے حوالے سے احساسِ ذمے داری کا جذبہ اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے ’سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز‘ کی ایک تفصیلی شکل مرتب کی ہے، جن کو ’ایجنڈا 2030‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ سترہ اہداف جن کو 2030 تک حاصل کرنے کا ٹاسک پوری دنیا کے ممالک کو دیا گیا ہے، اور اس کارکردگی کو جانچا جائے گا کہ کس ملک نے کتنی تگ و دو کی، اور کس نے ان کو نظر انداز کر دیا۔ ان سترہ اہداف میں معاشی، ماحولیاتی اور سماجی نکات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک مختلف طرح سے ان اہداف کو پانے میں سرگرداں ہیں اور اپنی اپنی کوششوں میں جتے ہیں۔ جیسا کہ SDG INDEX کی رینکنگ کے مطابق 86.76 پوائنٹس کے ساتھ فن لینڈ پہلے نمبر پر براجمان ہے، سوئیڈن 85.98 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے اور 85.68 پوائنٹس کے ساتھ ڈنمارک کا تیسرا نمبر ہے، جبکہ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا کا ایک بھی ملک پہلے پچاس ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، جیسا کہ انڈیا کا نمبر 112 اور پاکستان کا نمبر 128 ہے۔
آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔۔ اور کیوں ہم اہم مسائل کو حل کرنے کے بجائے اور اپنے ماحول، سماج اور معاشی فکروں سے نبرد آزما ہونے کے بجائے عجیب گتھیاں سلجھانے میں لگے ہیں؟ آخر وہ کون سے ایسے مسائل ہیں، جن کی فکریں ہم کو کھائے جا رہی ہیں، جبکہ کسی بھی نظام میں یہی تین نکات اہم ہوتے ہیں، معاش، سماج اور ماحول۔
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، بلاشبہ یہاں کے سب سے بڑے مسائل روٹی، کپڑا اور مکان ہی ہیں۔ ایک ترقی پذیر ملک ان تین مسائل سے ہمیشہ ہی دوچار رہتا ہے اور ہمیشہ سے ہی ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے مصروفِ عمل رہتا ہے۔ اب مسئلہ یہیں سے ہی شروع ہوتا ہے کہ ہم صرف اپنا ہی سوچتے ہوئے، اپنی روٹی کی فکر کرتے ہوئے، صرف اپنے لباس کو فوقیت دیتے ہوئے اور اپنی چھتوں کو آسمان تک پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ معاشی غربت کے ساتھ ساتھ ہم ذہنی غریب بھی ہیں، بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ ہم ذہنی غریب ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی غربت کا شکار ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔
ہمیں صرف اپنی روٹی کی اتنی فکر ہے کہ اس کے حصول کے لیے ہم ایک ایک چیز کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور کسی بھی چیز کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ چند دن پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی میں شدت آنے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے 220 ملین لوگ شدید گرمی کا سامنا کریں گے۔ اسی طرح چند ماہ پہلے آنے والے سیلاب کی شدت زیادہ ہونے کے وجہ یہی موسمیاتی تبدیلی ہی ہے۔ روٹی کی فکر کرنی چاہیے لیکن اپنی جان کی فکر پہلے کرنی چاہیے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیوں ہم اپنی جڑوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنی دوڑ، اپنی فکروں کا محور صرف اور صرف روٹی کو ہی رکھا ہے، اور اس کے لیے ہم ہر حلال و حرام کام کرنے پر بھی تیار رہتے ہیں، لیکن پھر بھی ہماری اتنی تگ و دو کے باوجود بھی افریقی ممالک کے بعد پہلا ایشیائی ملک پاکستان ہے، جس کا نمبر غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والے ممالک کی فہرست میں 36ویں نمبر پر ہے۔ بنگلہ دیش کا نمبر 39 ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ کہیں نہ کہیں ہم سے کوئی تو ایسی غلطی ہو رہی ہے کہ ہم کسی بھی میدان میں اپنی کارکردگی بہتر کر سکنے میں ناکام ہیں۔
اس کی وجوہ کی اگر بات کروں تو کوئی ایک اہم ترین وجہ نہیں کہی جا سکتی، بلکہ یہ مسائل مختلف وجوہ سے کسی بھی ملک میں نمودار ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ ناقص پالیسیاں بھی ہو سکتی ہیں، اس کے علاوہ لوگوں میں شعور کی کمی بھی ایک وجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بتایا جائے کہ کیا کیا اقدام کیے جانے چاہئیں۔ قومی نمائندے اپنے اپنے علاقے میں شعوری مہمات شروع کریں۔ لوگوں کو متبادل ذرائع کا بتایا جانا چاہیے اور ایک مجموعی سوچ کو پروان چڑھایا جانا چاہیے۔
بلاشبہ ہمارا ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے، یہ سب ہماری اپنی سوچ کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر ہم سوچ بدلیں گے تو حالات بھی بدلیں گے۔ جو چیز ہمارے اختیار میں ہے، وہ تو ہم درست کر سکتے ہیں۔ خدارا اپنی سوچ کو بدلیے، کیونکہ یہ ہمارے اختیار میں ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)