سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط64)

شہزاد احمد حمید

خیرپور ریاست کے سابق میروں کا ایک شکوہ ہے کہ شاید اس ریاست اور گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدہ پر مکمل طور پر یا اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔

میر سہراب خاں کی قائم کردہ ”تماثیل مہرانو“ (sanctuary mahrano) جس میں جنگلات، جنگلی حیات، زرعی زمین، جھیل، صحرائی جاندار و نباتات، ہرن وغیرہ رکھے گئے ہیں، تفریح کی بہترین جگہ ہے۔

خیر پور کی مخالف سمت لاڑکانہ ہے اور اس سے ذرا آگے دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں میں سے ایک تہذیب موئن جو دڑو۔ انگریز ماہر آثارِ قدیمہ ونسٹ اسمتھ کا خیال ہے؛
”یہاں کانسہ کا دور کبھی آیا ہی نہیں کیونکہ موریا عہد سے پہلے کوئی آثار دریافت نہیں ہوئے تھے۔ مگر ان آثار (موئن جود ڑو) کے دریافت ہونے کے بعد سب نظرئیے یکسر بدل گئے۔“

سندھو بتاتا ہے ”سکھر بیراج سے آگے وسیع کھلے آبی خطے میں شور زدہ اور نباتات سے محروم میدان دراصل ’شہداد کوٹ‘ کا پٹ ہے۔ مجھ میں جب بھی سیلاب آتا ہے تو میں اپنے پشتوں کے درمیان 10 میل تک چوڑائی میں بہتا ہوں۔ ڈیلٹا کی زیادہ تر زمین کو خود اپنی چادر سے ڈھانپے قدیم ’مٹھو دریا‘ کا وارث نظر آتا ہوں۔ روہڑی کے علاقے میں موٹی گھاس کے میدان ہیں اور جہاں تک نظر جاتی ہے جنگلات یا سرکنڈوں نے زمین اور جھیلوں کو ڈھانپ رکھا ہے۔ یہاں کے متضاد مناظر جن میں ایک طرف صحرائی شادابی ہے تو دوسری طرف انتہائی بیابانی، انسان کو حیران کرتے ہیں۔ زراعت کا زیادہ تر انحصار بارش پر ہے۔ بارش نہ ہو تو زمین سخت ہو جاتی ہے اور ایسی زمین پر دوڑتے گھوڑے کے سموں کی آواز اس بیابانی کی خاموشی کو توڑتی کانوں کی سماعت کو اچھی لگتی ہے۔ ریگستانی زبان میں ایسی زمین ’ڈھر‘ کہلاتی ہے۔ اس سخت زمین کے خاص درخت ’کنڈی‘ کی لکڑی بھی اس زمین کی طرح ہی سخت ہوتی ہے۔ یہاں جو جھاڑیاں اگتی ہیں، وہ برائے نام بارش پر زندہ رہتی ہیں۔ یہ اللہ کا نظام ہے۔ نرم ریتلی زمین پر آندھی کا غبار لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔اس زمین پر ’کِھپ‘ ، ’پھوگ‘ اور ”اَک“ جیسے پودے پیدا ہوتے ہیں مگر ایسی زمین کو پانی میسر آ جائے تو نہایت زرخیز بن جاتی ہے۔ میرے پانی کا یہی تو کمال ہے، جہاں بھی پہنچا زمین کی زرخیزی کو لاجواب کر دیا ہے البتہ میرے کنارے کی زمین نم دار مٹی اور ریت کا مرکب ہے۔“

داستان گواپنی کہانی سناتا جا رہا ہے، ”سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے میری گزرگاہ کے گرد حفاظتی پشتے تعمیر کئے گئے ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں سکھر بیراج سے عام حالات کے مقابلے دوگنا پانی بہتا ہے۔ یہاں ان دنوں اگر میرے حفاظتی پشتوں پر شگاف پڑ جائے یا خود شگاف ڈالا جائے تو شکارپور اور سکھر کا وسیع رقبہ زیر آب آ جاتا ہے اور سیلاب کی تباہ کاریاں پیچھے بربادی اور آنسوؤں کی کہانیاں چھوڑ جاتی ہیں۔ تم جانتے ہو بعض دفعہ بڑے وڈیروں اور سرداروں کی زمینوں کو سیلابی تباہی سے بچانے کے لئے حفاظتی پشتوں میں ایسی جگہ شگاف کیا جاتا ہے، جس سے ان وڈیروں اور سرداروں کی زمینیں محفوظ رہیں خواہ عام آدمی یا حکومت کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔ خود غرضی کی انتہا ہے۔ جو ملک اور زمین تمھاری پہچان ہے اسی کو لوٹتے ہو۔ کوئی شرم، کوئی حیا، کوئی غیرت ہوتی ہے۔ میرے سیلاب سے بچنا ممکن نہیں اور نہ کوئی حفاظتی پشتہ مجھے روک سکتا ہے۔ مون سون کی بارشیں ندی نالوں میں طغیانی لاتی ہیں اور میری لائی ہوئی تباہی میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں۔ یہ ندی نالے کشمور سے لے کر سیہون شریف کی پہاڑیوں تک پھیلے ہیں۔ روہڑی جو میرے اور ریگستان کے درمیان واقع ہے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔“

”سندھ میں زراعت کا انحصار تین چیزوں پر ہے۔ پہلی؛ نہریں جو مجھ سے ہی نکالی گئی ہیں دوسری؛ بارشیں اور تیسرا؛ میرا سیلابی پانی۔ میں ایک بڑے درخت کی شاخوں کی طرح ہر طرف پھیلا بہتا زمینوں کو سیراب کرتا ہوں مگر پھر بھی بہت سے علاقے میرے پانی سے دور ہونے کی وجہ سے بنجر ہی ہیں۔“

”سکھر کی کشتی سازی کی صنعت بھی میرے جتنی ہی قدیم ہے۔ سفر کے ذرائع میں کشتی کا سفر دنیا میں سفر کا قدیم ترین ذریعہ ہے۔ اس کا ذکر بائبل میں بھی ہے، ویدوں میں بھی ہے اور قرآن میں بھی۔ قرآن کریم کے مطابق اللہ کے حکم سے حضرت نوح علیہ اسلام نے بھی کشتی بنائی تھی۔ قرآن کا فرمان ہے؛
’ہم نے نوح کو ایک کشتی جو میخوں اور تختوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرا لیا۔‘
موئن جو دڑوکا زمانہ ہی وہ زمانہ ہے، جس میں کشتی سازی کی صنعت کو بھی کمال درجہ حاصل ہوا۔ سکھر کے جدید شہر کی بنیاد ”سر چارلز نیپیئر“ (sir charles nepior) نے رکھی جبکہ سکھر میوزیم میں رکھی تصویری کہانی 1890ء میں یہاں کشتی سازی کی ابتداء کا بتاتی ہے۔ کشتی سازی یہاں کی اہم صنعت تھی اور ہے۔ ملک کے طول و عرض سے مزدور اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ میرے خانہ بدوش (مچھیرے) قبائل کشتی میں گھر بناتے اور باقی زندگی میرے پانیوں پر کشتی میں گزار دیتے ہیں جبکہ خشکی پر ان کا بہت کم وقت ہی گزرتا ہے۔ سکھر بیراج کی تعمیر نے ان کشتی بانوں کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔ میرا (سندھو) ’مہانا‘ قبیلہ کشتی کے گھروں میں ہی رہتا ہے۔ ہم انہیں ’کشتی کے لوگ‘ بھی کہتے ہیں مگر اس قبیلے کے بہت سے لوگ اب میرے پانیوں سے ناطہ توڑ کر میرے کناروں پر آباد ہو چکے ہیں۔“

مجھے اللہ ڈنو نے بتایا، ”سائیں! لکڑی کی بنی کشتیاں ماہی گیر استعمال کرتے ہیں اور ماضی بعید میں یہ سامان رسد لانے اور لے جانے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔ کبھی ماہی گیروں کے ساتھ خواتین بھی ہوتی تھیں لیکن اب عورتیں ماہی گیری کے لئے نہیں آتی ہیں۔ سائیں! ان کشتیوں کی مانگ اب کم ہو گئی ہے۔ وجہ سندھو کے پانی میں کمی ہے۔“ مشتاق کے پوچھنے پر اللہ ڈنو نے بتایا؛لکڑی کی ایک بڑی کشتی بنانے میں چھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے

سندھو بتاتا ہے ”قدیم دور سے ہی مجھ میں نئی کشتی اتارنے کی رسم ادا ہوتی چلی آئی ہے۔ لوگ اکٹھے ہوتے، دعا مانگتے۔ مجھے کو خوش کرنے کے لئے روٹی کے ٹکڑے، ثابت مسور کی دال اور ہلدی لگا گوشت میرے پانی میں پھینکتے تاکہ میرے پانی پر نئی کشتی کا سفر محفوظ اور خوشگوار رہے۔ ہندوستان کے تاجر سامان تجارت سکندریہ تک لے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مصر کے بازاروں میں سندھ اور ہند کی بہت سی اشیاء دستیاب تھیں۔ خاص طور پر شکارپور کے اچار کی تو بہت مانگ تھی۔“ داستان گو یہاں تک کہانی سنا کر چپ ہوگیا ہے۔

سکھر سے اگلی منزل چلنے کا وقت ہے۔ میں نے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا صبح کا وقت ہے پو پھوٹ چکی اور سورج اونچا ہو رہا ہے اور میں نیچے چلا آیا ہوں۔ گاڑی میں سوار ہوئے اور لاڑکانہ کو رواں ہیں۔ میری نظر گلی میں کھیلتی معصوم ننھی بچیوں پر پڑی ہے۔ میں نے جیپ روکی اور چھٹی کے دن صبح صبح میں انہیں دیسی کھیل کھیلتا دیکھنے لگا ہوں۔ انہیں دیکھ کر بہت سی دعائیں لب پر آ گئی ہیں۔ آباد رہیں، شاد رہیں۔ ساتھ ہی اپنا بچپن بھی یاد آ گیا، جب ہم بچپن میں محلہ کے بچوں کے ساتھ یہی کھیل کھیلا کرتے تھے۔۔
ہرا سمندر گوپی چندر
بول میری مچھلی، کتنا پانی
اتنا پانی۔۔۔۔۔۔۔ اتنا پانی۔۔۔۔۔۔۔
ان ننھے بچوں کے الفاظ فضاء میں رہ گئے لیکن میرے دماغ کے کونے میں چھپی بچپن کی یاد تازہ کر گئے ہیں۔

ہم حیدرآباد جائیں گے براستہ لاڑکانہ۔ ہمارا اگلا پڑاؤ اور قیام گاہ سندھو کے دائیں کنارے آباد ’کوٹری‘ شہر ہے۔ حیدآباد اور کوٹری جڑواں شہر ہیں، ویسے ہی جیسے روہڑی اور سکھر ہیں۔ 1955ء کا سندھو پر تعمیر کردہ ’کوٹری بیراج‘ اس شہر کی وجہِ شہرت ہے۔ اس بیراج کا پل کوٹری اور حیدرآباد کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔۔ ہاں یہ کہنا مناسب ہوگا، ملاتا ہے۔ ڈاک بنگلہ محکمہ آبپاشی حیدراآباد ہماری آج کی قیام گاہ ہے۔

ہم سکھر سے سندھو کے مغربی کنارے پر دوڑتی انڈس ہائی وے سے لاڑکانہ کے لئے رواں ہیں۔ سکھر۔۔ شکارپور۔۔ گڑھی یاسین۔۔ رتو ڈیرو۔۔ لاڑکانہ۔۔ نوے (90)کلو میٹر کا یہ فاصلہ طے کرنے میں 90 منٹ ہی لگیں گے۔ سڑک عمدہ اور ٹریفک کم ہے۔

راستہ کے ساتھ ہریالی کم اور بیابانی زیادہ ہے۔ ہاں جہاں کہیں بھی ہریالی ہے، وہ پنجاب جیسی نہیں ہے اور جہاں کہیں ہے بھی، وہ ٹکڑوں میں ہی ہے۔ اگلا شہر شکارپور سکھر سے تقریباً سینتیس (37) کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ سندھو اس شہر سے ستائیس (27) کلومیٹر کی دوری سے بہتا ہے۔ ماضی میں اس شہر کو ’پیرس آف سندھ‘ بھی کہتے تھے۔ تانبے کی اشیاء، قالین، سوتی کپڑا اور کڑھائی کے کام میں اس شہر کا بڑا نام ہے۔ شکارپور کا ’لداخی بازار‘ شاپنگ، کھانے پینے کی دوکانوں اور ریسٹورنٹ کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ رات گئے تک یہاں رونق رہتی ہے۔ ہم یہاں رکے بغیر شکارپور چوک سے گڑھی یاسین کو محوِ سفر ہیں، جو یہاں سے مزید تینتیس (33) کلو میٹر کی مسافت ہے۔ سڑک کے اطراف سیم زدہ زمین ہے۔ ہم ’لَکھی‘ کے چھوٹے سے قصبے سے گزر رہے ہیں۔ ’رتو دیرو‘ یہاں سے دور نہیں ہے۔ رتو ڈیرو سے راستہ بھٹو خاندان کے آبائی گھر اور ان کے مزارات ”گڑھی خدا بخش“ جاتا ہے۔ سفید پتھر سے بنا بھٹو کا مزار، جسے درگاہ کہنا زیادہ مناسب ہے، دور سے ہی دکھائی دیتا ہے۔

داستان گو وہ بھی سندھو جیسا آگے کی کہانی کچھ یوں بیان کرتا ہے؛ ”گرمیوں کے 6 مہینے عام طور پر ہوا جنوب کی جانب سے اور سردیوں میں شمال کی جانب سے میرے متوازی چلتی ہے۔شمالی ہوا بڑی تیز اور تند ہوتی ہے اور اکثر ریت کے بادل اڑاتی ہے، جس سے فضاء میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ سمجھ دار کشتی ران ایسے میں کشتی کنارے پر لگا دیتے ہیں کہ ایسے موقع پر گہرے پانی میں ہوا کے رحم و کرم پر میرے درمیان رہنا نقصان دہ اور خطرناک ہو سکتا ہے۔ گرمی کی ہوا دوپہر کو لُو میں بدل کر باعث زحمت ہوتی ہے تو شام میں رحمت بن جاتی ہے۔ انگریزی حکومت نے مجھ میں بحری جہاز چلانے کے لئے ’مسٹر وڈ اور مسٹر برنس‘ کی سربراہی میں ایک سروے کروایا؛ ’کیا مجھ میں جہاز رانی ہو سکتی ہے؟‘ اس سروے کے نتیجہ میں 1840ء میں 4 بحری جہاز چلائے بھی گئے لیکن یہ تجربہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکا۔ سکھر سے ٹھٹہ تک تین سو بیس(320) میل کا سفر یہ جہاز 8 دن میں طے کرتے تھے۔ 1856 ء میں ’اورنٹیل ان لینڈ اسٹیم کمپنی‘ نے جہاز رانی کا پرمٹ حاصل کیا۔ حکومت سے رعائت بھی لی اور مسٹر وڈ کو منیجر مقرر کیا مگر یہ تجربہ بھی ناکام رہا اور کمپنی بنک رپٹ ہو گئی تھی۔ میرا اپنا مزاج ہے دوست۔“

”ہاں یاد آیا۔۔ میری گزر گاہ کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن بچھائی گئی تو جہاز رانی سے تجارت کا چانس بالکل ہی ختم ہو گیا۔ امپیریل گزٹیر 1908 کی رپورٹ کے مطابق؛
’میرے (دریائے سندھ) کے ذریعے بہت زیادہ تجارت ہوتی ہے۔ جس کے لئے بھدی اور دیہاتی قسم کی مقامی کشتیاں استعمال ہوتی ہیں۔ کشتی رانی کے ذریعے مجھ میں تجارت کی ساری توقعات ختم ہو چکی ہیں جو کبھی اس سے وابستہ کی گئی تھیں۔ چھوٹی کشتیاں اور اسٹیمر دریا میں اب بھی چلتے ہیں لیکن زیادہ لمبے سفر کے لئے استعمال نہیں ہوتے ہیں۔ وہ دن اب بھولی بسری یادیں ہیں۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close