بھارت کی ریاست کیرالا کے شہر ملاپورم میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلی سے غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس کے رہنما خالد مشعل کی ورچوئل شرکت سے ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ اس وقت کیرالا سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں
ملاپورم کی ریلی کا انعقاد ’یوتھ سولیڈیرٹی موومنٹ‘ نے کیا تھا۔ ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں خالد مشعل کو اس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
یوتھ سولیڈیرٹی موومنٹ کے ریاستی صدر صہیب سی ٹی نے خالد مشعل کی ورچوئل شرکت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ”اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی حماس کے رہنما کیرالا کے پروگراموں سے خطاب کرتے رہے ہیں۔ حماس نامی تنظیم بھارت میں متحرک نہیں ہے اور نہ ہی یہاں اس پر پابندی ہے“
انہوں نے کہا ”ریلی میں خالد مشعل کی شرکت قانون کے خلاف نہیں ہے۔ یہاں ابھی مزید ریلیاں منعقد کی جائیں گی، جن میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا جائے گا۔ حماس ایک مزاحمتی تحریک ہے۔ وہ ایک ایسی جماعت ہے، جس نے غزہ میں ہونے والے انتخابات میں متعدد نشستیں بھی جیتی تھیں“
مرکز میں حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے اس پر سخت ردِعمل ظاہر کیا اور ریاست کی بائیں بازو کی حکومت کے وزیرِ اعلیٰ پنیاری وجئن پر تنقید کرتے ہوئے کہا ”اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ’انڈیا‘ ملک دشمن اور ہندو مذہب مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے“
بی جے پی کے ریاستی صدر کے سریندرن نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ”یہ بہت خطرناک ہے کہ فلسطین بچاؤ تحریک کی آڑ میں ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم کی عزت افزائی کی جا رہی ہے
انہوں نے وزیرِ اعظم کے دفتر کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔
جب کہ کیرالہ بی جے پی کی نائب صدر وی ٹی ریما نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس خبر سے صدمہ پہنچا ہے
بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری کیلاش وجے ورگیئے نے اسے ریاستی حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہ یہ ہندوتوا کے لیے ایک چیلنج ہے اور قابل مذمت ہے
بی جے پی کے قومی ترجمان شہزاد پونہ والا نے سوال کیا کہ کیا اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ اس کی مذمت کرے گا۔ کیا کانگریس اس کی مذمت کرے گی۔ انڈیا اتحاد حماس کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟ جس نے اسرائیل میں سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا۔
واضح رہے کہ انڈیا کی حزبِ اختلاف نے فوری طور پر حماس اسرائیل جنگ بند کرنے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد پر ووٹنگ کے دوران بھارت کی غیر حاضری پر مودی حکومت کی مذمت کی ہے۔ یہ قرارداد 28 اکتوبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی تھی، جس پر ووٹنگ کے دوران بھارت ان 45 ملکوں میں شامل تھا، جنہوں نے ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے کا آپشن استعمال کیا
کانگریس رہنما پریانکا گاندھی نے بھارت کے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اس معاملے پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کیا اور خاموشی اختیار کی۔ جب کہ قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں خوراک، پانی، بجلی، طبی خدمات اور مواصلات کی سہولت منقطع کر دی گئی ہے اور ہزاروں مرد خواتین اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔
راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما لالو پرساد یادو نے کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ بھارت نے انسانیت، جنگ بندی اور عالمی امن کے سلسلے میں سب سے آگے رہنے کے بجائے ڈھلمل رویہ اپنایا
ادھر ’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ بیان میں ووٹنگ کے دوران بھارت کی غیر حاضری کو فلسطینی کاز پر بھارت کی دیرینہ حمایت کو نظرانداز کرنے سے تعبیر کیا گیا
واضح رہے کہ نو اکتوبر کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بہت سے طلبہ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ ہوا تھا، جس پر پولیس نے چار طلبہ کے خلاف ’دو فرقوں میں دشمنی پیدا کرنے‘ کے الزام کے تحت مقدمہ درج کر لیا تھا
تجزیہ کاروں کے مطابق علیگڑھ ہی میں ہندو تنظیم بجرنگ دل کی جانب سے اسرائیل حامی مظاہرہ ہوا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی
یاد رہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں تعینات ایک مسلم پولیس اہل کار کو فلسطینیوں کے حق میں سوشل میڈیا پوسٹ پر معطل کر دیا گیا۔ کانپور میں بھی ایک نوجوان کے خلاف کارروائی ہوئی ہے
دہلی میں پولیس نے کئی تنظیموں کو فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔مہاراشٹرا اور کرناٹک میں بھی پولیس کی جانب سے ایسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ پولیس کا الزام ہے کہ ان مظاہروں سے ہندو مسلم دشمنی پیدا ہوتی ہے
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حق میں بھی مختلف مقامات پر مارچ نکالے اور فلسطینیوں کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
کیا فلسطین پر انڈین پالیسی تبدیل ہو گئی؟
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل کے قیام سے کئی سال قبل انڈیا کی تحریکِ آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی نے فلسطین میں یہودی قومی ریاست کی مخالفت کی تھی اور اسے غیر انسانی قرار دیا تھا
فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے انڈیا میں گذشتہ دو ہفتوں سے ریلیاں نکالی جاری ہیں۔ حکام کی جانب سے منتشر کیے جانے کے باوجود مظاہرین کا خیال ہے کہ انہیں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے ردعمل میں پھر بھی سڑکوں پر نکلنا چاہیے
صرف انڈین دارالحکومت میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پولیس نے تین ریلیوں کو روکا جبکہ خبر رساں ادارے کے نمائندے نے جمعے کو نکالی گئی ریلی کے دوران درجنوں مظاہرین کو گرفتار ہوتے دیکھا
23 اکتوبر کو اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کا اہتمام کرنے والے جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر این سائی بالاجی نے کہا ”احتجاج ضروری ہے۔ اگر آپ انڈیا کی آزادی سے دو سو سال پہلے کی بات کریں تو ہم اپنی لڑائی لڑ رہے تھے۔ انڈین عوام نے برطانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑی اور ہمیں آزادی ملی۔ ہم فلسطینیوں کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں“
1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی سے قبل بھی فلسطین کی حمایت انڈیا کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ تھی۔ فلسطین 1920 سے 1948 تک برطانوی حکومت کے ماتحت رہا
اسرائیل کے قیام سے کئی سال قبل انڈیا کی تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی نے فلسطین میں یہودی قومی ریاست کی مخالفت کی اور اسے غیر انسانی قرار دیا تھا
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر اے کے رام کرشنن کہتے ہیں ”مہاتما گاندھی نے مختلف اوقات میں اس سوال پر خیالات کا اظہار کیا تھا، بالخصوص اس وقت جب بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں یورپ سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی بہت بڑی نقل مکانی ہوئی تھی، جس کا نتیجہ بعد میں 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کی صورت میں نکلا“
انہوں نے 1938 میں ’ہریجن‘ میگزین کو دیے گئے گاندھی کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ”گاندھی نے کہا کہ فلسطین بالکل ایسے ہی عربوں کا ہے، جیسے انگلستان انگریزوں کا ہے اور فرانس فرانسیسیوں کا۔ اور یہ حمایت بہت اہم تھی، حالانکہ یہودی برادری اور عالمی صہیونی تنظیم کی طرف سے ان پر زبردست دباؤ تھا کہ وہ فلسطین میں یہودی ہجرت اور ان کے ایجنڈے کی حمایت میں ایک بیان جاری کریں“
ہندوستان کے دیگر آزادی پسند رہنماؤں کا موقف بھی ان سے مختلف نہ تھا۔ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ناوابستہ تحریک کے حامی تھے، تاہم ان کی انتظامیہ نے آخر کار اسرائیل کو تسلیم کیا
رام کرشنن کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد، ان کی قیادت میں انڈین حکومت نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کیا، لیکن کوئی مکمل تعلق نہیں بنا
نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی، جو 1966 میں انڈیا کی تیسری وزیراعظم بنیں، کے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے رہنما یاسر عرفات کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، جو اکثر انہیں اپنی ’بڑی بہن‘ کہتے تھے
جے این یو کے سینٹر فار پولیٹیکل اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر علی کہتے ہیں ”یہ اس چیز کی واضح مثال ہے کہ اس وقت تعلقات کتنے خوشگوار تھے۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں ہزاروں فلسطینیوں نے انڈین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور انڈین معاشرے نے ان کا خیرمقدم کیا تھا“
عامر علی نے مزید کہا کہ عرب دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ سے بہت اچھے رہے ہیں۔ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انڈیا کی سرکاری پالیسی میں واضح تبدیلی کے باوجود یہ اب بھی برقرار ہیں۔ تاہم عامر علی کے مطابق یہ تبدیلی مودی کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے سے چل رہی تھی
عامر علی نے کہا، ”میرے خیال میں سب سے بڑی تبدیلی 1990 کی دہائی میں لبرلائزیشن کے ساتھ ہوئی۔ 1992 میں ہمارے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ اس کے بعد سے انڈیا نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اپنی پالیسی کو متوازن کرنے کی کوشش کی ہے“
نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز کی پروفیسر سجاتا ایشوریا نے کہا، ’2014 کے بعد سے انڈیا کے موقف میں واضح تبدیلی آئی ہے، پھر بھی انڈیا امریکہ جتنا آگے نہیں بڑھا، جس نے 2017 میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا، اب وہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا ہے
غزہ سے تعلق رکھنے والے گروپ حماس کے حملے کے بعد جب اسرائیل نے سات اکتوبر کو غزہ پر روزانہ بمباری شروع کی تو مودی نے ابتدائی طور پر اسرائیل کی حمایت کر کے تنازع کھڑا کر دیا
انہوں نے سوشل میڈیا پر کہا کہ انہیں اس ’دہشت گردانہ‘ حملے سے صدمہ ہوا اور انڈیا ’یکجہتی میں اسرائیل کے ساتھ‘ کھڑا ہے
اس کے دو روز بعد انڈین وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ’انڈیا نے ہمیشہ فلسطین کی ایک خودمختار، آزاد اور قابل عمل ریاست کے قیام کے لیے مذاکرات‘ کی وکالت کی ہے
لیکن مودی کی اس پوسٹ نے واضح طور پر اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی۔ نئی دہلی میں سفیر نور گیلون نے گذشتہ ہفتے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انڈیا حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر تسلیم کرے، یہ وہ معاملہ ہے جو انہوں نے حکومت کے سامنے اٹھایا تھا
آشوریہ نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے رویے کو دیکھتے ہوئے سفیر کی انڈین حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش پر انہیں حیرت نہیں ہوئی
انہوں نے کہا، ’جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ خطے میں ہونے والے تمام تشدد کے پیچھے سیاق و سباق ہے تو اسرائیل نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
’اسرائیل کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں کیونکہ فوجی اور معاشی طاقت رکھنے والی پوری مغربی دنیا اسرائیل کے پیچھے کھڑی ہے۔ اسرائیل کے پاس جرات ہے کیونکہ اسے مغربی دنیا میں سب کی حمایت حاصل ہے۔‘
آشوریا کے مطابق اسرائیلی سفیر کو جو بات یاد آئی وہ یہ تھی کہ مودی کی پوسٹ میں لفظ ’دہشت گرد‘ حماس کے بجائے حملے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، ’ان کا مطلب حماس سے نہیں تھا… انڈیا کی پالیسی میں حماس کو اب بھی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھا جاتا۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کے بارے میں میری سمجھ ہے، انڈیا اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ مستقبل قریب میں تو نہیں۔‘
نوئیڈا کی ایمیٹی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر آشوتوش سنگھ نے کہا کہ اس طرح کا کوئی بھی اقدام انڈیا کے لیے مسئلے کا باعث ہوگا
انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک ہیرو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کہنا ہندوستانیوں کے لیے بہت سارے سوالات پیدا کرے گا: کیا آپ بھگت سنگھ کو دہشت گرد کہیں گے؟‘ وہ ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کے سخت ناقد اور برطانوی حکام پر دو ہائی پروفائل حملوں میں ملوث تھے، جبکہ برطانیہ نے انہیں دہشت گرد قرار دیا گیا تھا
انہوں نے مزید کہا، ”حتیٰ کہ جو لوگ حماس کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے، وہ بھی انہیں دہشت گرد نہیں کہتے۔ وہ انہیں عسکریت پسند کہتے ہیں، وہ آزادی کے سپاہی ہیں۔ اگرچہ ہم ان کی حمایت نہیں کرتے لیکن ہم ان کی کبھی مذمت نہیں کریں گے کیونکہ وہ مجاہدین آزادی ہیں“
حماس کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے کا اسرائیلی کا مطالبہ اور انڈیا
اسرائیل کی جانب سے بھارت سے حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کے مطالبے پر مبصرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ بھارت اسرائیل کی حمایت کے ساتھ ساتھ تنازعے کے دو ریاستی حل کا بھی حامی ہے۔
نئی دہلی میں اسرائیل کے سفیر ناؤر گیلون نے بدھ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپی یونین، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا پہلے ہی حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔ لہذٰا اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت بھی اسے سرکاری طور پر دہشت گرد گروپ قرار دے۔
ان کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہم نے یہ بات کہی ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں یہاں کے اہل کاروں سے پہلے بھی بات کی ہے۔ یہ کوئی دباؤ ڈالنے والی بات نہیں ہے۔
اُنہوں نے اسرائیل کے حماس مخالف آپریشن کی حمایت کرنے پر بھارت کا شکریہ ادا کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی حماس کے حملے کی پہلے مذمت کرنے والے رہنماؤں میں شامل رہے ہیں۔
ان کے بقول بھارت اسرائیل کی دہشت گردی مخالف کارروائی کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔ اسرائیل کی یہ کارروائی مشرق وسطیٰ میں اس کی بقا کی جنگ ہے۔ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ حماس دوبارہ ایسی کارروائی نہ کر سکے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حماس کو باضابطہ طور پر دہشت گرد گروپ قرار دینا بھارت کے لیے آسان نہیں ہے۔ یہ بات اسرائیل اور فلسطینیوں کے قضیے میں اس کے مؤقف کے برعکس ہو گی۔
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے خیال میں اس سلسلے میں کسی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اسرائیل میں حملے کے فوراً بعد اپنے بیان میں حملے کی مذمت تو کی تھی لیکن انھوں نے حماس کا نام نہیں لیا تھا۔
ان کے بقول اس کے اگلے ہی روز وزارتِ خارجہ نے اس معاملے میں بھارت کے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ اس مسئلے کا حل دو ریاستی فارمولے پر عمل کرنے میں ہے اور بھارت پہلے کی طرح فلسطینی کاز کی حمایت کرتا رہے گا۔
سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کے خیال میں حملے کے فوراً بعد وزیرِ اعظم مودی نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی اور کہا کہ بھارت اس کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے۔
دوسری جانب وزارتِ خارجہ نے بھارت کے مؤقف کو دہرایا اور حملے کی مذمت کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ بھارت فلسطینی کاز کے ساتھ کھڑا ہے۔ پشپ رنجن کے بقول وزارتِ خارجہ کا یہ بیان عرب اور فلسطینیوں کے حامی ملکوں کے دباؤ میں دیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں بیانات کی وجہ سے اس معاملے میں بھارت کی خارجہ پالیسی میں ابہام پیدا ہو گیا۔
ان کے خیال میں بھارت کی اس گومگو کی پالیسی کی وجہ سے ہی اسرائیلی سفیر نے بھارت سے حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
اُن کے بقول اب بھارت کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے۔ اگر وہ اس مطالبے پر توجہ نہیں دیتا تو مودی اور نیتن یاہو کی دوستی پر حرف آئے گا اور اگر وہ اس کی بات مان لیتا ہے تو فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے ملک خفا ہو جائیں گے۔