اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے عرب ممالک میں عوامی مخالفت بڑھنے لگی۔۔

ویب ڈیسک

ایک جانب غزہ میں بیس ہزار سے زائد زخمی فلسطینی شہری علاج کے بغیر تڑپ تڑپ کے جینے پر مجبور ہیں، تو دوسری جانب اسرائیل نے ایک بار پھر سنگدلانہ اقدام کرتے ہوئے غزہ کے لیے آنے والی امداد کو مکمل طور پر روک دیا ہے

اسرائیل کی متواتر بمباری اور مسلسل محاصرے کی وجہ سے ہے غزہ میں معصوم بچوں سمیت ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں، جبکہ زخمیوں کو ادویات اور طبی سہولتیں تو کیا پینے کے لیے پانی تک میسر نہیں

اس کی وجہ اسرائیل کا زخمیوں کو کسی بھی قیمت پر ہسپتالوں تک رسائی دینے کے خلاف حکمت عملی ہے۔ اسی طرح اسرائیل غزہ سے باہر رفح کے راستے مصر یا کسی اور ملک میں علاج کے لیے بھی زخمیوں کو جانے کی اجازت دینے کو بالکل تیار نہیں ہے

اسرائیلی بمباری کا تقریبا ایک ماہ ہونے جا رہا ہے اور سرحدوں سے ماورا ڈاکٹروں کی تنظیم نے ان بیس ہزار سے زائد زخمی فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ ان زخمیوں میں بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ کے 35 ہسپتالوں میں سے 16 ہسپتال مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی اسرائیلی بمباری کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں اور کئی پانی و بجلی اور ایندھن کے علاوہ ادویات اور طبی آلات کی کامل عدم دستیابی کا بھی شکار ہیں

ابھی کچھ روز پہلے ہی غزہ کا واحد کینسر ہسپتال بھی ہسپتال انتظامیہ کو مکمل طور پر بند کرنا پڑ گیا ہے، کہ مریضوں کے علاج کو جاری رکھنا کینسر ہسپتال کی انتظامیہ کے لیے ممکن نہ رہا تھا

دوسری جانب بیس لاکھ کے قریب فلسطینی اب بھی غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں اور مسلسل ہونے والی بمباری کے باعث صرف موت کی طرف نکل سکتے ہیں کہیں اور نہیں

البتہ غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والے 320 زخمیوں کو غزہ سے باہر مصر کی طرف جانے کی اجازت دی گئی ہے، تاکہ ان کا علاج ممکن ہو سکے۔ ان کے علاوہ 22 ایم ایس ایف انٹرنیشنل اسٹاف کو رفح راہداری کے راستے مصر کی طرف منتقل ہونے کی سہولت دی ہے

اب غزہ میں داخل ہونے کے لیے بین الاقوامی اسپیشلائزڈ ٹیم تیار کھڑی ہے تاہم اسے اسرائیل کی جانب سے بمباری میں کسی وقفے اور طبی سٹاف کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت ضروری ہے

اسرائیل نے بمباری کر کے اب تک کئی ہسپتالوں کو تباہ کر دیا ہے ، جس کے نتیجے میں ہسپتال ہی ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں علاج کے لیے داخل زخمی اور طبی عملے کے ارکان بڑی تعداد میں ہلاک ہو چکے ہیں

دوسری جانب بین الاقوامی امدادی سامان لے جانے والے سینکڑوں ٹرک شمالی سیناء میں پھنسے ہوئے ہیں جو غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو اشد ضروری خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارۂ صحت) نے تباہ کن حالات سے خبردار کیا ہے

یہ وہ غیرمعمولی صورتحال ہے، جس نے عرب ممالک میں عوام میں شدید غصے کو جنم دیا ہے، جس سے اسرائیل سے تعلقات رکھنے والے عرب ممالک خائف ہیں

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا اثر خطے کے دیگر عرب ممالک پر بھی پڑ رہا ہے۔ وہ عرب ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر ہیں یا جو ان تعلقات کو بہتر بنانے پر غور کر رہے ہیں، وہاں اس بات کے لیے عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو ختم کیا جائے

سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے شروع ہونے والی اسرائیل حماس جنگ کو تین ہفتے سے زائد گزر چکے ہیں۔ جیسے جیسے اسرائیل کے ظالمانہ حملوں میں شدت آئی ہے، مختلف ممالک کے بیانات بھی تبدیل ہوئے ہیں

عرب رہنماؤں کی جانب سے اسرائیل کے حالیہ حملوں کی مذمت کی گئی ہے اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں پر مزید تنقید کرتے ہوئے امن کا مطالبہ کیا گیا ہے

مراکش کے دارالحکومت رباط اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکلے۔ اسی طرح بحرین کے دارالحکومت مناما میں گزشتہ ماہ اسرائیل کے سفارت خانے کے باہر سینکڑوں لوگ جمع ہوئے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پرچم تھامے ہوئے تھے

بحرین ایک ایسا ملک ہے، جہاں احتجاج کی اجازت ملنا مشکل ہے لیکن اس کے باوجود وہاں اسرائیل کے خلاف بڑا احتجاجی مارچ کیا گیا

یہ مظاہرے جو پورے مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے مظاہروں کی عکاسی کرتے ہیں، ان حکومتوں کے لیے ایک تنبیہہ ہے، جنہوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ قریبی فوجی اور اقتصادی تعلقات کے فوائد حاصل کیے ہیں

مصر ، جس کے اسرائیل کے ساتھ دہائیوں سے تعلقات ہیں، وہاں بھی مختلف شہروں اور جامعات میں مظاہرے ہوئے اور ریلیاں نکالی گئیں

اگرچہ مصر کی وزارتِ خارجہ نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ وہ عام شہریوں پر کہیں بھی ہونے والے حملوں کی مذمت کرتا ہے، لیکن بعد ازاں یہ عوامی دباؤ ہی تھا، جس کی وجہ سے مصری حکمرانوں نے اسرائیل کو تشدد کو بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیا اور غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی کوششوں کو اجاگر کیا

اس کے علاوہ تیونس میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے ایک مسودہ قانون پیش کیا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کو جرم قرار دے گا

مراکش اور بحرین میں عوامی غم و غصہ ایک الگ تناظر میں ہی ہے، کیوں کہ حقوق کے سرگرم کارکن مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات کے معاہدوں کو ختم کیا جائے۔ اس احتجاج نے حکومتوں اور رائے عامہ کے درمیان اختلاف کو واضح کر دیا ہے

اسی تناظر میں بحرین کی پارلیمنٹ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اس نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے اور تل ابیب کے ساتھ اقتصادی تعلقات معطل کر دیے ہیں

بحرین کی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیلی سفیر نے ملک چھوڑ دیا ہے جبکہ بحرین نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے اور اس کے ساتھ تمام اقتصادی تعلقات معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بحرین کا اپنے سفیر کو واپس بلانے اور اقتصادی تعلقات معطل کرنے کا فیصلہ مملکت کے ’ٹھوس اور تاریخی موقف پر مبنی ہے جو فلسطینی کاز اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت کرتا ہے۔‘

اردن نے بھی غزہ جنگ کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل سے احتجاجا اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے

اردنی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ’اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ’ وہ اپنا سفیر اردن نہ بھیجے۔ وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے یہ فیصلہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ جنگ پر ردعمل کے طور پر کیا ہے۔‘

اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ”وزیر خارجہ ایمن صفادی نے اسرائیل سے اردن کے سفیر کو فوری طور پر واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی وجہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت ہے، جس سے ایک ایسی انسانی تباہی جنم لے رہی ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔“

خیال رہے کہ سال 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں مختلف عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے جنہیں ’ابراہم اکارڈز‘ کا نام دیا گیا تھا۔

ابراہم اکارڈز کا مقصد عرب ممالک میں اسرائیل کو وسیع پیمانے پر تسلیم کرنا شامل تھا اور ان معاہدوں نے بحرین، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدوں اور فوجی تعاون کی راہ ہموار کی تھی

اس معاہدے کو مراکش کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا کیوں کہ امریکہ اور بالآخر اسرائیل نے متنازع مغربی صحارا ریجن پر مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کر لیا تھا

البتہ مراکش کی وزارتِ خارجہ نے ابراہم معاہدے یا حالیہ احتجاج پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے

مذکورہ معاہدے کی وجہ سے ہی واشنگٹن نے سوڈان کو دہشت گردی کے لیے ریاستی سہولت کاری کی فہرست سے نکال دیا تھا، جس نے ملک میں جمہوریت نواز تحریک اور بڑھتی مہنگائی سے لڑنے والی حکمران فوجی آمریت کو ایک نئی زندگی دی تھی

البتہ اسرائیل اور حماس جنگ کے خلاف سوڈان اور متحدہ عرب امارات میں بڑے مظاہرے نہیں دیکھے گئے

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کو ابتدائی طور پر ’سنگین تصادم‘ قرار دیا تھا اور اس کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ملک تجارت اور سیاست کو ایک دوسرے سے نہیں ملاتا

تاہم منگل کو جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل کے حملے کے بعد متحدہ عرب امارات نے خبردار کیا کہ اندھا دھند حملوں کے نتیجے میں خطے میں ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوں گے

مختلف عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بعد یہ امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے تھے کہ سعودی عرب بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرلے گا، البتہ موجودہ حالات میں اب اس کے امکانات کم نظر آتے ہیں

کونسل آن فارن ریلیشنز میں مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ اسٹڈیز کے ایک سینئر فیلو اسٹیون کک نے اکتوبر میں خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کو بتایا تھا کہ حالیہ جنگ اور خطے میں ہونے والے مظاہروں کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے امکانات کم ہو گئے ہیں

ان کے بقول کم از کم ایک مدت کے لیے تعلقات معمول پر آنے کی یہ متحرک رفتار کم ہوجائے گی یا رک جائے گی

البتہ تعلقات معمول پر لانے کے مخالف لوگوں کا کہنا ہے کہ مظاہروں سے واضح ہوتا ہے کہ معاہدوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حکومتی جیت نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا

مراکش کے العدل والانصاف گروپ کے قومی سیکریٹری ابوشتا موساعف کا کہنا ہے ”حماس دہشت گرد نہیں ہے۔ وہ نو آبادیات کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ تصور کریں کوئی آپ کے گھر میں گھس جائے تو آپ کیسے برتاؤ کریں گے؟ مسکرائیں گے یا اسے طاقت سے باہر نکالیں گے؟“

واضح رہے کہ العدل والانصاف ایک کالعدم لیکن روادار اسلامی ایسوسی ایشن ہے جو طویل عرصے سے فلسطین کاز کو سپورٹ کر رہی ہے۔ یہ گروپ بادشاہ محمد ششم کی ریاست اور مذہب کے سربراہ کے طور پر دہری اتھارٹی کو مسترد کرتا ہے، لیکن یہ ایک ایسے ملک میں منظم ہے، جہاں بادشاہت کو کمزور کرنا غیر قانونی ہے

البتہ مراکش کا رویہ تعلقات معمول پر لانے کے مخالفین کے ساتھ ہمیشہ سے اتنا نرم نہیں رہا۔ اس جنگ سے قبل پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ اور دھرنا دینے والوں کے خلاف حکام نے کارروائی کی جب کہ مراکش کے شہر کاسابلانکا میں ایک جج نے ایک شخص کو اس لیے پانچ سال کی سزا دی تھی کیوں کہ اس نے تعلقات معمول پر لانے پر تنقید کی تھی

مگر اب قانون نافذ کرنے والے اہل کار زیادہ تر ایک طرف کھڑے رہتے ہیں کیوں کہ روازنہ بڑے احتجاج ہو رہے ہیں

ابوشتا موساعف نے کہا کہ تعلقات معمول پر لانا ریاست کا منصوبہ ہے، عوام کا نہیں

اگر بحرین کی بات کی جائے توہ وہاں 2011 میں عرب اسپرنگز کے بعد سے مظاہروں پر پابندی ہے۔ یہ پابندی اس وقت عائد کی گئی تھی، جب مصر، شام، تیونس اور یمن میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ البتہ حالیہ ہفتوں میں بحرین میں مظاہروں کی اجازت دی گئی ہے

لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے بحرین کی کالعدم الوفاق پارٹی کے سابق رہنما جواد فیروز کا کہنا ہے کہ اب لوگ سڑکوں پر آکر اور مظاہروں میں حصہ لے کر کچھ خطرہ مول لے رہے ہیں۔ ان کے بقول حکومتیں لوگوں کو اکٹھا ہونے کی اجازت دے کر لوگوں کے غصے کو کچھ کم کر رہی ہیں

دوسری جانب ترکیہ اور ایران نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایک علاقائی کانفرنس بلانے پر زور دیا ہے

ایران کے وزیرِ خارجہ امیر عبدالہیان نے بدھ کو ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان اور ترک ہم منصب ہاکان فدان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں ایسے موقع پر ہوئی ہیں جب ایک روز قبل ہی ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے قطر میں حماس کے لیڈروں سے ملاقات کی تھی

ترک وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ترکیہ فوری جنگ بندی کرانے کے لیے زور دے رہا ہے کیوں کہ یہ پیش گوئی کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ جنگ کے کسی مستقل حل کے بغیر تشدد کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی رہے گا

انہوں نے کہا ”ہم نہیں چاہتے کہ غزہ میں ہونے والا سانحہ ایک ایسی جنگ میں بدل جائے، جس سے خطے کے دوسرے ممالک بھی متاثر ہوں“

ایرانی وزیرِ خارجہ امیر عبدالہیان نے غزہ کی صورتِ حال پر کہا کہ جس قدر جلد ممکن ہو، تمام مسلم اور عرب ملکوں کی ایک امن کانفرنس منعقد ہونی چاہیے

ترکیہ کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایرانی ہم منصب ہمارے ساتھ متفق ہیں کہ ایسی واضح علامات موجود ہیں کہ اگر حالات تبدیل نہ ہوئے تو خطے کے دوسرے مسلح عناصر اس جنگ میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ اسی لیے جنگ بندی اور امن لازمی ہو گیا ہے

ادہر آسٹریلیا کے وزیر اعظم
انتھونی البنیز نے کہا ہے کہ شہریوں کے تحفظ کے لئے ہر کوشش کرنا ضروری ہے۔ ہر اسرائیلی کی طرح ہر فلسطینی کی زندگی بھی اہم ہے۔

اے بی سی نیوز کے مطابق آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں البنیز نے اسرائیل۔فلسطین جھڑپوں پر بات کی ہے

انہوں نے غزّہ میں بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں پر اندیشوں کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ شہریوں کے تحفظ کے لئے ہر طرح کی کوشش کی جانی چاہیے

البنیز نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی زندگی بھی اتنی ہی اہم ہے، جتنی اسرائیلیوں کی۔ جبالیہ مہاجر کیمپ پر اسرائیلی حملے نے سخت اندیشوں کی راہ ہموار کی ہے

انہوں نے غزّہ میں اپنے عزیزوں سے محروم ہونے والے آسٹریلیوی شہریوں سے ملاقات کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ ان شہریوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح اسرائیلیوں کی اموات، اسرائیلی قیدیوں اور ان کے کنبوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہے، اسی طرح فلسطینیوں کے حقوق کے لئے بھی آواز بلند کی جائے“

دوسری جانب انسانی حقوق کی سرگرم خیر سگالی کارکن اورہالی وڈ اداکارہ انجیلینا جولی نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کی فضائی بمباری کو پھنسی ہوئی آبادی پر جان بوجھ کر بمباری اور قتل قرار دے دیا

انجیلینا جولی نے سوشل میڈیا پر اسرائیلی جارحیت کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ”یہ ایک ایسی بے بس آبادی پر جان بوجھ کر بمباری ہے، جن کے پاس بھاگنے یا جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے“

انجیلینا جولی نے اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے لکھا کہ غزہ تقریباً 2 دہائیوں سے ایک کھلی فضا میں قید ہے اور تیزی سے اجتماعی قبر بنتا جا رہا ہے، یہاں مرنے والوں میں 40 فیصد معصوم بچے ہیں اور یہاں پورے خاندانوں کو قتل کیا جا رہا ہے

انہوں نے اپنے پیغام میں عالمی رہنماؤں پر بھی تنقید کی اور لکھا کہ دنیا دیکھ رہی ہے اور بہت سی حکومتوں کی حمایت سے لاکھوں فلسطینی شہریوں، بچوں، خواتین اور خاندانوں کو بین الاقوامی قانون کے خلاف خوراک، ادویات اور انسانی امداد سے محروم کرتے ہوئے اجتماعی طور پر سزا دی جارہی ہے اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی گزشتہ ماہ انجیلینا جولی نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔

ہالی وڈ اداکارہ کا کہنا تھا کہ غزہ کی کُل آبادی 20 لاکھ ہے، جن میں آدھے بچے ہیں جو دو دہائیوں سے محاصرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close