دنیا بھر میں موبائل فون صارفین کے لیے ایسے منصوبے پیش کیے جاتے ہیں، جن کے تحت صارفین قسطوں پر موبائل فون خرید سکتے ہیں، لیکن پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے، جس کی بہت سی وجوہات ہیں اور صارفین اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان میں بھی ٹیلیکام کمپنیاں موبائل فونز قسطوں پر دیں گی اور وہ بھی کریڈٹ کارڈ کی شرط کے بغیر؟ یہ کیسے ممکن ہے؟
اگرچہ آزادیِ اظہار تو حکومتوں کی ترجیح کبھی نہیں رہی، لیکن موبائل فون کا زیادہ استعمال کمرشل بنیادوں کے باعث ہر حکومت کے پیش نظر اہمیت کا حامل رہا ہے
حکومت دراصل یہ چاہتی ہے کہ اس ڈجیٹل دور میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے پاس جدید سمارٹ فونز ہوں، جس سے نہ صرف عوام بلکہ ٹیلی کام کمپنیز اور حکومت کو بھی اپنے امور چلانے میں مدد حاصل ہوگی
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ آپ کوئی سا بھی موبائل فون لے لیں تو وہ آپ کو سو ڈالر سے زیادہ ہی میں ملے گا اور یہ قیمت ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا
نگراں وزیر آئی ٹی عمر سیف کے مطابق حکومت اس سلسلے میں کوششیں کر رہی ہے کہ عوام کو آسان اقساط پر موبائل فونز دستیاب ہو سکیں
اس حوالے سے پالیسی ڈرافٹ بھی تیار کر لیا گیا ہے، جو پاکستان کی چار ٹیلی کام کمپنیز اور فِن ٹیک کمپنیز کو پیش کیا جائے گا
سیل فون فنانسنگ
فرض کریں آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ٹیلی کام کمپنیاں کسی بھی برانڈ سے فون خرید کر آپ کو مختلف پلانز کے مطابق آسان اقساط پر فون مہیا کر دیں گی۔ اس میں اب دو آپشنز یا پلان دیے جا سکتے ہیں، کنٹریکٹ یا بغیر کنٹریکٹ کے
کنٹریکٹ پلان میں ٹیلی کام کمپنی اور خریدار دونوں کے لیے فائدے زیادہ ہوتے ہیں، جیسے کہ فون کی قیمت کم ہوگی مگر شرط یہ ہوگی کہ آپ کا فون نیٹ ورک لاکڈ ہوگا، مطلب آپ صرف اس کمپنی کی سِم ہی استعمال کر سکیں گے جس نے آپ کو فون قسطوں پر دیا ہے
بغیر کانٹریکٹ کے پلان میں آپ فون میں کوئی بھی سِم استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے کمپنی نے بینک کی طرح آپ کو ادھار دیا ہو
ٹیلی کام کمپنیز صرف فون پر ہی اقساط کا پلان فراہم نہیں کرتیں بلکہ اس پلان میں کالز، میسجز، انٹرنیٹ ڈیٹا کے پلانز بھی شامل ہوتے ہیں۔ تاہم اس فنانسنگ کا فائدہ ٹیلی کام سیکٹر کو زیادہ ہوگا اور حکومت بھی زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل کر سکے گی
سیل فون فنانسنگ میں مسائل
سیل فون فنانسنگ کا استعمال دنیا بھر میں کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں اسے آج تک کیوں استعمال میں نہیں لایا جا سکا؟ بظاہر یہ فریم ورک جتنا آسان نظر آتا ہے اتنا ہے نہیں
پوری دنیا میں ٹیلی کام آپریٹرز بڑی تعداد میں سمارٹ فون خریدتے ہیں اور انہیں آسان اقساط میں صارفین کو فروخت کر دیتے ہیں۔ تاہم، پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں بینکوں کے تعاون اور صارفین کی وفاداری کی کمی کی وجہ سے ایسا کرنے سے کتراتی ہیں
سمارٹ فونز پر دیے جانے والے قرض پر اتنا تحفظ حاصل نہیں ہوتا اس لیے سمارٹ فون لونز زیادہ تر کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کو ہی دیے جاتے ہیں، اور پاکستان میں کریڈٹ کارڈ صارفین نہ ہونے کے برابر ہیں تو اتنے وسیع پیمانے پر عوام کے لیے کریڈٹ کی سہولت فراہم کرنا بینکوں کے لیے آسان نہ ہوگا
اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں فونز کو جیل بریک کرنے کا رجحان عام ہے، مطلب یہ کہ ٹیلی کام کمپنی آپ کو اپنے نیٹ ورک پر لاک شدہ فون فراہم کرے گی مگر اس کی کیا گارنٹی ہوگی کہ صارف اس فون کا لاک نہیں کھلوائے گا؟ کمپنی کی جانب سے فون کو دیا گیا آئی ایم ای آئی نمبر بھی بلاک کر دیا جائے تو پھر بھی فون مکمل طور پر غیر فعال نہیں ہوتا، اس پر وائی فائی کی مدد سے تقریباً تمام کام کیے جا سکتے ہیں۔ اس کی مثال پی ٹی اے ٹیکسز سے لی جاسکتی ہے، صارفین نان پی ٹی اے فونز بھی استعمال کرتے دیکھے جا سکتے ہیں
ان مسائل کا حل
متذکرہ بالا مسائل میں سے اکثر کو حل کرنا بظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے۔ آئی ٹی کی وزارت ممکنہ طور پر ملک کی نصف آبادی کو بینکنگ نظام کا حصہ نہیں بنا سکتی اور کریڈٹ سکور برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اس کے باوجود وزارت کی جانب سے کچھ حل پیش کیے گئے ہیں
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نگراں وزیر عمر سیف نے اس باب میں بات کرتے ہوئے کہا ”وزارت جاری کردہ فونز کے آئی ایم ای ایز اور بدتر صورتوں میں سی این آئی سی کو بلاک کرنے کے لیے کام کر رہی ہے“
دی پرافٹ میگزین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کسی بھی صارف کے شناختی کارڈ کو بلاک کرنا اتنا آسان نہیں ہے
سندھ ہائی کورٹ نے 2021 میں فیصلہ دیا تھا کہ خود نادرا بھی کسی کی شہریت منسوخ نہیں کر سکتا یعنی اس کا شناختی کارڈ بلاک نہیں کر سکتا
موجودہ صورتِ حال میں یہ حل زیر غور آسکتا ہے کہ نادہندہ صارف کے شناختی کارڈ پر رجسٹرڈ تمام سمز کو بلاک کردیا جائے
وزارت آئی ٹی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی مدد سے ان موبائل فون صارفین کے آئی ایم ای آئی نمبرز کو بلاک کرنے کے لیے ایک طریقۂ کار وضع کرنے پر کام کر رہی ہے جو ان صارفین کے لیے ہو گا جو وقت پر اپنی قسط ادا نہیں کریں گے
وزارت آئی ٹی کے مطابق چار میں سے دو ٹیلی کام کمپنیز نے ڈیفالٹرز کے شناختی کارڈ کے تحت جاری کردہ تمام سم کارڈز کو بلاک کرنے کے لیے سنٹرلائزڈ پوُل کی مخالفت کی ہے
بینکنگ سیکٹر بھی موبائل فون قرضوں سے منسلک اعلیٰ انتظامی اخراجات کی وجہ سے مائیکرو لوننگ میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ تاہم، مائیکرو فنانس بینکوں نے قسطوں کے منصوبوں میں فون پیش کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔