وہ موسمِ سرما کا ایک دن تھا۔ ایک آدمی شہر کے شمالی علاقے کی ایک سڑک پر جمی برف اور پگھلی ہوئی برف کے پانی میں قدم جماتا، گھروں کے نمبروں کو بغور پڑھتا آگے بڑھتا چلاجا رہا تھا۔
اس کی عمر تیس برس سے کچھ اوپر ہی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کا قد اونچا، بدن چھریرا اور چہرہ روشن تھا۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ ریچھ کی کھال سے بنے فَردار لمبے کوٹ کی جیبوں میں ڈال رکھے تھے۔ کوٹ کے بٹن آگے سے کھلے تھے اور اس کے نیچے پہنی ریشمی واسکٹ کی کڑھائی اور اس پر لٹکتی دو سونے کی زنجیریں واضح دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے لباس سے یہ بات صاف عیاں تھی کہ وہ ایک صاحبِ حیثیت شخص ہے اور آج یونہی اس علاقے کی سیر کو ادھر آ نکلا ہے۔
وہ ایک اونچی عمارت کے سامنے رکا، عمارت کا گیٹ نہایت خستہ حال تھا۔ اس نے تھوڑا سا گیٹ کھولا تاکہ اندر جھانک کر اس عمارت کے رہائشیوں کے نام پڑھ سکے، مگر پھر آگے بڑھنے کی بجائے سوچ میں ڈوبا وہیں کھڑا رہا۔
چند لمحوں بعد دریا کے کنارے پر واقع فیکٹری سے بلند ہوتی شور کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ’اوہو، ایک بج بھی چکا ہے۔‘ اس نے سوچا اور یک دم گیٹ سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہو گیا، تاکہ فیکٹری سے آنے والے لوگ یہ نہ سوچیں کہ وہ گیٹ پر کیوں کھڑا ہے۔ پھر یہ کہ کوئی اسے یہاں کھڑا دیکھے، اس میں اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا۔
پھر اچانک ہی وہ گیٹ کے اندر داخل ہو گیا، اور کسی فرد سے آمنا سامنا ہوئے بغیر سیڑھیاں چڑھنے کے لئے مڑا ہی تھا کہ ہاتھ میں ایک کپ پکڑے تیزی سے نیچے اترتی ایک بچّی سے ٹکرا گیا۔ وہ دس برس کی ایک دبلی پتلی، مگر صحت مند بچّی تھی۔ اس کی سرخ چیک دار فراک کہیں سے پھٹی یا مسکی ہوئی نہیں تھی، نہ ہی اس پر کوئی پیوند لگا تھا۔ اس کےگھنگریالے بالوں کی چُٹیا اس کی کمر پر لٹک رہی تھی۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر اس اونچے لمبے آدمی کو دیکھا اور اس کے سر ہلانے پر اس نے بھی جھک کر آداب پیش کر دیا۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ آدمی اس سے کچھ پوچھنا چاہ رہا ہے۔
پھر اس نے نیچے جھک کر بچّی سے پوچھا: ”کیا اس عمارت میں ہیلدے نام کی کوئی خاتون رہتی ہے؟“
بچّی کے چہرے پر رنگ بکھر گئے اور اس نے ایک بار پھر آداب کہنے کے انداز میں جھکتے ہوئے کہا: ”وہ تو میری امّی ہے! ہاں، یہ تو میری امی کا نام ہے۔“
آدمی سیدھا کھڑا ہو گیا: ”اچھا! تو یہ آپ کی امی کا نام ہے!“
”جی ہاں، ہمارا فلیٹ تیسری منزل پر ہے“ لڑکی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”دروازے پر ہمارا نام لکھا ہے۔ امی تھوڑی دیر تک گھر پہنچ جائیں گی۔ میں نکڑ والی دُکان سے کریم خریدنے جا رہی ہوں!“
جب وہ کریم خرید کر واپس لوٹی تو آدمی اسی جگہ پر کھڑا تھا۔ جب وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے لگی تو وہ بھی سیڑھیاں چڑھنے لگا، اور جب وہ راہداری عبور کر کے گھر کے دروازے کا تالا کھول کر اندر داخل ہوئی تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا گھر کر اندر داخل ہو گیا اور نشست گاہ میں اس کرسی پر بیٹھ گیا، جس کی طرف لڑکی نے اشارہ کیا تھا۔ وہ اپنی ٹوپی ہاتھ میں پکڑے بالکل خاموش بیٹھا تھا۔
سڑک پر اب گہما گہمی شروع ہو چکی تھی۔ باہر سے گزرتی لڑکیوں کی خوش گپیّاں اور ہلکے پھلکے قہقہے، نوجوان لڑکوں کی پر مسرت باتیں اور سیٹیوں کی آوازیں صاف سنی جا سکتی تھیں۔ عمارت کے گیٹ سے اندر آتے قدموں کی چاپ بھی واضح سنائی دینے لگی تھی۔ فیکٹری کے مزدور کام سے فارغ ہو کر اپنے ٹھکانوں کو پہنچ رہے تھے۔
آدمی، جو انتظار میں بیٹھا تھا، یک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سیڑھیاں چڑھتے قدموں میں سے دو مخصوص قدموں کی چاپ پر کان لگائے ہوئے تھا۔ وہ اپنا سینہ تانے، ٹانگیں پھیلائے سیدھا کھڑا تھا۔ وہ خود کو پُرسکون اور پُر وقار ظاہر کرنا چاہ رہا تھا، مگر افسوس، اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔
گھر میں داخل ہونے والی خاتون سیدھی باورچی خانہ میں چلی گئی۔ اس نے بچّی کو پیار سے پکارا ، اسے بوسہ دیا اور پھر باورچی خانہ اور نشست گاہ کا درمیانی دروازہ بند کر لیا۔ تھوڑی دیر وہ دونوں آپس میں سرگوشیاں کرتی رہیں۔
آدمی نے سامنے لگے آئینے پر ایک نظر ڈالی۔ اس کے چہرے کا رنگ پھیکا اور ہونٹ نیلے پڑ چکے ہیں۔ وہ بھی کس قدر احمق ہے! وہ جو اتنا اہم کام سر انجام دینے آیا ہے، کیا اسے یوں خوف زدہ ہونا چاہیے؟ اس نے اپنے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کی۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ کمرے میں پڑی میز پر ٹِکا لیا۔ اسے شاید یوں کھڑے ہو کر انتظار کرنا چاہیے، مگر نہیں۔۔۔ اس کے ہاتھ کی تھرتھراہٹ سے تو میز بھی ہلنے لگی تھی۔ شاید یہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنے ہاتھ جیبوں میں ڈال لے۔
باورچی خانہ میں سرگوشیوں کا سلسلہ ختم ہوا، دروازہ کھلا اور ایک نوجوان خاتون نشست گاہ میں داخل ہوئی۔ وہ ایک خوش شکل خاتون تھی۔ اس کا چہرہ دلکش، جلد چمک دار اور تروتازہ تھی۔موٹی موٹی نیلی آنکھیں اور بال اپنی بیٹی کی طرح سنہری، گھنے اور گھنگریالے تھے۔ اس نے اپنے لباس کے اوپر ایپرن باندھ رکھا تھا، مگر یہ کپڑے بھی اس کے بدن کی نزاکت اور جوانی کو ڈھانپنے میں ناکام نظر آ رہے تھے۔
اس نے دروازے کے پاس رک کر اجنبی کو سلام کیا۔ وہ لڑکھڑائی، مگر اس نے جلدی سے دروازے کی چوکھٹ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ وہ تھوڑی دیر وہیں کھڑی سسکیاں بھرتی رہی، پھر خود پر قابو پا کر اپنی بیٹی کی طرف پلٹی، جو اس کے پاس کھڑی رو رہی تھی۔ اس نے بچّی کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا: ”میری جان، جاؤ تم باہر کھیلو، جاؤ میری لاڈلی! مجھے بس ہلکا سا چکر آ گیا تھا، میں آج کام پر بہت مصروف رہی تھی۔ تم اب جاؤ۔۔“ اس نے نہایت نرمی سے لڑکی کو باہر دھکیلا اور دروازہ بند کر لیا۔
وہ دونوں اب کمرے میں اکیلے تھے۔ اجنبی ایک قدم آگے بڑھا اور اپنا ایک ہاتھ خاتون کی طرف پھیلا دیا، مگر وہ اس کے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے، اپنے بازو اپنی دونوں اطراف میں لٹکائے چپ چاپ کھڑی رہی۔
اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا، وہ اس کے بالکل قریب آنا چاہ رہا تھا، وہ اسے چھونا، اسے گلے لگانا چاہ رہا تھا، مگر دو چُبھتی نگاہیں اسے آگے بڑھنے سے روک رہی تھیں۔
”ارے ہیلدے!“ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا، ”ہیلدے! کیا تم نے مجھے نہیں پہچانا؟“ پھر اس نے دیکھا کہ خاتون کا چہرہ لال بھبوکا ہو گیا اور اس کی آنکھوں میں ایک ایسا غضب ناک غصہ تھا، جو اُس نے اس سے قبل کبھی ان آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا۔
”کیا میں آپ کو نہیں پہچانتی؟ میرے پیارے نیلسن! میں آپ کو بہت اچھی طرح پہچانتی ہوں!“ وہ طنز سے مسکرائی اور خاموشی سے کھڑکی کی جانب بڑھ گئی۔ چند لمحات کے لئے باہر جھانکتے رہنے کے بعدجب وہ واپس مڑی تو قدرے پرسکون دکھائی دے رہی تھی۔اب اس کی آنکھیں شعلے نہیں اُگل رہی تھیں اور بات کرتے ہوئے اس کے لہجے میں ایک دوستانہ ملائمت پیدا ہو گئی تھی۔
”نیلسن! آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ میں آپ کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔مہربانی فرما کر تشریف رکھیے، میں اپنی سوچوں میں اتنی گم تھی کہ آپ کو کرسی بھی پیش نہیں کر سکی۔“
آدمی نے ایک گہری سانس کھینچی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اسے خاتون کے پہلے تلخ الفاظ کی بجائے ان نرم الفاظ نے زیادہ اذیت پہنچائی ہے۔ وہ صرف اتنا ہی کہہ پایا:
”ہیلدے! ہیلدے، میری بات تو سنو!“
مگر خاتون نے اس کی بات پر کوئی دھیان دئیے بغیر کہا: ”نیلسن! اب اس بات کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے، جب آپ یہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔“ پھر وہ مسکرائی۔ ”سات – آٹھ سال تو ہو ہی گئے ہوں گے!“ اس نے کچھ سوچتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی: ”نہیں، میں تو مذاق کر رہی تھی۔ دس برس بیت گئے ہیں! اگر میں غلطی پر نہیں ہوں، تو آپ اُسی سال یہاں سےچلے گئے تھے، جس سال میری بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ اوہ، ماہ و سال کتنی تیزی سے بیت جاتے ہیں!“
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔اب وہ اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔ چند لمحے بعد اس کی نرم لہجے میں کہی باتوں کے زیرِ اثر وہ صرف اتنا کہہ پایا: ”ہاں، آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔۔“
مگر ہیلدے کا خیال تھا کہ وہ اب بھی خود کو برتر سمجھتا ہے۔ وہ خاموشی سے دروازے کی طرف بڑھی اور باہر جھانکتے ہوئے بولی: ”اوہ ،میری مارگِت! تم یہاں راہداری میں کھڑی ہو! اندر آ جاؤ، میری جان!“ وہ بچّی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اجنبی کے پاس لے آئی: ”مارگت! اس آدمی کو دکھاؤ کہ صرف امریکی لڑکیاں ہی باادب اور باتمیز نہیں ہوتی ہیں۔ انہیں ادب سے سلام کرو! ہاں ایسے! – ہاں، نیلسن! یہ میری بیٹی ہے۔ آپ نے تو اسے پہلے نہیں دیکھا ناں؟ اوہ، نہیں۔۔ مارگت تو آپ کے جانے کے بعد پیدا ہوئی تھی!“
آدمی نے کوئی جواب نہیں دیا، مگرجب بچّی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا گیا، تو اس نے بچّی کو بھینچ کر گلے سے لگایا اور پیار سے اس کے سنہری، گھنگریالے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔ مگر بچّی کی ماں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ”مارگت، اپنی ماں سے بہت پیار کرتی ہے۔ اس کے والد کے انتقال کے بعد سے مارگت ہی میری زندگی کی واحد خوشی ہے!“
وہ ایک دم سے چونک کر بولا: ”انتقال؟ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔ کیا اس کے باپ کا انتقال ہو چکا ہے؟“
ہیلدے نے اثبات میں سر ہلایا: ”وہ اسی بہار میں فوت ہو گیا تھا، جب آپ امریکہ روانہ ہو گئے تھے۔۔“ اور پھر وہ اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئی، ”مارگت! اب تم انہیں خدا حافط کہو اور درخواست کرو کہ جب وہ واپس پہنچیں تو اپنی بیٹیوں کو ہمارے سلام کہیں۔ تم اب باورچی خانہ میں جاؤ اور میرے لئے کپ میں کافی انڈیلو! میں بھی تمہارے پیچھے پیچھے آ رہی ہوں۔“
جب وہ دوبارہ کمرے میں اکیلے رہ گئے تو اس نے کوشش کی کہ اپنی خوش مزاجی کو برقرار رکھ سکے۔ اس نے نیلسن کے مدِمقابل میز کے دوسرے کونے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا: ”آپ اب مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟مجھے ابھی شام کا کھانا بھی تیار کرنا ہے، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔“
اس نے تیزی سے نظریں اس طرف گھمائیں، جہاں وہ کرسی پر سکڑا بیٹھا تھا۔ اس نے پہلے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ وہ کس قدر نڈھال اور بوڑھا لگ رہا تھا۔اس نے اپنی مسکراہٹ کو دبا لیا۔ آدمی نے اپنی نگاہیں ہیلدے کے چہرے پر جماتے ہوئے کہا: ”کیا تم میری بات سن سکتی ہو، ہیلدے؟ میں مختصر بات کروں گا۔“ ہیلدے نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے کہنا شروع کیا: ”جب میں تمہیں اور اس بچّی کو، جو تمہارے پیٹ میں تھی، چھوڑ کر چلا گیا تھا، تو یقین جانو، اپنی اس حرکت کی وجہ سے میں ایک شدید اذیت میں مبتلا رہا۔۔ جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تو میری سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ میں جلد از جلد اس کا ازالہ کروں۔ امریکہ میں، مَیں نے دن رات محنت کی۔ میں دوسروں سے تو تمہارے بارے میں پوچھتا رہتا تھا، مگر تمہیں خط اس لئے نہیں لکھتا تھا کہ وقت آنے پر میں تمہارے روبرو بیٹھ کر، تمہیں اپنے دل کی بات بتانا چاہتا تھا۔ اور ہیلدے! اب میں خود یہاں آیا ہوں۔ اب تمہیں میرے دل کی بات سننا ہوگی۔“ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا، میز پر ہاتھ رکھے اس کی جانب جھکا اور اس کے چہرے پر ٹِکٹکی باندھے ہوئے بولا، ”اب میں وہ کرنے کے لئے واپس آ گیا ہوں، جو مجھے دس برس قبل کرنا چاہیے تھا، ہیلدے! میں تمہارا شوہر اور بچّی کا باپ بن کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے واپس آ گیا ہوں!“
تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ وہ اس امید پر کہ وہ ابھی اس کے سینے سے لگ جائے گی، اس کی طرف اپنی بانہیں پھیلائے سیدھا کھڑا رہا۔۔ مگر ہیلدے پہلے کی طرح بے حس و حرکت بیٹھی رہی، اس کی آنکھوں میں خوشی کی ایک کرن تک نہ پھوٹی۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلنے لگی۔۔ مگر یہ وہ مسکراہٹ نہیں تھی، جس کا وہ منتظر تھا۔۔ یہ تو تھوڑی دیر پہلے والی وہی تلخ اور طنز بھری مسکراہٹ تھی۔۔ اس نے اس پر نگاہیں جمائے سرد مہری سے کہا: ”مگر ذرا سوچیں نیلسن، اب بھی اگر آپ کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہوئی تو؟ شاید اب بھی آپ اپنی ’ذمہ داریاں‘ پوری کرنے کے قابل نہ ہو سکیں!“
”راہ میں رکاوٹ؟ تمہارا مطلب یہ تو نہیں–؟ اوہ نہیں، ہیلدے! میں جانتا ہوں کہ تم نے شادی نہیں کی! تم صرف مجھے ڈرا رہی ہو، میری محبوب!“
”کوئی اور وجہ بھی تو ہو سکتی ہےناں؟ ذرا سوچیں، اگر میں اور میری بیٹی آپ کی یہ پیش کش قبول کرنا ہی نہ چاہیں؟“
وہ فوراً تو کچھ سمجھ نہیں پایا، مگر جب بات کا مطلب اس پر واضح ہوا تو وہ قدرے اعتماد کے ساتھ سیدھا کھڑا ہوگیا۔۔ اور تیزی سے میز کے گرد گھوم کر اس کے قریب آگیا، اپنا بازو اس کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے قریب کھینچ لیا: ”میری پیاری ہیلدے، اب میرے پاس بہت پیسے ہیں!میں نے اپنے، تمہارے اور ہماری بیٹی کے لئے بہت سی رقم جمع کر لی ہے!“ اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
مگر ہیلدے نے نہایت تیزی سے خود کو اس سے الگ کر لیا۔ اب اس کے چہرے پر مسکراہٹ کا نام ونشان تک نہیں تھا: ”آپ اب جا سکتے ہیں! ایک دفعہ میں نے آپ پر بھروسہ کرکے اپنا آپ، اپنا سبب کچھ آپ کے حوالے کر دیا تھا! آپ کو جو لینا تھا، لیا اور یہاں سے بھاگ گئے! اب آپ واپس آئے ہیں اور مجھے اور میری بیٹی کو خریدنا چاہتے ہیں! مگر ہم بکاؤ مال نہیں ہیں! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ امریکہ کے سارے ڈالروں کے عوض بھی ہمیں نہیں خرید سکتے! اور اب آپ یہاں سے چلے جائیں!“
وہ اسے دیکھتا رہا۔ دیر تک دیکھتا رہا۔۔ پھر اس نے اپنی ٹوپی اٹھائی اور چل دیا۔ وہ دروازے کے پاس پہنچ کر رکا اور بولا: ”تو گویا میری ساری محنت اکارت ہی گئی، ہیلدے؟“
”جی ہاں، اگر آپ نے ہمارا مول جمع کرنے کے لئے محنت کی تھی، تو پھر آپ کی محنت رائیگاں ہی گئی ہے!“
”لیکن ہیلدے – اگر میں مفلوک و مفلس ہی تمہارے پاس لوٹ آتا، تو کیا پھر بھی تم مجھ سے کوئی سروکار نہ رکھتیں؟“
وہ اب قدرے پُر سکون ہو چکی تھی۔ اس کے پُرکشش چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی تھی: ”یہ میں کیسے جان سکتی ہوں؟“ اس نے جواب دیا، ”شاید پھر میرا جواب کچھ اور ہوتا! مگر اب آپ چلے جائیں، سیگرد! آپ ہمارے شام کے کھانے کو غارت نہ کریں!“
اس کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا، کندھے جھک گئے تھے، اس نے ایک نظر ہیلدے کو دیکھا اور کہا: ”الوداع! مجھے معاف کر دینا!“
اس واقعہ کے لگ بھگ دو ہفتے بعد، ایک شام شہر کے وسطی چوک کے قریب،بایک گیٹ کے باہر گولی چلنے کی آواز سنی گئی۔ جب لوگ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی مرا پڑا تھا، جس کے ہاتھ میں ایک پستول تھا اور کنپٹی میں گولی لگی تھی۔
پولیس نے میّت کو اپنے قبضے میں لے لیا، وہ آدمی کا نام پتہ تو نہیں جانتے تھے، مگر اس سے اچھی طرح واقف تھے۔پچھلے دو ہفتوں سے وہ اسے مختلف قہوہ خانوں کی خاک چھانتے دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس کے پاس پیسوں کی فراوانی تھی، جنہیں وہ جلد از جلد خرچ کرنا چاہتا تھا۔۔ اور اب وہ اس میں کامیاب ہو چکا تھا۔ کیوں کہ اس کی جیب سے برآمد ہونے والا بٹوا بالکل خالی تھا۔