خزاں کے آنسو

یشیکو اوچیدا (ترجمہ: منور آکاش)

ہانا اومیا چھوٹے سے بحری جہاز کے جنگلے کے پاس خوفزدہ کھڑی تھی۔ جہاز لڑکھڑاتا ہوا امریکہ کی طرف روانہ تھا۔ نومبر کے مہینے میں سمندر بھی خاصا سرد اور خوفزدہ ہوتا ہے۔ وہ سردی سے کانپ رہی تھی۔ اس نے اپنی خاص جاپانی طرز کی بنی ہوئی ریشم کی جیکٹ کو اوپر کر کے گلے کو ڈھانپ لیا اور کندھوں کے گرد اونی چادر کو سختی سے لپیٹ لیا۔
وہ دبلی پتلی تھی، اس کی سیاہ آنکھیں زرد چہرے پر سایہ کیے ہوئی تھیں۔ اس کے بال ماتھے سے اوپر کو اُٹھے ہوئے تھے، جو اس جیسی جسامت کی عورت پر کچھ بھاری محسوس ہو رہے تھے۔ اس نے نم جنگلے کو سختی سے پکڑا ہوا تھا۔ وہ نمکین سمندری ہوا میں گہرے سانس لے رہی تھی۔ اس کا جسم جامد اور بے جان لگ رہا تھا، جیسے کوئی چیز اس کی روح کو کسی چلتے ڈبے میں بند کر کے کسی اجنبی دنیا کی طرف لے جا رہی ہو۔ وہ بہت دور آ چکی تھی مگر اس کے دل میں بچوں کی سی خواہش پیدا ہو رہی تھی۔ وہ دوبارہ اپنے گھر اپنے گاؤں واپس جانا چاہتی تھی۔

وہ گھروں کی چھتوں سے جڑے چھوٹے چھوٹے درختوں کو دیکھنا چاہتی تھی، جن پر لگے ہوئے پھل کس طرح دھوپ سے چمکتے تھے۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی پہاڑوں پر پھیلے ہوئے سنہری دھان کے کھیتوں کو، جہاں پچھلی خزاں میں اس نے آلو بخارے اور سفید کھمبیاں اکٹھی کی تھیں۔ کاش وہ آلو بخارے کے درختوں کو دیکھ سکے جو پائن کے درختوں کے درمیان سے اپنے چمکتے ہوئے رنگ کی وجہ سے روشن نظر آتے ہیں۔ وہ کوئی شناسا چہرا دیکھنا چاہتی تھی۔ قے کیے بغیر کھانا کھانا چاہتی تھی۔ سخت زمین پر چلنا چاہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی رات کو اس سخت تکونے بنکر کی بجائے اپنی خاص چٹائی پر سو سکے۔ اب وہ سردی سے بچنے کے لیے اپنے بنکر میں آگئی تھی، مگر اس سے نچلے ڈیسک سے آتی ہوئی مچھلیوں کی بدبو ناقابلِ برداشت تھی۔

’آخر میں نے جاپان کیوں چھوڑا؟‘ اس نے پریشانی کے عالم میں سوچا، ’میں نے اپنے چچا کی بات کیوں نہیں سنی؟‘ پھر اس نے سوچا کہ وہ خود تھی، جس نے یہ سب کیا اور واقعات کی لڑی اس بحری جہاز تک آ پہنچی۔ یہ وہ خود تھی، جس نے اپنے چچا کے دماغ میں یہ بات ڈالی کہ وہ تاروتاکیدا کی اچھی بیوی ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ اکیلا ہے اور اپنی قسمت سنوارنے اوک لینڈ، کیلی فورنیا گیا ہوا ہے۔

یہ سب اس دن سے شروع ہوا، جب ایک دن اس کے چچا اس کی امی سے ملنے ان کے گھر آئے اور کہا، ”مجھے ایک اچھی نوجوان دلہن کی تلاش ہے؟“ انہوں نے یہ بات ہانا کی موجودگی میں بے تکلفی سے کہی، جس پر وہ ناراض ہوکر چلی گئی۔ اُس کے چچا نے جلدی سے کہا: ”میرے ایک اچھے دوست تاکیدا کا بیٹا امریکہ میں ہے۔ مجھے ایسی دلہن کی تلاش کرنی ہے جو وہاں تک کے سفر کے لیے راضی ہو۔“

ان آخری تاثرات نے ہانا اور اس کی امی کو اس بات پر متفق کر دیا کہ یہ رشتہ ہانا کے لیے موزوں نہیں ہے۔ وہ ایک شاندار روایت والے خاندان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ اس کا باپ، جس کی پندرہ سال پہلے وفات ہوگئی تھی، جاپانی فوج سے ریٹائرڈ تھے۔ گاؤں میں ان کی کافی زمینیں اور بہت سے ملازم تھے، مگر اب سب بدل چکا تھا۔ ان کے پاس موجود رقم ختم ہو چکی تھی۔ ہانا کی تین بڑی بہنوں کی شادیاں اچھے گھروں میں ہو چکی تھیں۔ اب گھر میں وہ بچی تھی، جسے اچھی قسمت والے شوہر کا انتظار تھا۔ اس کی دوسری بہنوں کی شادیاں اوسا کا اورنا گویا میں تاجروں سے ہوئی تھیں اور ان کی زندگیاں آسائش میں بسر ہو رہی تھیں۔

ہانا اب اکیس سال کی تھی اور اپنے لیے موزوں شوہر کی تلاش میں تھی۔ جو جلدی سے اُسے شرمندگی کی فضا سے دور لے جائے اور اس سب معاملے میں عام طور پر ہانا اور اس کی امی جب رات کو ساتھ ساتھ لیٹی ہوتیں تو زیادہ بات چیت نہیں کرتی تھیں، مگر رات کی تاریکی میں اس کی ماں ایک کے بعد ایک نام لیتی، اس اُمید پہ کہ ان میں سے کسی نام میں ہانا دلچسپی لے اور آمادگی کا کوئی اشارہ دے۔

اس کے چچا نے تاروتاکیدا کے بارے میں بے جھجھک بات کی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ہانا اس میں دلچسپی نہیں لے گی۔ وہ تقریباً دس سال سے امریکہ میں تھا۔ وہ ایک محنتی آدمی تھا۔ اس کی عمر اکتیس سال تھی۔ اس کی چھوٹی سی دکان تھی اور دکان کے اوپر کمروں میں اس نے کرائے پر رہائش رکھی ہوئی تھی۔ اس کے چچا نے اپنے گلے میں موجود چَین کو مسلتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی بیوی کی اچھی دیکھ بھال کرسکتا ہے۔

”آہ۔۔۔۔۔!“ ہانا کی امی نے کہا۔

”آپ کے خیال میں وہ اپنے کاروبار میں کامیاب ہے؟“ ہانا کی بہن نے پوچھا۔

”اس کے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی دکان میں جرابیں، سوئیاں، بٹن اور بہت سی چیزیں بیچتا ہے۔ جیسے چھوٹے کیک، اچار جام وغیرہ۔ اس کی بیوی کبھی بھی بھوکی پیاسی نہیں رہے گی۔“

سب نے اثبات میں سرہلائے جیسے یہ تاجر کامیابی کا سفر منزل بہ منزل بخوبی طے کر رہا ہے۔

ان دنوں امریکہ میں کافی جاپانی ہیں۔۔ اور ہانا نے اس صورتحال کے بارے میں سوچا، جس میں دلہن کو کسی اجنبی آدمی کی صرف تصویر دکھائی جاتی ہے اور پھر شادی کردی جاتی ہے۔

”بے چارہ تارو اکیلا ہے۔“ اس کے چچا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”مجھے اس کے لیے ایک خوبصورت نوجوان دلہن کی تلاش کرنی ہے، جو اتنی بہادر ہو کہ اکیلی سمندر میں سفر کرسکے۔“

”یہ ایک مختلف طرح کی زندگی ہوگی“ ہانا کی بہن نے ایک لمحے کے لیے انجانے خوف کو بھانپتے ہوئے کہا۔

ہانا نے سوچا کہ اپنے معصوم اور خاموش چہرے کے پیچھے اس کی بہن نے کس قدر عامیانہ خوف پال رکھے ہیں۔ ہانا جانتی تھی کہ اسے اپنی بہنوں سے زیادہ کامیاب زندگی گزارنی ہے۔ وہ اس گاؤں کی زندگی سے فرار چاہتی تھی۔ وہ کسی مقامی آدمی سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اس کی ساری زندگی کھیتوں میں کام کرتے ہوئے، دھان لگاتے ہوئے، کٹائی کرتے ہوئے اس طرح گزرے کہ اس کی کمر دوہری ہوجائے۔ دھوپ اور ہوا سے اس کی جلد بھورے چمڑے جیسی ہو جائے۔۔ اور نہ ہی وہ کسی بڑے شہری تاجر سے شادی کرنا چاہتی تھی، جیسا کہ اس کی دو بہنوں نے کیا۔ اس کی ماں نے اسے ٹوکیو جا کر ملازمت تلاش کرنے سے منع کیا تھا۔ وہ پڑھنا چاہتی تھی۔ اسے امریکہ جانا چاہیے۔ یہ ایک مناسب اور عزت دار شادی ہوگی۔

آخرکار جب اس نے طے کر لیا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے، اس نے اپنے چچا سے بات کی: ”میں امریکہ جانا چاہتی ہوں۔ میں اس اکیلے آدمی کی اچھی بیوی ثابت ہوں گی۔“

”ہانا تم کیا واقعی۔۔۔۔“ اس کے چچا نے اشتیاق سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا، ”کیا تم اتنی دور اجنبی دنیا میں اپنے گھر اور ماں سے دور چلی جاؤ گی؟“

”میں اس کی اجازت ہرگز نہیں دوں گی۔“ اس کی ماں نے سختی سے کہا۔

ہانا اس کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ آخری بچہ ہونے کی وجہ سے اس کی پرورش ناز و نعم سے ہوئی تھی۔ وہ اسے اتنی دور جانے کی اجازت کیسے دے سکتی تھی اور وہ بھی تاکیدو کے بیٹے سے شادی کرنے کے لیے۔۔

کچھ لمحے پہلے جو بات بالکل مشکل نظر آرہی تھی، ہانا کے چچا نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خوشگوار انداز میں بیان کرنا شروع کردیا۔ اس نے ہانا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ”دیکھو امریکہ میں تمہاری زندگی اچھی ہو سکتی ہے.“

ہانا نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سوچا امریکہ میں وہ تنہا آدمی اسے اپنے خاندان کے رواجوں اور گاؤں، دونوں سے فرار ہونے کا موقع دے سکتا ہے۔ اس کے چچا اسی جوش اور جذبے سے بولتے رہے کہ وہ ہانا کو تارو کی بیوی بننے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہانا کی بہن کے شوہر، جو ان کے گھر کے سربراہ تھے، انہوں نے بھی رضامندی ظاہر کر دی۔ اگرچہ انہوں نے زبان سے کچھ نہیں کہا۔

ہانا نے اندازہ لگا لیا کہ وہ خوش ہیں کہ اس کی جان چھوٹ جائے گی۔ ہانا عورت کے کردار اور زندگی کے بارے میں اپنے پرجوش خیالات کو زندگی کے دائرے میں اپنی جگہ کے حوالے سے جوڑ رہی تھی۔

اس کے بہنوئی اکثر کہتے کہ چھوٹے ہونے کے ناطے ہانا نے بہت پڑھ لیا ہے۔ اس نے کیوٹو کے ہائی اسکول سے گریجویشن کیا اور اپنی بڑی بہنوں کی نسبت پانچ سال زیادہ اسکول گئی۔

”اتنی کتابیں پڑھنے سے اس کا دماغ الجھ گیا ہے۔“ اس نے کہا۔ جب وہ ہانا سے بحث کر رہا تھا۔ اس آدمی کی رائے ہانا کی ماں کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی۔ دو آدمیوں کی رائے کو لے کر ہانا کی ماں نے اپنی دوسری بیٹیوں اور ان کے شوہروں سے بھی مشورہ کیا۔ اس نے محتاط انداز میں اپنے بھائی اور گاؤں کے پادری سے بھی مشورہ کیا۔ بالآخر وہ اپنے خاندان کی تاریخ بدلنے کے لیے تیار ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی تارو تکیدا کے خاندان کی تاریخ بدلنے کے لیے تیار ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی تارو تکیدا کے خاندان، اس کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے چانچ پڑتال شروع کر دی گئی۔ ان کے خاندان کے ماضی قریب کے پولیس ریکارڈ کو دیکھا گیا اور تسلی کی گئی۔ ہانا کے چچا اور ہانا کی ماں اور تارو کے والد دونوں سے مل رہے تھے اور اپنی تمام تر توانائیاں اس مسئلے پر صرف کر رہے تھے۔

جب شادی کے تمام معاملات طے پاگئے تو تارو نے ہانا کو پہلا خط لکھا۔ یہ ایک مختصر مگر باقاعدہ خط تھا۔ اس سے اس کے کردار کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلتا تھا مگر اتنا ہی پتا چلا کہ اس نے مڈل اسکول تک اپنی تعلیم حاصل کی ہے۔ ہانا کے چچا نے ہانا کو اس کی ایک تصویر اور ان کے والدین کی طرف سے معذرت کا پیغام بھی پہنچایا کہ ان کے پاس صرف یہ ایک ہی تصویر ہے اور اس کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ہانا نے تصویر اور خط کمونو (جاپانی طرز کا چغہ) کی آستینوں میں چھپا لیے تاکہ انہیں گھر سے باہر جاکر تنہائی میں پڑھ سکے۔

اس نے مدہم روشنی اور ناگوار بُو کا بھی خیال نہ کرتے ہوئے تارو کے خط کو پڑھا۔ دوبارہ پڑھا، اس تحریر کے پیچھے چھپے ہوئے اصل آدمی کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔

کچھ دنوں بعد اس نے کچھ رقم اور بحری جہاز کا ٹکٹ بھجوا دیا۔ اس دوران اس نے دس خطوط اور بھی لکھے مگر وہ روایتی سے خطوط تھے۔ ان میں پہلے خط جیسا آدمی نہیں تھا۔ خطوں میں اس نے اپنی مصروفیات اور تنہائی کا ذکر نہ کیا مگر ہانا سمجھ سکتی تھی۔ درحقیقت وہ اس آدمی سے جان چھڑانا چاہتی تھی، جو اس کے نامختتم خیالات کو اتنے کم وقت میں برداشت کر رہا تھا، مگر پھر اس نے سوچا کہ ہم نے ساری زندگی ساتھ رہنا ہے، ایک دوسرے کو جاننے کا کافی وقت ملے گا۔

آخرکار ہانا اپنے خاندان کو چھوڑ کر اپنے دل میں ایک موہوم سی خواہش لے کر امریکہ کے سفر پر اکیلی روانہ ہو گئی کہ کل تک جہاز سان فرانسسکو کے ساحل پر لنگر انداز ہوجائے گا اور وہ اس آدمی سے روبرو ملے گی، جس سے اس کی شادی ہونے والی ہے۔ ہانا نے امریکہ پہنچنے کی خوشی اور اس کے ملنے کے خوف پر قابو پایا۔ اس نے تمام دنوں میں یہ سوچا کہ وہ تارو کو پہلی بار کیا کہے گی۔۔

ہانا جہاز کے عرشے پر ادھر ادھر پھرتی رہی۔ شاید اس نے سوچا کہ جہاز بہت عمدہ، کمرہ آرام دہ، خوشگوار اور شاید یہاں کوئی ملازم بھی ہوگا۔ اگرچہ تارو نے خط میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ خوفزدہ تھی کہ وہ ہچکولے اس کی توقع سے زیادہ تھے، وہ گھبراہٹ اور غصے کا شکار ہو گئی۔ ہوا کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے وہ جہاز کے جنگلے کو پکڑے ہوئے تھی اور قدرے بیمار لگی رہی تھی۔

ہانا صبح پانچ بجے کے قریب بیدار ہوئی، اس نے گلابی رنگ کا عمدہ کمونو اور کوٹ پہنا، اس نے ناشتے کے طور پر ملنے والے سوپ اور چاولوں کو ہاتھ نہیں لگایا مگر اچار کو تھوڑا سا چکھا۔ اس کا بیگ، جس میں اس کے کپڑے اور پسندیدہ کتابیں تھیں، ویسے ہی رکھا تھا جیسے اس کے چچا اس کے بنک میں رکھ گئے تھے، جب وہ اسے چھوڑنے آئے تھے۔ بنک کے ساتھ بانس کی ایک بڑی سی پیلے رنگ کی باسکٹ بھی ویسے ہی موجود تھی۔ اس بنک کے ساتھ بانس کی ایک بڑی سی پیلے رنگ کی باسکٹ بھی ویسے ہی موجود تھی۔ اس نے بنک میں موجود دوسری خواتین سے دوستانہ تعلقات بڑھانے کی کوشش نہیں کی اور وہ سب بھی سارا وقت اپنے کمروں میں رہتیں۔ یہ ساری فضا بیمار فضا تھی۔ ہر صبح ہانا اپنے سونے والے بنک میں بیٹھ جاتی اور اکیلی اداس گانے سنتی رہتی جو چند روسی فوک گا رہے تھے، جو نہ جانے کہاں کے لیے سفر پر روانہ تھے۔

جیسے ہی جہاز خشکی پر پہنچا، ہانا نے جہاز کے عرشے سے پھیلے ہوئے سمندر اور آسمان کو دیکھا۔ اپنی نئی سرزمین کو ایک جھلک دیکھا۔

”ہم دوپہر تک لنگر انداز نہیں ہوسکیں گے۔“ کسی نے اسے بتایا۔

ہانا نے اپنا سر ہلایا، ”میں بھی انتظار نہیں کر سکتی۔“

انتظار کے آخری لمحات اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔ آخرکار ہانا نے امریکہ کی سرزمین پر پاؤں رکھ دیا۔۔ مگر یہ سان فرنسسکو نہیں تھا، جیسا کہ اسے توقع تھی۔ یہ کوئی اور جزیرہ تھا، جہاں تیسرے درجے کے تمام مسافروں کو اتارا جا رہا تھا۔ اس نے یہاں دو دن اور راتیں سخت تکلیف میں گزاریں۔ انتظامیہ نے آنے والے مسافروں سے سوالات کیے اور جانچ پڑتال کی کہ کسی کو کوئی مہلک بیماری نہ ہو، جیسے ٹی بی وغیرہ۔ تجریے کے لیے تمام عورتوں کا پاخانہ ایک عورت ٹین کی پلیٹ میں اکٹھا کرتی۔ ہانا شدید خوف اور پریشانی کا شکار ہونے کی وجہ سے بیمار تھی۔ وہ کسی عورت سے بھی نہیں کہہ سکتی تھی، اسے لگتا تھا کہ وہ کبھی یہاں سے شاید ہی جا پائے۔

آخر تیسرے دن ایک جاپانی آدمی تارو کا خط لے کر سان فرانسسکو سے آیا۔ یہ خط اس نے اس کی آمد والے دن لکھا تھا، مگر ہانا کو دو دن تاخیر سے ملا تھا۔ اس نے ہانا کو امریکہ میں خوش آمدید کہا تھا اور بتایا تھا کہ یہ پیغام رساں تمہیں یہاں سے نکلنے اور مجھ تک آنے میں مدد اور رہنمائی کرے گا۔ خط پڑھ کر کچھ دیر کے لیے اس کا خوف کم ہوا، مگر جب تک وہ وہاں سے نکلی اور سان فرانسسکو کے لیے لانچ میں سوار ہوئی۔ نئے خوف اور خدشات نے اس کو ادھ موا کر دیا۔

ساحل پر اترتے ہی بارش شروع ہو گئی۔ ہر طرف سیاہ چھتریاں ہی چھتریاں نظر آنے لگیں۔ ایسے میں یہ اور بھی مشکل ہو گیا کہ وہ اس شخص کو پہچان سکے، جس کا فوٹو بہت دیر سے اس نے مضبوطی سے ہاتھ میں تھاما ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا وہ نہیں آئے گا۔۔ اگر وہ نہ آیا تو وہ کہاں جائے گی؟ ہانا نے گہرا سانس لیا، اپنے سر کو اوپر اٹھایا اور لانچ کے ساتھ چلنے لگی۔ جس لمحے وہ ساحلی پٹی کے قریب تھی کہ ایک آدمی جلدی سے اس کی طرف بڑھا۔ اس نے کوٹ پہنا ہوا تھا اور چھتری اٹھائی ہوئی تھی۔ وہ درمیانے قد کا تھا اور اس کا چہرہ قدرے زرد تھا۔

اس نے جھک کر سلام کیا اور آہستہ سے کہا، ”مِس اومیا! آپ نے طویل سفر کیا ہے۔ امید ہے کہ سب ٹھیک رہا ہوگا۔“

ہانا کی سانس ایک دم رک گئی۔ ”کیا تم تاکیدا کے بیٹے ہو؟“ ہانا نے پوچھا۔ اس نے اپنا ہٹ اتارا۔ ہانا نے مزید دیکھا کہ وہ گنجا ہے۔ ”کیا تم تاکیدا کے بیٹے ہو؟“ ہانا نے دوبارہ پوچھا۔ وہ اکتیس سال سے کافی بڑا لگ رہا تھا۔

”میری شکل اپنے پرانے فوٹو گراف سے اب زیادہ نہیں ملتی، جو میرے والدین نے آپ کو دی تھی، میں معذرت خواہ ہوں۔“

ہانا نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہوگا، کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا تھا۔

”نہیں نہیں“ ہانا نے جلدی سے کہا، ”یہ اس لئے کہ میں۔۔۔۔ اسی لیے کہ۔۔۔۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔“ ہانا یہ کہتے ہوئے خاموش ہو گئی۔

تارو نے آہستگی سے کہا، ”میں سمجھ سکتا ہوں۔۔ جب تم میرے دوستوں سے ملو گی، تمہیں اچھا محسوس ہوگا۔ مسٹر اور مسز ٹوڈا اوک لینڈ میں چائے پر آپ کے منتظر ہیں۔ تم ان کے ساتھ قیام کرو گی، جب تک۔۔۔۔“ اس نے جان بوجھ کر شادی کا لفظ ادا نہیں کیا اور ہانا نے بھی اس پر شکر ادا کیا۔ ”انتظامیہ جلد ہی آپ کا سامان اوک لینڈ پہنچا دے گی۔“ اس نے پھر کہا اور اس کو بارش سے بچاتا ہوا احتیاط سے گلی میں موجود کار کے پاس لے آیا تاکہ وہ یہاں سے روانہ ہو سکیں۔

ہانا نے ایک نظر ساحل اور کشتیوں پر ڈالی۔ جیسے ہی اس نے ایک کشتی پار کی اس کے پیٹ میں ہلکا سا درد ہوا۔ اس نے ایک بار پھر تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے پوچھا، ”آپ کے شہر تک کتنے گھنٹے اور لگیں گے؟“

جب سے وہ ملے تھے، تارو پہلی بار ہنسا اور ہنستے ہوئے اس کے سونے جیسے دانت نظر آئے، ”اوک لینڈ ساحل سے دوسری طرف ہے۔ ہم بیس منٹ تک وہاں ہوں گے۔“

اپنے ایک ہاتھ سے منہ کو چھپاتے ہوئے ہانا بھی ہنس پڑی۔ اب اُسے کچھ اچھا محسوس ہو رہا تھا، ’میں اب امریکہ میں ہوں۔۔۔‘ اس نے سوچا، ’اور یہی وہ آدمی ہے، جس سے میں شادی کرنے آئی ہوں۔‘

پھر وہ احتیاط سے اس کے ساتھ بیٹھ گئی کہ ان کے کپڑوں کا کوئی بھی حصہ ایک دوسرے کے ساتھ مس نہیں ہو رہا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close