شہزادی بمبا سدرلینڈ، گمنامی میں زندگی گزارنے والی پنجاب کی ملکہ

علی عباس

یہ مارچ 1957 کے موسمِ بہار کی ایک اُداس سہ پہر تھی۔ شہرِ لاہور میں خاموشی تھی۔ سڑکوں پر ٹریفک عام دنوں کی طرح رواں دواں تھی مگر جیل روڈ کے گورا قبرستان میں ایک خاتون کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد تدفین جاری تھی۔

برطانوی سفارتی عملے کے علاوہ گنتی کے چند مقامی لوگ ہی اس وقت موجود تھے جو یہ ذمہ داری بوجھل دل کے ساتھ ادا کر رہے تھے۔

10 مارچ کا یہ دن پنجاب کی تاریخ میں ایک عہد کے خاتمے کا اعلان تھا، جب پنجاب کی رانی شہزادی بمبا اپنے ہی پرکھوں کی سلطنت میں گمنامی کی ایک طویل زندگی گزارنے کے بعد خاموشی سے چل بسیں مگر ان کی موت پر اشک بہانے والا کوئی نہ تھا۔

شہزادی بمبا سدرلینڈ محض پنجاب کے شاہی خاندان کی آخری رُکن ہی نہیں تھیں بلکہ ان میں بغاوت کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ وہ مہارانی جند کور کی پوتی تھیں، جنہوں نے زندگی کی آخری سانس تک پنجاب پر برطانوی تسلط قبول نہیں کیا تھا، جبکہ صوفیہ دلیپ سنگھ کی بہن تھیں جو برطانیہ میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔

انگریز راج کا پنجاب پر قبضہ کرنے کا خواب 1849 میں دوسری اینگلو سکھ جنگ میں مقامی فوجوں کی شکست کے بعد پورا ہو چکا تھا۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خاندان کے لیے تاریخ کے پنوں پر ایک ایسا اتہاس لکھا جا رہا تھا، جس میں درد بھی ہے، کرب بھی ہے اور جرأت و بہادری کا ہر رنگ نمایاں ہے۔

مہارانی جند کور کی بہادری کے قصے بھی اور انگریزوں کا سِکھ حکمرانوں سے خوف بھی اس کہانی میں دکھائی دیتا ہے، جس کی ایک جھلک معروف محقق ماجد شیخ مؤقر انگریزی اخبار ڈیلی ڈان میں اپنے ایک مضمون میں دکھاتے ہیں، ’29 مارچ 1849 کو مہاراجہ دلیپ سنگھ کو ڈاکٹر جان لوگن کی سرپرستی میں دے دیا گیا جو انہیں لے کر فی الفور فتح گڑھ کے لیے روانہ ہو گئے، جہاں سے ان کی اگلی منزل میسور تھی۔ 1853 میں مہاراجہ نے مسیحی مذہب قبول کر لیا، اس بارے میں مگر سکھ محققین میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو اسی سال لندن بھیج دیا گیا اور وہ ملکہ وکٹوریہ سے متعارف ہوئے۔ یوں مہاراجہ کو ان کی اپنی سلطنت سے ہی دور کر دیا گیا۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ان (مہاراجہ) کو اپنے حقیقی ورثے کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب وہ 1863 میں اپنی والدہ مہارانی جند کور کی آخری رسومات ادا کرنے انڈیا آئے جو انگلینڈ میں جلاوطنی میں وفات پا گئی تھیں۔‘

انگریز راج کے خوف کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے مہارانی جند کور کی آخری رسومات لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی (جو ابھی بنائی نہیں گئی تھی) کے قریب ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جبکہ ان کی پہلی بیویوں کے معاملے میں یہ زبردستی نہیں کی گئی تھی۔
مہارانی جند کور کی راکھ کو ممبئی کے قریب ہی شہر ناسک میں ایک سمادھی بنا کر محفوظ کر دیا گیا۔

مہاراجہ دلیپ سنگھ لندن واپسی پر راستے میں مصر کے شہر قاہرہ میں ایک خاتون بمبا مُلر کو دل دے بیٹھے جو ایک مشنری سکول میں کام کرتی تھیں، ان دونوں نے جلد ہی شادی کر لی اور جب یہ جوڑا لندن واپس لوٹا تو ملکہ وکٹوریہ نے ان کا استقبال کیا، جن کے ہاں 29 ستمبر 1869 کو بمبا صوفیہ جندن دلیپ سنگھ کا جنم ہوا جو مہاراجہ دلیپ سنگھ اور ان کی بیوی بمبا مُلر کی سب سے بڑی صاحب زادی تھیں جن کا نام ان کی دادی جند کور اور ماں بمبا ملر سے مستعار لیا گیا تھا۔

صحافی اور محقق کنور جیت سنگھ کانگ ٹریبیون انڈیا میں لکھتے ہیں کہ ’شہزادی بمبا لاہور میں مستقل سکونت اختیار کرنے سے قبل بارہا انڈیا آتی رہیں۔ انہوں نے لاہور کے پوش علاقے ماڈل ٹاؤن میں ایک گھر بھی خریدا جسے ’گلزار‘ کا نام دیا، جہاں ایک کنال پر صرف گلاب اُگائے گئے تھے۔‘

شہزادی بمبا نے لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں گھر خریدنے سے کچھ عرصہ قبل جیل روڈ کے شروع میں ایک عالیشان بنگلے میں رہائش رکھی، اس مقام پر بعد میں ایک سینما بھی قائم رہا۔ شہزادی کی 16 جیل روڈ کی یہ رہائش گاہ تاریخ کی گرد میں کھو چکی ہے جس کی تصاویر ایک عرصہ تک مصنف کے پاس محفوظ رہی ہیں۔

شہزادی بمبا کی سب سے چھوٹی بہن شہزادی صوفیہ دلیپ سنگھ 1906-07 میں ہندوستان آئیں تو انہوں نے اپنی بہن کی طرح خاموش زندگی نہیں گزاری بلکہ وہ اپنے پرکھوں کے دیس میں سیاسی طور پر سرگرم رہیں جس کے باعث برطانوی جاسوس ان پر گہری نظر رکھتے تھے، جبکہ شہزادی بمبا کی ہر نقل و حرکت پر پہلے سے ہی نظر رکھی جا رہی تھی۔ شہزادی صوفیہ کے انڈیا میں قیام کے دوران ہی ان کی آزادی کے مجاہدین گوپال کرشنا گوکھالے اور لالہ لاجپت رائے سے ملاقات ہوئی۔ وہ جب برطانیہ واپس لوٹیں تو برطانوی نوآبادیات کے لیے ان کے دل میں پیدا ہو چکی نفرت بڑھ چکی تھی۔

کنورجیت سنگھ کانگ ٹریبیون انڈیا میں لکھتے ہیں کہ ’مہاراجہ دلیپ سنگھ کو اپنی ماں کی لاش انتم سنسکار کے لیے انگلینڈ سے پنجاب لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی بلکہ انہوں نے ممبئی کے قریب ناسک میں اپنی ماں کی آخری رسومات ادا کی تھیں جہاں ان کی راکھ پر ایک چھوٹی سی سمادھی یادگار کے طور پر بنا دی گئی۔ شہزادی بمبا نے اپنی دادی اور مہارانی جند کور کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے یہ راکھ ان کی سمادھی سے نکال کر لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی میں دفن کر دی۔‘

مہارانی جند کور کی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ سمادھی بنائے جانے کی خواہش ان کی موت کے برسوں بعد پوری ہوئی اور وہ لاہور کی مٹی کا حصہ بن گئیں کیوںکہ انگریزوں کو اب مہاراجہ کے خاندان سے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا۔
شہزادی بمبا نے 1915 میں ڈاکٹر ڈیوڈ واٹرز سدرلینڈ سے 46 برس کی عمر میں شادی کر لی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے 1909 سے 1921 تک پرنسپل کے طور پر انتظامی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔

شہزادی کی یہ شادی ماڈل ٹاؤن میں ان کے گھر پر ہوئی تھی اور ان کے شوہر ڈاکٹر ڈیوڈ بنیادی طور پر آسٹریلیا سے تعلق رکھتے تھے اور فوجی پس منظر کے حامل تھے۔

شہزادی بمبا کو یہ احساس تھا کہ یہ پنجاب ان کا ہے اور وہ اس کی حقیقی وارث ہیں۔ برطانوی راج کے دنوں میں 1946 تک شہزادی انگلینڈ جاتی رہیں اور وہ اپنا تعارف پنجاب کی ملکہ کے طور پر کروایا کرتیں۔

برطانوی شہر نوروچ میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب انہوں نے اپنے ڈرائیور جارج ڈیوی سے کہا کہ وہ گاڑی کتب خانے کے باہر پارک کرے جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا ہونے لگا۔ یہ دیکھ کر پولیس اہلکار نے ان سے درخواست کی کہ ازراہِ مہربانی اپنی کار یہاں سے آگے لے جائیں تو انہوں نے تحکمانہ انداز میں کہا کہ ’کیا تم جانتے ہو کہ تم کس سے بات کر رہے ہو؟ میں پنجاب کی ملکہ ہوں۔‘

پنجاب کی اس شہزادی کی زندگی میں تنہائیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کے شوہر ڈاکٹر ڈیوڈ واٹرز سدرلینڈ اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد جلد ہی سکاٹ لینڈ واپس لوٹ گئے۔ اس بارے میں کوئی تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں کہ شہزادی بمبا بھی ان کے ساتھ سکاٹ لینڈ گئی تھیں یا نہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ اپریل 1939 میں وفات پا گئے۔ ان دونوں کی کوئی اولاد نہیں تھی اور یوں مہاراجہ دلیپ سنگھ کی نسل آگے نہ بڑھ سکی کیوں کہ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں میں سے کوئی بھی صاحبِ اولاد نہیں تھا۔

1942 میں شہزادی کی منجھلی بہن شہزادی کیتھرین ہلڈا دلیپ سنگھ چل بسیں، جنہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی میں یہودیوں کو نازیوں کے ظلم و ستم سے بچانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

کچھ ہی عرصہ بعد تقسیمِ ہند کے باعث پنجاب کا بٹوارا بھی شہزادی بمبا کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھا۔

شہزادی کی سلطنت اب وجود نہیں رکھتی تھی، جس نے ان کے دل پر گہرا گھاؤ لگایا اور وہ مزید تنہائی کا شکار ہوگئیں اور اگلے ہی برس ان کی سب سے چھوٹی بہن شہزادی صوفیہ دلیپ سنگھ کی وفات کے باعث اس دنیا میں شہزادی بمبا کا اپنا کوئی نہ رہا۔

وہ اپنے ہی تقسیم شدہ پنجاب میں روحانی طور پر کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی تھیں۔ ان کے جیون کا مفہوم ہی تبدیل ہو گیا۔
شہزادی بمبا کی زندگی کا ایک اور اہم باب ان کی زندگی میں پیر کریم بخش سپرا کا آنا تھا۔

محقق ہربنس سنگھ ورڈی ٹریبیون انڈیا میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’وہ (شہزادی) جب لاہور آئیں تو ان کی ملکیت میں تصاویر اور دیگر نادر فن پارے موجود تھے جو ان کو اپنے والد سے ورثے میں ملے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس فارسی یا عربی میں تاریخی دستاویزات اور شاہی احکامات تھے جو ان کے دادا نے 40 سالہ عہدِ اقتدار میں جاری کیے تھے۔ وہ چوںکہ ان کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہتی تھیں جس کے باعث انہوں نے اخبار میں عربی و فارسی کے ماہر کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اشتہار دیا۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کے انٹرویو کیے اور بالآخر کریم بخش سپرا کو اس ملازمت پر رکھ لیا۔‘

کریم بخش سپرا کا خاندان بھی شہزادی بمبا کے ساتھ ماڈل ٹاؤن میں ہی قیام پذیر رہا اور انہوں نے اپنی جائیداد ایک وصیت کے ذریعے پیر کریم بخش سپرا کے نام کر دی جن کے بچے چند برس قبل تک شہزادی کے ماڈل ٹاؤن والے گھر میں رہ رہے تھے مگر ایک روز یہ معلوم ہوا کہ پنجاب کی ملکہ کا گھر مسمار کر دیا گیا ہے۔

معاصر اُردو ادب کے چند نمایاں ناموں میں سے ایک مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناول ’راکھ‘ میں پنجاب دھرتی کی آخری شہزادی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
وہ ایک اُردو روزنامہ میں لکھے گئے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ’آج سے تقریباً پچاس برس پیشتر جب میری شادی ہوئی اور بارات ماڈل ٹاؤن گئی تو جب کبھی میں اپنی بیگم میمونہ کو سکوٹر پر بٹھا کر اس کے ماں باپ کے گھر چھوڑنے جاتا تو وہ ایک اجاڑ اور ویران کوٹھی کی جانب اشارہ کر کے کہتی یہ رانی کی کوٹھی ہے۔‘

’کون سی رانی؟ کیا وہ اس کوٹھی کے اندر موجود ہے تو وہ کہتی۔ نہیں وہ مر چکی ہے۔ اب اس پر اس کے منشی کا قبضہ ہے لیکن اسے بھی کسی نے نہیں دیکھا۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’وسیع کوٹھی کے گرد کھٹی کی ایک بے ترتیب اور الجھی ہوئی باڑ تھی۔ باڑ میں کبھی کبھی سفید پھول بھی کھلتے تھے۔ ویسے مشہور تھا کہ اس باڑ میں بے شمار سانپوں کا بسیرا ہے جو لوگوں کو اس ویران گھر کے قریب نہیں آنے دیتے۔ طرح طرح کی افواہیں مشہور تھیں۔ مجھ میں تجسس کے جو جرثومے پیدائشی طور پر رہائش پذیر ہیں انہوں نے سنپولیوں کی مانند سر اٹھا کر سرسرانا شروع کر دیا۔ کلبلانے لگے کہ پتہ کرو۔ کھوج لگاؤ کہ اگر واقعی کوئی شہزادی ماڈل ٹاؤن کی اس وسیع اور ویران کوٹھی میں رہتی تھی تو وہ کون تھی۔ کسی ریاست کی شہزادی تھی یا عین ممکن ہے کوئی مغل شہزادی ہو۔‘

’ماڈل ٹاؤن کے پرانے باسیوں سے استفسار کیا۔ تحقیق کی کتابوں کی ورق گردانی کی اور بہت جستجو کے بعد یکدم یہ بھید کھلا کہ وہ تو پنجاب کے آخری مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھی۔‘

شہزادی نے اپنی تمام کلیکشن بھی پیر کریم بخش سپرا کو سونپ دی جسے بعدازاں حکومت نے خرید لیا جن میں 18 واٹر کلر پینٹنگز، 14 آئل کلر پینٹگنز، 22 ہاتھی دانت پر بنائے گئے فن پارے، 17 تصاویر کے علاوہ چند اور نوادرات بھی شامل ہیں جنہیں شاہی قلعہ کی سکھ گیلری میں ’شہزادی بمبا کلیکشن‘ کے نام سے نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

کہتے ہیں کہ اس کلیکشن میں سے بہت سے قیمتی نوادرات اور جواہرات چوری کر لیے گئے تھے جو حکومت تک پہنچے ہی نہیں یا حکومت کی تحویل میں آنے کے بعد غائب ہوئے۔ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔

منشی نے رانی کے محل پر قبضہ کیا یا نہیں، اس سوال کا جواب غالباً کبھی نہیں مل پائے گا مگر شہزادی کی اہم ترین یادگار کی مسماری شہرِ لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کی عوام کے ساتھ زیادتی تھی جس کے لیے حکومتِ وقت کو بروقت اقدام کرنا چاہیے تھا، کیوںکہ جب یہ گھر منہدم کیا گیا اس وقت برسرِاقتدار حکومت سکھ یادگاروں کو بحال کر رہی تھی۔ یہ آنسوئوں سے نم کہانی پھر سہی۔

تقسیم اور بہن بھائیوں کی وفات کے باعث شہزادی بمبا کے لیے زندگی ایک آزمائش، ایک امتحان بن گئی تھی۔ انہوں نے چند برس بہت مشکل میں گزارے اور بالآخر 10 مارچ 1957کو چل بسیں۔
پنجاب کی ملکہ کی موت پر مگر ان کے پرکھوں کے ملک میں ہی آنسو بہانے والا کوئی نہ تھے۔

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close