نارسسٹک پرسنلٹی ڈس آرڈر اور ازدواجی زندگی

طاہرہ سید

حمنہ کا رشتہ آیا تو گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لڑکا بہت خوبصورت، اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والا سلجھا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ حمنہ کی خوبصورتی کی تو خاندان بھر میں دھوم تھی۔ دونوں کی چاند سورج کی جوڑی لگ رہی تھی۔ تعلق بنا اور بات چیت شروع ہوئی تو حمنہ عجیب الجھن کا شکار رہنے لگی۔ اس کا منگیتر اچانک سے کسی بھی بات پر بگڑ جاتا۔ حمنہ کتابیں پڑھنے کی شوقین، دنیا جہان کے موضوعات پر بات کرنا چاہتی لیکن اس کے منگیتر کو ایسا لگتا جیسے وہ اسے نیچا دکھانے کے لیے یہ سب باتیں کر رہی ہے۔ اس نے کئی بار اپنی بہنوں کی توجہ اس کے رویے کی طرف دلانے کی کوشش کی، لیکن اسے ہمیشہ یہی سننے کو ملتا کہ اتنے اچھے گھرانے کا اتنا خوبصورت لڑکا تمہارے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے اور تم چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر ناشکری ہو رہی ہو۔

شادی ہوئی اور جو تھوڑی بہت جھجک درمیان میں باقی تھی، وہ بھی ختم ہوئی تو اس کے شوہر نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ تم میری نظر میں ایک ردی کی ٹوکری میں پھیکے جانے کے قابل ہو۔ اس سے زیادہ میں تمہیں کوئی رتبہ نہیں دے سکتا۔ وہ شخص اپنے آگے کسی کی کوئی خوبی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ حتیٰ کہ اس کی اپنی بیوی بھی اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ اسے ایسا لگتا جیسے یہ میری برابری کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اصل میں حمنہ کے شوہر کے لیے اپنی ذات ہی اہم تھی۔ اپنے گھر میں بھی وہ کسی کو اہمیت نا دیتا۔ گھر والے اس کے لاڈ اٹھاتے رہتے، اُٹھتے بیٹھتے ماں اپنے بیٹے کی شکل و صورت، قابلیت پر واری صدقے ہوتی، اور حمنہ سے بھی کہا جاتا کہ تم نے اس کا خیال رکھنا ہے۔ اپنا گھر چھوڑ کر آنے والی لڑکی کو ایک بیوی، ایک بہو کا کردار نبھانے کے لیے شوہر کی سپورٹ چاہیے ہوتی ہے لیکن یہاں تو معاملہ یہ تھا کہ اگر شوہر کا موڈ کسی معمولی سی بات پر بھی خراب ہوجاتا تو وہ حمنہ کو اپنے کمرے سے نکال دیتا۔ جب کبھی موڈ بہتر ہوتا تو اپنی فیملی کے ساتھ پوری پوری رات گپ شپ کرتا اور بیوی کو نظر انداز کرتا۔ خود کو سب سے منفرد اور سب سے بہتر سمجھنا اس شخص کا اصل مسئلہ تھا۔

نفسیات کی زبان میں اسے نرگسیت پسندی کہا جاتا ہے۔ دماغی صحت کے ماہرین اسے آج کے دور کا بہت بڑا مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ سوشل میڈیا کے استعمال کا عام ہونا ہے۔ ہر شخص اپنی بہترین سیلفی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ آج کے دور میں پرورش پانے والے ایک چھوٹے سے بچے کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ میں نے اگر نئے کپڑے پہن لیے ہیں تو اب ایک سیلفی ہونی چاہیے۔ یہاں تک کہ سیلفی کے لیے دیے جانے والے پوز بھی بچوں کو معلوم ہوتے ہیں۔ والدین کے ہاتھ میں اسمارٹ فون بچے کی زندگی کے ہر اہم لمحے کو تصویری شکل میں قید کر رہا ہوتا ہے۔ اور پھر ان تصویروں کو اپلوڈ کیا جاتا ہے، تعریفیں سمیٹی جاتی ہیں، اس طرح سے ایک چھوٹا سا بچہ بھی ہوش و حواس سنبھالتے ہی جانے انجانے میں خود پسندی کا شکار ہونے لگتا ہے۔

یوں ’نارسسٹک پرسنالٹی ڈس آرڈر‘ کی بنیاد بچپن سے ہی پڑ جاتی ہے۔ اس کی بہت بڑی وجہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں کے رویے ہیں۔ یہ مسئلہ مزید گھمبیر شکل اس وقت اختیار کرلیتا ہے جب اردگرد کے لوگ ’انیبلر‘ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ انیبلر نفسیات کی زبان میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ایک نارسسٹک پرسنلٹی کے ارد گرد موجود ہوتے ہیں اور مسلسل اپنی تعریفوں سے اس کی حرکتوں کو بڑھاوا دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کی وکالت میں پیش پیش رہتے ہیں اور انہیں ایک منٹ کے لیے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ ایک ٹاکسک شخص کی حرکتوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ اینیبلر اکثر بہت قریبی فیملی ممبرز ہی ہوتے ہیں۔ مثلاً حمنہ کے کیس میں اس کے شوہر کی ہر غلط حرکت کو شہ دینے والے اس کے تمام گھر والے ہی تھے، جن میں والدہ سرفہرست تھیں۔

اگر ایک شخص اپنے آگے دوسرے کو ڈی ویلیو کر کے، اس کی ہتک کرکے خوش ہو رہا ہے تو اس کے قریبی لوگوں کا فرض ہے کہ اسے اس کی خامی سے آگاہ کریں، نا کہ اس کو شہ دے کر درست ثابت کریں اور دوسرے کو اخلاقی درس دینے پر تل جائیں کہ ’بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کی دل جوئی کرے۔ اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات نا ہو‘ اسی طرح اگر کوئی نارسسٹ بھائی اپنی بہن کی حق تلفی کرے یا خلاف مزاج بات ہوجانے پر واویلا کرے تو سب سے پہلے والدہ ہی بہن کو سمجھانے لگیں گی کہ ’بہنوں کو بھائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ تم کیسی بہن ہو بھائی کے لیے اتنا نہیں کر سکتیں‘ اس طرح کی سپورٹ دے کر ہم نارسسٹ شخصیت کے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔

نرگسیت پسندی آج کے دور میں ایک وباء کی صورت میں پھیل رہی ہے۔ خود کو سب سے منفرد اور اہم سمجھنا دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف نہ کرنا، پرفیکشن کی خواہش، کسی کے اعتراض پر فوراً بھڑک اٹھنا، اختلاف کو برداشت نہ کرنا، سب نارسسٹک پرسنلٹی ڈس آرڈر کی علامات ہیں۔ آج کے دور میں ایک دوسرے کی تعریف یا حوصلہ افزائی کا شدید فقدان نظر اتا ہے۔ چاہے آپ اپنے ورک پلیس پر ہوں یا دوستوں کے درمیان، ہر شخص اپنی اہمیت جتانے کی کوشش میں نظر آتا ہے۔ زوجین کے درمیان بھی حوصلہ افزائی اور تعریف مفقود ہے. بلکہ اکثر گھرانوں میں تو بیویوں کا بچوں کے سامنے ہی تمسخر اڑایا جاتا ہے، جس کا بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور یہی بچے بڑے ہو کر اپنے شادی شدہ زندگی میں کبھی اپنی بیوی کو عزت نہیں دے پاتے۔ ہمارا ماحول تعریف کے فن سے ناآشنا لیکن خوشامد کے فن سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ہم حوصلہ شکنی کرنا جانتے ہیں لیکن حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتے۔ اسی طرح تنقید تو گویا ہمارا قومی کھیل ہے۔

آج کے والدین کا ایک بہت بڑا چیلنج اپنے بچوں کو نارسسٹک پرسنلٹی ڈس آرڈر سے بچانا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں خود احتسابی کے عمل سے گزر کر اپنی شخصیت کی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کیجیے اور اپنے بچوں کو بھی خود احتسابی کا عمل سکھائیے تاکہ وہ ہمیشہ صرف خود کو ہی صحیح ثابت کرنے پر نہ تلے رہیں بلکہ اپنی خامیوں اور خوبیوں سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ دوسروں کی حوصلہ افزائی اور تعریف کا ظرف رکھیں۔ رشتوں کی مضبوطی اور شخصیت سازی کے لیے یہ ایک ٹانک ہے۔ جیسا کہ شاعر فرما گئے ہیں کہ:

آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں،
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close