بالاچ بلوچ کی لاش ان چار لوگوں کی لاشوں میں شامل تھی، جن کے بارے میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ سی ٹی ڈی کی ایک کارروائی کے دوران مارے گئے تھے۔ چاروں افراد کی لاشوں کو جمعرات کی صبح ٹیچنگ ہسپتال تربت منقتل کیا گیا تھا۔ بالاچ کی لاش کو دفنانے کی بجائے ان کے لواحقین نے لاش کو رکھ کر فدا شہید چوک پر دھرا دے کر احتجاج کیا
بالاچ بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے تربت شہر کے قریب آبسر کے علاقے سے تھا۔ یہ علاقہ تربت شہر سے گاڑی پر دس منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔
ان کے بڑے بھائی واحد بلوچ کا کہنا ہے ”ہمارے چھوٹے بھائی کو فورسز کے اہلکار ہمارے گھر میں موجود تمام افراد کے سامنے اٹھا کر لے گئے لیکن بعد میں ان کے خلاف جھوٹا کیس بنا دیا اور اب ان کو مار کر یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ سی ٹی ڈی کی کارروائی کے دوران اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا“
بالاچ کے بڑے بھائی واحد بلوچ نے بتایا کہ بالاچ کی عمر بائیس سال کے لگ بھگ تھی اور انھوں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی تھی۔ بالاچ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ابھی تک ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔
واحد بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ تربت شہر میں ایک دکان میں بلوچی کشیدہ کاری کے کاروبار سے وابستہ تھے
واحد بلوچ نے کہا کہ ان کے بھائی کا ماورائے آئین اور عدالت قتل کیا گیا، اس لیے انہوں نے لاش کو نہیں دفنایا اور وہ چاہتے ہیں کہ انصاف ہو
دوسری جانب تربت سول سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے بتایا کہ مارے جانے والے تمام افراد پہلے سے جبری طور پر لاپتہ تھے اور ان کو مبینہ طور پر دوران حراست ہلاک کرنے کے بعد یہ بے بنیاد الزام عائد کیا گیا کہ ’تین افراد سی ٹی ڈی کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں مارے گئے، جبکہ بالاچ مارے جانے والوں کی ہی فائرنگ سے مارا گیا‘
اس واقعے کے خلاف نہ صرف تربت شہر میں دھرنا دیا گیا، بلکہ احتجاجاً شہر میں تمام تجارتی مراکز بند رہنے کے علاوہ بالاچ کی زیر حراست ہلاکت کے خلاف وکلا نے بھی کیچ میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا
دوسری جانب سرکاری حکام کا اور سی ٹی ڈی کا کہنا ہے بالاچ کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے تھا اور انہیں ان کے دوسرے ساتھیوں کی نشاندہی کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ جہاں وہ مقابلے کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے
واحد بلوچ نے بتایا کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ ان کو باہر سے گرفتار کیا گیا، جو درست نہیں بلکہ ان کو ہمارے گھر سے ہی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے
واحد بلوچ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ”رواں سال اکتوبر کی 29 تاریخ کو فورسز کے اہلکار ہمارے گھر میں داخل ہوئے، جس وقت یہ اہلکار آئے اس وقت رات کے تقریباً ایک بج رہے تھے۔ یہ لوگ دیوار پھلانگ کر ہمارے گھر کے اندر داخل ہوئے۔ ہمارے گھر میں داخل ہونے کے بعد فورسز کے اہلکاروں نے پوچھا کہ کیا یہ رحیم کا گھر ہے تو میں نے ان کو بتایا کہ یہ رحیم کا نہیں، ہمارا گھر ہے۔ یہ پوچھنے کے بعد وہ کمروں کے اندر داخل ہوئے اور الماریوں کو توڑ کر تلاشی شروع کی۔ میں نے انہیں کہا کہ الماریوں کو مت توڑو، ان کی چابیاں ہیں، وہ میں آپ لوگوں کے حوالے کر دیتا ہوں۔ اس پر اہلکار غصے میں آ گئے اور مجھے سختی سے خاموش رہنے کا کہا۔ اہلکار وہاں سے میرے پاسپورٹ سمیت بعض دیگر دستاویزات اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے“
واحد بلوچ کا کہنا تھا کہ تلاشی کے بعد جب اہلکار واپس گئے تو بالاچ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے
واحد بلوچ نے مزید بتایا کہ 21 نومبر کو بالاچ کے خلاف مقدمے کے اندراج کے بعد ان کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا
انہوں نے بتایا کہ جب بھائی کو عدالت میں پیش کیا گیا تو وہاں ہماری ان سے ملاقات بھی ہوئی اور ہم خوش ہوئے کہ ان کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے
بالاچ کے لواحقین کے وکیل جاڑین دشتی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بالاچ کے خلاف باقاعدہ سی ٹی ڈی کی جانب سے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ جب ان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے دس روزہ ریمانڈ پر ان کو سی ٹی ڈی کے حوالے کیا۔ 29 تاریخ تک یہ ریمانڈ تھا لیکن اگلی پیشی سے قبل ان کی لاش ہسپتال میں پڑی ملی
ان کا کہنا تھا کہ لواحقین کے استفسار پر انھیں بتایا گیا کہ وہ سی ٹی ڈی کی کارروائی کے دوران مارے گئے
جاڑین دشتی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا لاپتہ افراد کے لواحقین اس بات پر خوش ہوئے کہ سی ٹی ڈی ان کے خلاف مقدمات قائم کر کے ان کو عدالتوں میں پیش کر رہا ہے، لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ زیر حراست قیدیوں کو اس طرح مارا جارہا ہے
واحد بلوچ کہتے ہیں ”ہم اور ہمارے گھر والے اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے بھائی کو ہمارے سامنے اٹھا لیا گیا لیکن بعد میں بتایا گیا کہ ان کو بارود کے ساتھ پکڑا گیا ہے۔“
انہوں نے سی ٹی ڈی کی جانب سے لگائے جانے والے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ ان کے بھائی کو دوران حراست قتل کیا گیا
تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزاردوست بلوچ بتاتے ہیں کہ جمعرات کو بالاچ سمیت جن باقی تین افراد کی لاشوں کو تربت ٹیچنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ان سب کی شناخت ہو گئی ہے
انھوں نے دعویٰ کیا کہ بالاچ کی طرح باقی تین افراد بھی ان لوگوں میں شامل تھے، جن کو مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’جعلی مقابلے میں ان کو مارنے کے بعد ان کی لاشوں کو ہسپتال منقتل کیا گیا‘
ان کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے باقی تین افراد کی شناخت ودود بلوچ ، شکور بلوچ اور سیف بلوچ کے ناموں سے ہوئی، جن کی عمریں بیس سے بائیس برس کے درمیان تھی
ان کے مطابق ”ودود بلوچ کو عید کے چوتھے روز پنجگور سے اٹھایا گیا تھا، شکور بلوچ کو ضلع کیچ کے علاقے تمپ اور سیف بلوچ کو یکم اگست کو تربت سے جبری طورپر لاپتہ کیا گیا تھا“
انہوں نے کہا کہ نہ صرف ان چار افراد کا ماورائے قانون قتل کیا گیا بلکہ اس سے چار پانچ روزقبل تین دیگر لاپتہ افراد کو گولی مارنے کے بعد ان کی لاشوں کو ایک گاڑی میں رکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ لوگ ہوشاب کے علاقے میں سڑک کنارے بم دھماکے میں مارے گئی
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت عادل بلوچ، شاہ جہاں بلوچ اور نبی داد بلوچ کے ناموں سے ہوئی
انہوں نے بتایا کہ ان میں سے ’عادل بلوچ کو 22 اگست کو میرے ایک رشتہ دار کے چیمبر سے جبکہ شاہ جہاں بلوچ اور نبی داد بلوچ کو 25 اگست کو تربت سے جبری طورپر لاپتہ کیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہوشاب سے ملنے والی ان لاشوں کو میں نے خود دیکھا تھا، جن کو پہلے گولی ماری گئی تھی اور پھر ان کو گاڑی میں ڈال کر دھماکہ کیا گیا۔‘
تاہم سرکاری حکام کی جانب سے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ افراد دھماکہ خیز مواد لے جاتے ہوئے گاڑی میں دھماکے میں ہلاک ہو گئے
بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی کا بالاچ سمیت ان افراد کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کے الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی نے بالاچ نامی ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جنہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا۔ انھوں نے دوران تفتیش یہ بھی انفارمیشن دی تھی کہ پسنی روڈ پر ان کے دو تین ساتھی رات کو قیام کرتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ ان معلومات کی بنیاد پر سی ٹی ڈی نے وہاں چھاپہ مارا تاکہ ان لوگوں کو گرفتار کیا جائے مگر جب سی ٹی ڈی کے اہلکار وہاں پہنچے تو بالاچ نامی شخص کے ساتھیوں نے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں پر راکٹ فائر کیا۔ جس پر سی ٹی ڈی اور دہشت گردوں کے درمیان بیس منٹ تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا، جس کے دوران یہ لوگ مارے گئے جبکہ ان کے بعض ساتھی فرار ہوئے
جان محمد اچکزئی نے استفسار کیا کہ ان لوگوں نے کس طرح یہ تعیّن کیا کہ یہ ایک جعلی مقابلہ تھا؟
ان کے بقول ”وہاں سے اسلحہ برآمد ہوا، اس کی تفصیل بھی ہے۔ دو کلاشنکوف، آئی ای ڈی ریموٹ کنڑول اور ایک موٹر سائیکل برآمد ہوا جس پر بارود نصب تھا“
دوسری جانب اس سلسلے میں کیچ پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان افراد کی لاشوں کو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ہسپتال منتقل کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ یہ لوگ مقابلے میں مارے گئے ہیں۔