امریکہ اپنی دولت، جمہوریت اور ہر قسم کے مواقع کی وجہ سے مشہور ہے، سفارتی اور سائنسی میدانوں میں اس کا مقابلہ نہیں، لیکن اسی امریکہ میں غربت اور مفلسی بھی ہے، جس کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
امریکہ کی غربت دیکھنی ہو تو وہاں سیاہ فام اور آبائی امریکی باشندوں کی بستیوں کا ایک چکر لگا لیجیے۔
سرمایہ دار اور دولت مند طبقے کے لوگ شہر سے الگ تھلگ سرسبز و شاداب مضافاتی علاقوں میں اپنے کھلے اور وسیع مکانوں میں رہتے ہیں۔ ان کے وسیع لان، ایک دوسرے سے الگ گھر، گھروں کے آگے کھڑی لمبی لمبی کاریں ایک جدا دنیا کا پتہ دیتی ہیں۔
اس کے مقابلے پر تنگ بستیوں میں رہنے والے اپنی عادات، رویّوں اور رجحانات میں مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے مکان ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے گھروں میں جو بات چیت ہوتی ہے، اس سے ہمسائے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔
موسیقی کی ریکارڈنگ اور ٹیلیویژن کی آواز ہر طرف گونجتی رہتی ہے۔ تنگ بستیوں میں رہنے والے صرف سیاہ فام نہیں، بلکہ غریب سفید فام بھی وہاں رہتے ہیں، اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
امیر مضافات میں دن کے وقت ہُو کا عالم ہوتا ہے، سبھی لوگ کام کاج یا پڑھائی کے لیے نکلے ہوتے ہیں، مگر نادار بستیوں میں عین دوپہر کو بھی لوگ گھروں کے باہر بیٹھے ہوتے ہیں، عورتیں گھروں کی دہلیز پر بیٹھی پڑوسنوں سے گپیں لگا رہی ہوتی ہیں، لڑکے گلیوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ ان بستیوں میں رہنے والوں کی اکثریت بےروزگار ہوتی ہے، یا ایک ہی فرد کی کمائی پر پورا خاندان پلتا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا فُقدان ہوتا ہے۔ فرصت کے اوقات میں سب لوگ مل کر بات چیت کرتے رہتے ہیں۔
گلی میں دکانیں ہیں۔ جب کسی خاندان کے پاس پیسہ نہ ہو تو وہ پرچون کی دوکان سے ادھار پر سودا خریدتا ہے، جو خاصا مہنگا پڑتا ہے۔ اگر اسے قرض چاہیے تو سود خور اسے قرضہ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اگر کھانے کی اشیا خریدنے کے لیے پیسے کی اَشد ضرورت ہو تو اپنا سامان رہن رکھ دیتے ہیں۔ رہن کی دکانوں پر غریب لوگوں کی اشیا نظر آتی ہیں، جیسے کھانے پینے کے برتن، جوتے، قمیض یا کوٹ اور کسی موسیقی کے شوقین کا گِٹار۔
اپنی مفلسی اور غربت کے باوجود نادار بستیوں کے رہنے والے خیرات لینا پسند نہیں کرتے ہیں۔ مصیبت کے وقت یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ان کی جو تھوڑی بہت آمدن ہوتی ہے، اسی پر قناعت کرتے ہیں۔
لیکن کبھی کبھی یہ بستیاں شہر کی ’ترقی‘ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ مثلاً کسی نئے ہائی وے کے تعمیر ہونی ہے یا بینکوں اور سرمایہ دار کمپنیوں کے دفاتر کے لیے سکائی سکریپر تعمیر کرنے کا منصوبہ تو ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ان بستیوں کو مسمار کر دیا جاتا ہے، اور اس کے رہائشی اپنے سامان کے ساتھ فٹ پاتھ پر آ جاتے ہیں۔
اب انہیں کرائے کے لیے مکانوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور شہر کے کسی علاقے میں کوئی نئی بستی وجود میں آنا شروع ہو جاتی ہے۔
انگلینڈ کی طرح، جہاں غریبوں کے لیے ورک ہاؤس تعمیر ہوئے تھے، امریکہ میں بھی بےگھر لوگوں کے لیے وقتی رہائش کے لیے مکانات تعمیر کیے گئے۔ ان مکانوں میں پناہ لینے کے لیے زیادہ تر خواتین ہوتی تھیں جو گھریلو تشدد، طلاق کی وجہ سے بے سہارا ہو کر یہاں آتی تھیں۔
وہ حاملہ عورتیں بھی یہاں آتیں، جن کے پاس بچے کی پیدائش کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی۔ جہاں تک مردوں کا تعلق ہے، یہاں وہ کھانا کھانے اور سونے کے لیے آتے تھے۔ دن میں وہ کام کی تلاش میں پھرتے رہتے تھے۔
1930 کی دہائی میں جب معاشی بحران آیا اور غریب لوگوں کی اکثریت جب بےگھر اور بےروزگار ہو گئی تو امریکہ کے مختلف شہروں میں ان لوگوں کی رہائش کا بندوبست کیا گیا۔ پرانی عمارتیں جو خالی پڑیں تھیں، ان میں ایک یا دو کمرے بےگھر لوگوں کو دیے گئے۔
اس کے علاوہ ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں بھی ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا۔ مردوں کے لیے بڑے ہال تعمیر کیے گئے۔ جس میں سونے کے لیے اوپر سے نیچے تین سلیپر ہوتے تھے۔ ان کی تعداد 30 سے 40 ہوتی تھی۔ کھڑکیاں بند رکھیں جاتی تھیں، جس کی وجہ سے ہال میں حبس ہو جاتا تھا۔
سوتے ہوئے لوگ خراٹے بھی لیتے تھے، کھانستے بھی تھے، جس کی وجہ سے دوسروں کے لیے گہری نیند محال تھی۔ روشنی کے لیے حال کے وسط میں ایک لیمپ رکھ دیا جاتا تھا۔ صبح اٹھ کر یہ لوگ روزگار کی تلاش میں نکل جاتے تھے۔
جن لوگوں نے ان پناہ گاہوں کے بارے میں لکھا ہے، ان کا مشاہدہ ہے کہ یہاں صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ہر طرف گند اور غلاظت ہے۔ کھانا پکانے کی بھی کوئی سہولت نہیں۔ ہر طرف بچوں کا شوروغل ہے۔ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے عمارت میں ہر طرف بدبو ہے۔ اس ماحول میں غریب لوگ غربت اور مفلسی میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
امریکہ کے معاشی بحرانوں کی وجہ سے بےروزگار نوجوانوں کا ایک نیا گروہ وجود میں آیا۔ یہ ’آوارہ گروہ‘ کہلاتے تھے۔ یہ اپنے گاؤں اور چھوٹے شہروں سے نکل کر جماعت کی شکل میں شہروں اور آبادیوں میں جاتے تھے اور بھیک مانگتے تھے۔ رات کو یہ یا تو جنگلوں میں سوتے تھے یا شہر میں باغوں کے بینچوں پر۔
یہ اپنی آوارہ گردی پر خوش تھے، جب بھوکے ہوتے تھے تو لوگوں کے گھروں پر جا کر ان سے کھانا مانگتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ غریب لوگ ہی ہماری مدد کرتے تھے، اور ان میں خاص طور سے سیاہ فام، جو نہ صرف کھانے کو دیتے تھے بلکہ رات کو سونے کے لیے بھی صاف جگہ فراہم کرتے تھے۔
کیونکہ آوارہ گردی کرنا اور بھیک مانگنا جرم ہو گیا تھا، اس لیے پولیس انہیں قید کر کے جیل بھیج دیتی تھی، مگر رہائی کے بعد پھر یہ آوارہ گردی شروع کر دیتے تھے۔ عورتیں بھی آوارہ گردی کرتی تھیں، کچھ مردوں کا بھیس بدل کر اور کچھ بحیثیت عورت کے۔ آوارہ گردی میں انہیں جو مشکلات درپیش ہوتی تھیں، اُسے یہ برداشت کرتی تھیں۔
وہ غریب لوگ، جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا، وہ کوڑاکرکٹ میں کھاںے کی چیزیں تلاش کرتے تھے۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں کا بچا ہوا کھانا، جو ناقص ہو جاتا تھا، جب اسے فٹ پاتھ پر رکھا جاتا تھا، تو بھوکے غریبوں کے لیے یہ ایک نعمت تھا۔
ایک اسکول کے ایک غریب طالب علم کا کہنا تھا کہ لنچ کے وقت اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا، تو وہ انتظار کرتا تھا کہ بچے اپنا بچا ہوا کھانا پھینکیں تو خاموشی سے جا کر ان کے چھوڑے ہوئے سینڈوچز کھاتا تھا اور اپنے بھائی کے لیے بھی گھر لے جاتا تھا۔
غربت کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ جلسے جلوس نکالے گئے، مہنگائی کے خلاف آوازیں اُٹھائیں گئیں، مگر یہ سب بےسُود رہیں۔ غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکا اور آج بھی امریکہ سرمایہ داری اور غربت کے درمیان اُلجھا ہوا ہے۔ اب امریکہ کی مفلسی چھپی نہیں رہی ہے۔ اس کے غریبوں کا دُکھ درد سامنے آ گیا ہے۔
(مزید تفصیل کے لیے Stephen Pimpare کی کتاب دیکھیے (A People’s History of Poverty in America)
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)