اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ کیا آپ ملازمت کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں۔ تو غالب امکان یہی ہے کہ آپ کا جواب ہاں میں ہوگا اور اس کی وجہ بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ دو سال پہلے تک جو راشن دس ہزار روپے میں آجاتا تھا، آج بیس ہزار میں بھی نہیں آتا۔ ایک لاکھ روپے کمانے والا سوچتا ہے کہ اگر امریکا یا کسی یورپی ملک جا کر دو ہزار ڈالرز بھی بچالے تو ساڑھے پانچ لاکھ بنتے ہیں۔ اسی طرح مزدور سمجھتا ہے کہ اگر خلیجی ریاستوں میں محنت مزدوری کر کے دو ہزار ریال بھی بچالے تو ڈیڑھ لاکھ روپے گھر بھیج سکتا ہے۔
لیکن بیرون ملک ملازمت کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود اکثر لوگ کبھی بیرونِ ملک نہیں جا پاتے۔ حکومت نے پاکستانیوں کو نوکری کے لیے بیرونِ ملک بھجوانے کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ یہ منصوبہ کیا ہے اور اس سے باہر جانے کے خواہشمند کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس حوالے سے ہم نے تحقیق کی ہے، جو قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں۔
ورک امیگریشن کیا ہے؟
پاکستان سے بیرون ملک جانے کے دو طریقے ہیں ایک قانونی اور دوسرا غیر قانونی۔ قانونی طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی ملک کے سفارت خانے یا پھر ایجنٹ کے ذریعے ویزا حاصل کریں۔ ہر ملک کی اپنی ویزا پالیسی ہے لیکن عام طور پر آپ سیاحت، تعلیم، کام یا پھر کاروبار کے لیے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔
کام کے لیے کسی دوسرے ملک ہجرت کرنے کو ورک امیگریشن کہا جاتا ہے۔ آپ ورک ویزا خود بھی اپلائی کر سکتے ہیں اور ایجنٹ کے ذریعے بھی۔ اگر آپ انٹرنیٹ یا بیرونِ ملک مقیم کسی دوست یا رشتہ دار کے ذریعے نوکری تلاش کرلیں اور آپ کے پاس کنفرم جاب آفر آجائے تو آپ اس ملک کے سفارتخانے جا کر چند سو ڈالرز فیس کے عوض ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔
ورک امیگریشن کیسے حاصل کی جاتی ہے؟
اگر ایجنٹ کے ذریعے اپلائی کریں گے تو یورپ اور امریکا کے ورک ویزا کے لیے تیس ہزار ڈالرز تک کی رقم درکار ہوگی۔ اگر آپ کے پاس جاب آفر نہیں اور پیسے بھی کم ہیں تو آپ وزٹ پر جا کر بھی قسمت آزمائی کر سکتے ہیں لیکن مغربی ممالک کے وزٹ ویزا کی شرائط کڑی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے پاس بیس لاکھ روپے کی رقم بینک میں موجود ہے اور گزشتہ چھ ماہ میں آپ نے اپنے اکاونٹ سے متعدد بار بھاری لین دین کیا ہے، آپ کے پاس جائیداد ہے اور آپ کی ماہانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے زائد ہے تو آپ امریکا کے وزٹ ویزا کے لیے اپلائی کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔
اگر ایجنٹ کے ذریعے اپلائی کریں تو ایک لاکھ روپے کے قریب خرچہ آئے گا، لیکن وزٹ ویزا پر کام ڈھونڈنا جوا سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی محنت کشوں کے لیے سب سے سَستی ورک امیگریشن خلیجی ممالک کی ہے لیکن ان ریاستوں میں زیادہ نوکریاں لیبر کی ہیں۔ سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کا ڈرائیور یا تعمیراتی مزدور وغیرہ کا ویزا پانچ سے دس لاکھ روپے میں خریدا جا سکتا ہے۔
کام کے لیے ہجرت کا پسِ منظر؟
پاکستانی 1971ء سے دنیا کے مختلف ممالک میں کام کی غرض سے جا رہے ہیں۔ وزارتِ سمندر پار پاکستانی کے مطابق 1971ء سے 2020ء کے درمیان ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد پاکستانی ملازمت کے لیے 54 ممالک منتقل ہوئے۔ 2015ء میں ساڑھے 9 لاکھ کے قریب پاکستانیوں نے بیرونِ ملک ہجرت کی۔ پاکستان سے ہجرت کرنے والے 80 فیصد کے قریب لوگ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔
مائیگریشن پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے اسپیک ٹرسٹ کے سربراہ شہباز اکبر کے مطابق پاکستانی دو وجوہات کی بنا پر خلیجی ممالک جاتے ہیں۔ ایک تو انہیں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ذریعے ویزا آسانی سے مل جاتا ہے اور دوسرا خلیجی ممالک میں تعمیرات کے لیے مزدوروں کی ہر وقت مانگ رہتی ہے۔
تاہم شہباز کے مطابق خلیجی ممالک میں کم اجرت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ جو مزدور ویزے کے لیے ایجنٹ پر انحصار کرتے ہیں وہ کئی بار دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ کبھی ان کو وزٹ ویزے پر بھیج دیا جاتا ہے جو تین ماہ بعد ختم ہوجاتا ہے اور کبھی ان کو کسی ایسے ویزے پر بھیج دیا جاتا ہے جس کا انہیں تجربہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ایک شخص جس نے کبھی کار نہیں چلائی، اگر اسے ڈرائیور کا ویزے دے کر بھیج دیا جائے تو اس کا استحصال ہی ہوگا۔ کام کے لیے خلیجی ممالک جانے میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے مقابلے میں تنخواہیں بہت کم ہیں۔ ایک عام تعمیراتی مزدور، سیکیورٹی گارڈ یا ڈرائیور ایک ماہ میں ایک ہزار سے ڈھائی ہزار درہم تک ہی کما پاتا ہے۔
افرادی قوت بر آمد کرنے کا حکومتی منصوبہ؟
روپے کی ڈالر کے مقابلے گرتی قدر کو تمام جتن کے باوجود کنٹرول نہ کر پانے کے بعد حکومت کو احساس ہوا کہ ریاست چلانے کے لیے ڈالرز درکار ہیں۔ پاکستان کی درآمدات فوری نہیں بڑھائی نہیں جا سکتیں اور نہ ہی برآمدات میں کمی کی جا سکتی ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کے قرض اور سود کی ادائیگی بھی کرنی ہے پیٹرول، ڈیزل تو چاہیے ہی چاہیے۔ پھر دفاعی اخراجات، وزارتیں ہیں، مقامی حکومتیں ہیں، اس سب کے لیے رقم درکار ہے۔ حکومت کو احساس ہوا کہ ملک میں ڈالرز لانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیرونِ ملک ملازمت پر بھجوا دیا جائے۔
ہر سال تقریباً 8 لاکھ پاکستانی بیرون ملک جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنے گھروں کو رقم بھیجتے ہیں۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا تقریباً 8.5 فیصد بنتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 2022ء کے دوران بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے 31 ارب ڈالرز کی ترسیلات وطن بھیجیں۔
وزارتِ اوورسیز پاکستانی کے اعلٰی افسران کے مطابق حکومت یہ تعداد دوگنی کرنا چاہتی ہے۔ منصوبہ ہے کہ ہر سال دس سے بیس لاکھ پاکستانیوں کو کام کے لیے بیرونِ ملک بھیجا جائے۔
اسی سوچ کے تحت سال 2021ء میں سابق وزیراعظم نے سعودی دورے کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے درخواست کی کہ وہ مزید پاکستانیوں کو اپنے ملک میں نوکریاں دیں تو حکام کے مطابق وزیراعظم کو بتایا گیا کہ ایک لاکھ نوکریاں موجود ہیں، لیکن انہیں پاکستانیوں کو اس لیے نہیں دیا جا سکتا کیونکہ پاکستان سے ڈرائیور کے ویزے پر مزدور آ جاتا ہے اور کرین آپریٹر کے ویزے پر خاکروب۔ سعودی عرب نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ اپنے عملے کو پاکستان بھیج دیا۔ معاہدے تو پہلے ہی موجود تھے۔
اس منصوبے میں تیزی گزشتہ سال آئی۔ سعودی عملہ ہنر سکھانے والے پاکستانی ادارے نیوٹیک میں اپنی زیرِ نگرانی کورس کرواتا ہے اور پھر ہنر کا امتحان لے کر انہیں سعودی عرب روانہ کر دیا جاتا ہے
حکومت اسی طرز کے منصوبے عمان اور دوسری ریاستوں کے ساتھ بھی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزارتِ تعلیم کے ایڈیشنل سیکریٹری کے مطابق جرمنی سے بھی بات چیت جاری ہے کہ وہ بھی پاکستانیوں کو یہیں ہنر یا تعلیم فراہم کر کے جرمنی میں ملازمت فراہم کرے۔ تاہم ابھی تک تمام بات چیت ابتدائی مراحل میں ہے۔
افرادی قوت کی درآمد کے چیلنجز
وزارتِ اوورسیز پاکستانی کے افسران کے مطابق دنیا میں افرادی قوت کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ کوریا، جاپان، یورپ، امریکا سب کو ہنر مند افراد درکار ہیں لیکن اس بڑی مانگ کے باوجود اس سال جنوری سے ستمبر تک 6 لاکھ 39 ہزار پاکستانی ہی بیرونِ ملک جا پائے ہیں
بین الاقوامی ادارہ برائے محنت پاکستان کے سربراہ گیئر ٹونسٹل کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی جاب مارکیٹ میں پاکستانیوں کے لیے جگہ اس لیے تنگ ہو رہی ہے، کیونکہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہنرمند نہیں اور انہیں زبان بھی نہیں آتی۔ یورپ، امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہائی اسکلڈ لیبر کی مانگ ہے اور غیر تربیت یافتہ لیبر کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اگر آپ کسی پاکستانی کو کوریا، جاپان یا چلیں ناروے بھیج رہے ہیں تو اسے اس ملک کی زبان آنی چاہیے، ورنہ اسے ملازمت پر کوئی نہیں رکھے گا۔
گیئر کا ماننا ہے کہ پاکستان دنیا کا ایک ایسا منفرد ملک ہے، جس کی زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ دنیا کے کئی ممالک کی آبادی کا بڑا حصہ معمر افراد پر مشتمل ہے۔ انہیں کام کے لیے جوان لوگ درکار ہیں۔ ہلیتھ کیئر سیکٹر میں ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی دنیا میں بہت مانگ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان اگر معاشی استحکام کے لیے افرادی قوت باہر بھیجنا چاہتا ہے تو اسے اس حوالے سے سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔
پاکستان کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں کس ہنر کی مانگ ہے اور اس کے لیے کس درجے کی مہارت درکار ہے۔ اس مانگ کے مطابق پاکستان کو اپنی درس گاہوں میں افرادی قوت تیار کرنا ہوگی۔ ساتھ ہی انہیں غیر ملکی زبان بھی سکھانا ہوگی۔ پاکستان کو اس بات کا بھی انتظام کرنا ہوگا کہ بیرونِ ملک سے واپس آنے والے افراد کی کھپت کیسے کی جائے۔ گیئر کے مطابق لوگوں کو ہنر کی اعلٰی تربیت دے کر پاکستانی نہ صرف بیرون ملک اچھی تنخواہوں کی ملازمت حاصل کر سکتے ہیں بلکہ انہیں ملک میں بھی کام کے اچھے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کیسے کئی ایشیائی ممالک اپنے لوگوں کو اعلٰی تربیت دے کر اس وقت عالمی منڈی پر راج کر رہے ہیں۔ گیئر بتاتے ہیں کہ 2016ء میں ان کے ادارے نے تارکینِ وطن کارکنوں کے لیے نیشنل ویلفیئر امیگریشن کے عنوان سے ایک پالیسی بنانے میں حکومت کی معاونت کی لیکن تاحال اسے لاگو نہیں کیا جا سکا ہے۔
وزارتِ اوورسیز پاکستانی کے افسران بتاتے ہیں کہ صرف قابلیت میں کمی نہیں بلکہ پاکستانیوں کو مغربی ممالک میں کام نہ ملنے کی سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ دنیا میں پاکستان کی پوزیشن دوسری ایشیائی اقوام اور ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں نہایت کمزور ہے۔ اکثر ترقی یافتہ ممالک دیگر ایشیائی اقوام کو پاکستانیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان کا تعلیمی نظام بھی ہے۔ اکثر پاکستانی ہائی اسکلڈ لیبر دراصل سیمی اسکلڈ لیبر کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتی۔ پاکستان میں کریئر کاؤنسلنگ کا کوئی تصور نہیں۔ ہر بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا ہے یا پھر ہمارے ایم اے سیاسیات، اردو یا دوسرے ایسے مضامین میں ہوتے ہیں، جن کی بیرونِ ملک کوئی کھپت نہیں۔ چونکہ دنیا میں آج ہر چیز میں مشینیوں کا عمل دخل ہے، اس لیے انہیں مزدور بھی تربیت یافتہ چاہیے۔
پاکستانیوں کا صرف یورپیوں نہیں بلکہ ایشیائیوں سے بھی مقابلہ ہے، جیسے کہ بھارت سری لنکا اور بنگلہ دیش، جہاں کا نظام تعلیم بہت اعلٰی ہے۔ وزارتِ تعلیم کے افسران کے مطابق حکومت جدید دنیا کی مانگ سے کسی حد تک آگاہ ہے۔ انہیں یہ تو معلوم ہے کہ آج کی-پیڈ والے موبائل ٹیکنیشن کی ضرورت نہیں بلکہ اسمارٹ فون مکینک کی مانگ ہے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ کس ملک میں کس طرح کے اسمارٹ فون مکینک کی مانگ ہے اور اس کے لیے مہارت کا کیا معیار ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ معلوم کرنا کہ کس ملک میں کس ہنر کی اور کس درجے کی مہارت کی ضرورت ہے وزارتِ اوورسیز پاکستانی، اس کے ذیلی اداروں اور پاکستان کے سفارتخانوں کی ذمہ داری ہے۔ جب طلب معلوم ہو جائے تو پھر وزارتِ اطلاعات اور دیگر متعلقہ اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں میں آگہی پیدا کریں کہ وہ انہی مضامین میں تعلیم حاصل کریں۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں بھی ہنر یا تعلیم کا معیار مقرر کیا جا سکتا ہے۔ افسران شاکی ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے وفاق اور صوبوں کے درمیان اس حوالے سے کوئی ہم آہنگی نہیں، جس کی وجہ سے ریاستی سطح پر کوئی ٹھوس کام نہیں ہو سکا ہے۔
اب تک حکومتی ترجیحات بھی فوٹو سیشن یا پریس ریلیز تک محدود ہیں۔ مثال کے طور پر ہنر سکھانے والا پاکستانی سرکاری ادارہ نیوٹیک سعودی عرب کے ساتھ مل کر ’تکامل پروگرام‘ بڑی کامیابی سے چلا رہا ہے، لیکن اسے مناسب بجٹ نہیں دیا جا رہا۔ نیوٹیک کو ابھی تک پی یس ڈی پی کے تحت قسطوں میں پیسے دے کر چلایا جا رہا ہے۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ادارے کو صرف 6 کروڑ روپے کا بجٹ دیا گیا جبکہ اس کی ضرورت 70 کروڑ روپے کی تھی۔
پالیسی بنانے والے افسران بین الاقوامی اداروں کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی ادارہ برائے محنت کی تمام کارکردگی امیگریشن پالیسی میں معاونت اور نیوٹیک کے 4 ادارے بین الاقوامی طور پر منظور کروانے تک محدود ہے جبکہ جرمن غیر سرکاری تنظیم جی آئی زیڈ نے اب تک فقط 6 پاکستانی ادارے دنیا میں منظور کروائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایل او اور جی آئی زیڈ اور دیگر اداروں کو مائیگریشن کے حوالے سے جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کر پائے۔ ایک افسر نے شکوہ کیا کہ ’ایک غیر سرکاری تنظیم کے 300 سے زائد افراد سیرینا بزنس کمپلکس میں بیٹھے ہیں لیکن آج بھی پاکستانی نوجوان ڈنکی (غیر قانونی راستے) سے بیرونِ ملک جا رہے ہیں اور سرحدی محافظوں کی گولیوں یا کشتیوں میں بڑی بے رحمی سے مارے جارہے ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کو انٹرنیشنل ڈیمانڈ جاننے اور اس کے مطابق ادارے کھڑے کرنے میں مالی و تکنیکی معاونت فراہم کر سکتی ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹرز نرسز اور انجینئرز کسی سے کم نہیں لیکن ان کی ڈگری کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ایک ڈاکٹر کو باہر جا کر کئی سال تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے، تب جاکر اسے ڈاکٹر تسلیم کیا جاتا ہے۔ آئی ایل او پاکستانی ڈاکٹرز، نرسز اور انجینئرز کی ڈگریوں کو بین الاقوامی طور پر منظور کروانے، پاکستانی تعلیمی اداروں کی بین الاقوامی معیار کے مطابق استعداد بڑھانے یا پھر مغربی ممالک کے ساتھ تکامل جیسا کوئی پروگرام شروع کروانے میں بھی تکنیکی اور مالی معاونت فراہم کر سکتا ہے۔
عام پاکستانی کے لیے بیرون ملک ملازمت کے مواقع
اگر آپ منتظر ہیں کہ حکومت آپ کو کوئی ایسا پورٹل یا ڈیٹا بیس فراہم کرے گی، جس پر نوکریوں کی تفصیلات اور جاب ڈسکرپشن درج ہوگی تو ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا ہونے کی کوئی امید ہے۔ وزارتِ اوورسیز پاکستانی، دفتر خارجہ یا دیگر متعلقہ اداروں سے پوچھیں تو وہ حکومتی ترجیحات اور وسائل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں۔ یعنی سادہ الفاظ میں اگر آپ نے بیرونِ ملک نوکری کے لیے جانا ہے تو اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ تاہم کم پڑھے لکھے افراد کے لیے نیوٹیک ایک نادر موقع فراہم کر رہا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ پاکستانیوں کو بیرونِ ملک نوکریوں پر بھجوانے کے حوالے سے اگر کوئی ٹھوس اور عملی کام ابھی تک ہوا ہے تو وہ نیوٹیک کا سعودی حکومت کے تعاون سے شروع کیا جانے والا اسکل ویری فیکیشن پروگرام ہے۔
نیوٹیک کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خالد کے مطابق 18 سے 35 سال عمر کے وہ پاکستانی جو باہر جاکر نوکری کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تکامل پروگرام سے بہتر کوئی آپشن نہیں۔ اس پروگرام کے تحت نہ صرف امیدواروں کو مفت فنی تربیت فراہم کی جا رہی ہے بلکہ سعودی حکام فارغ التحصیل طلبہ کو سعودی عرب میں نوکریاں بھی ڈھونڈ کر دے رہے ہیں۔ تکامل کے تحت 6 ماہ یا تین ماہ کی ٹریننگ کروائی جاتی ہے جس کی کوئی ماہانہ فیس نہیں۔ تاہم طلبہ کو ایک بار 40 ڈالرز کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے، جس میں سے 25 ڈالرز سعودی حکومت کو جاتے ہیں جبکہ بقیہ رقم تربیت فراہم کرنے والے ادارے کو ادا کر دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر خالد کے مطابق اس پروگرام کے تحت اب تک نیوٹیک کے مراکز میں 17 ہزار 500 افراد کو 3 سے 6 ماہ کی تربیت دے کر نوکریوں پر سعودی عرب روانہ کیا جا چکا ہے۔
آئندہ سال میں ایک لاکھ طلبہ کو فنی تعلیم فراہم کر کے بیرون ملک بھیجنے کا منصوبہ ہے۔ نیوٹیک کے ڈی جی کے مطابق کوئٹہ میں ایک ٹیسٹنگ مرکز کا آغاز کردیا گیا ہے جبکہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی جلد ہی مراکز کھول دیے جائیں گے۔
اسکل ویری فیکیشن یا تکامل پروگرام کیا ہے؟
تکامل پروگرام نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک) اورسعودی فنی تعلیم کے ادارے تکامل کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے۔ اس کے تحت سعودی ادارے کے اہلکار اپنی نگرانی میں پاکستان میں ہنر مند افراد کی تربیت کرواتے ہیں اور ان کی قابلیت کی جانچ کرنے کے بعد انہیں سعودی عرب میں ملازمت دلواتے ہیں۔ ابتدا میں سعودی حکام نے نیوٹیک کو 23 شعبوں بشمول الیکٹریشن، ڈینٹر، پینٹر وغیرہ میں لوگ تیار کرنے کو کہا۔ انہوں نے نیوٹیک کو اسکل سیٹ بھی فراہم کیے اور یہ بھی بتایا کہ انہیں کس درجے کی مہارت درکار ہے۔
پائلٹ پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد اس سال تکامل میں مزید 23 ٹریڈز شامل کردیے گئے ہیں۔ ایک جوائنٹ سافٹ ویئر بنا دیا گیا ہے، جس سے سعودی حکام پاکستانی ہنر مند افراد کی آن لائن ٹیسٹنگ کررہے ہیں۔ پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت 114 سینٹرز منتخب کیے گئے ہیں جن میں سے 30 کے قریب نے کام شروع کردیا ہے جبکہ بقیہ آنے والے دنوں میں کھول دیے جائیں گے۔
حرفِ آخر
پاکستانیوں کی کثیر تعداد نوکری کے لیے باہر جانا چاہتی ہے لیکن آپشنز محدود ہیں۔ لیبر تو تکامل پروگرام سے فائدہ اٹھا لے گی مگر ہائی اسکلڈ لیبر کیا کرے۔ حکومت تکامل جیسا کوئی پروگرام مغربی ممالک کے ساتھ شروع کر کے ڈاکٹرز، انجینئرز، نرسز، آئی ٹی اور دوسرے پیشہ ور افراد کو باہر بھجوا سکتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت امیگریشن یا لیبر پر کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی مدد کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا میں پاکستانیوں کے لیے سیاسی فضا سازگار کریں۔
نوٹ: یہ مضمون مفاد عامہ میں ڈان نیوز اور مصنف کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا۔ سنگت میگ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔