ان کی تعداد تیس تھی، جو ایک پُرخطر علاقے میں سرحدی گشت کے دوران دشمن کی حرکات و سکنات پہ نظر رکھنے کی غرض سے ایک پتھریلی پہاڑی پر چڑھ رہے تھے۔۔ لیکن جلد ہی یہ احساس ہونے پر کہ اس طرح دشمن کی آوازوں کا پتہ لگانا، انہیں خطرے کے قریب لے جائے گا، وہ پیچھے ہٹ گئے۔۔ ایسے موقع پر، جب حالات آپ کے خلاف ہوں، لڑنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا
یہ منظر کسی انسانی جنگ کا نہیں ہے۔۔ بلکہ یہ ذکر ہے ایک ایسی مشق کا، جو افریقی ملک آئیوری کوسٹ کے تائی نیشنل پارک میں رہنے والے چمپینزی کر رہے تھے
طویل عرصے سے یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ جانور پہاڑیوں اور اونچی جگہوں کا استعمال شکاریوں کو دور سے آتے ہوئے دیکھنے کے لیے کرتے ہیں یا دوسرے جانوروں کو جوڑنے کے لیے پکارتے ہیں
پھر بھی، اس بارے میں بہت کم تحقیقات کی گئی ہیں کہ آیا یہ ہوشیار چمپینزی بھی اونچی جگہوں سے جاسوسی کر کے دوسرے گروہوں کے بارے میں قیمتی معلومات اکٹھا کرتے ہیں
جرمن پرائمیٹ سینٹر اور فرانسیسی نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کی جانب سے ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چمپینزی حریف گروپوں پر عقاب کی طرح نظر رکھنے کے لیے ’اونچی زمین‘ کا استعمال کرتے ہیں، اور ان کے بارے میں معلومات جمع کرتے ہوئے ان کا مشاہدہ کرتے ہیں
انسان 2000 سالوں سے اونچی زمینی سطح کو جنگ میں جاسوسی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جیسا کہ چینی فوجی جنرل سن زو نے 475 اور 221 قبل مسیح کے درمیان لکھی گئی اپنی آرٹ آف وار ہینڈ بک میں حکمت عملی کو بیان کیا
محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے تین سال روزانہ تائی نیشنل پارک میں جنگلی چمپینزیوں کے دو گروپوں کا مشاہدہ کیا ہے اور اس دوران ان کو جنگی حالات میں بلند علاقوں میں انسانوں کی طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے دیکھا
محققین کے اس انکشاف کے بعد چمپینزی پر کیے گئے کوہلر کے وہ تجربات ذہن میں آتے ہیں، جن کے بعد انہوں نے اپنا معروف نظریہ بصیرت یا گیسٹالٹ تھیوری وضع کیا تھا
ماہرین کے حالیہ مطالعے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ چمپینزیوں کے ایک گروہ کا دشمن کے علاقے میں داخل ہونا، ان کے پہاڑی چوٹی پر سے کیے گئے مشاہدے اور اس دوران اکھٹی کی گئی معلومات پر منحصر ہوتا ہے۔ محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تصادم کا خطرہ کم ہونے کی صورت میں چمپینزیوں کے دشمن کے علاقے میں داخل ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ اس مطالعے میں چمپینزیوں کی طرف سے اس قدیم فوجی حکمت عملی کے استعمال کو پہلی بار ریکارڈ کیا گیا۔ یہ مطالعہ پی ایل او ایس بائیولوجی نامی جریدے میں شائع ہوا ہے
اس تحقیق سے وابستہ سلوین لیموئن کا کہنا ہے کہ اس مطالعے سے اخذ کیے گئے نتائج چمپینزیوں میں چیزوں کو سمجھنے اور تعاون کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں، جس کی بنا پر وہ یہ فیصلہ کر پاتے ہیں کہ انہیں کب اور کہاں جانا ہے اور اکھٹا کی گئی معلومات کی بنیاد پر محفوظ طریقے سے کیا عمل سرانجام دینا ہے
لیموئن کے مطابق چمپینزیوں کے گروپوں کا آپس میں تشدد ایک عام بات ہے۔ ان کے درمیان جھڑپیں گاہے گاہے ایسے سرحدی علاقوں میں دیکھی جاتی ہیں، جہاں علاقوں کی باؤنڈری غیر واضح ہوتی ہے۔ لیموئن اس کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چمپینزی آپس میں زمین کے لیے مقابلہ کرتے ہیں، جہاں کھانے کے ذخائر بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا بڑے علاقوں میں قیام ان کے لیے بہتر ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس سے چمپینزیوں کے گروپوں کے درمیان زمین کے لیے مقابلہ کم ہو جاتا ہے اور مادہ چمپانزیوں میں شرح افزائش میں اضافہ ہوتا ہے
اس حوالے سے لیموئن مزید کہتے ہیں کہ چمپینزی جس علاقے کو اپنا تصور کرتے ہیں، اس کے لیے لڑنے اور اس کا دفاع کرنے کی حس ان میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ”وہ باقاعدگی سے ان علاقوں میں سرحدی گشت کرتے ہیں۔“
لیموئن کے مطابق چمپینزیوں کے دو گروپوں کے درمیان جھڑپیں مختلف نوعیت کی ہو سکتی ہیں، مثلاً قدرے فاصلے سے زبانی کلامی لڑائی یا ان کا ایک دوسرے کا پیچھا کرنا، کاٹنا اور آپس میں گتھم گتھا ہونا۔ ”ایسے میں چمپینزیوں کا ایک دوسرے کو جان سے مار دینا عام بات ہے اور ان لڑائیوں میں مرنے والے کسی بھی عمر کے ہو سکتے ہیں۔“
پہاڑیوں پر بلندی پر ہوتے ہوئے، چمپ بھی اپنے کھانے پر شور مچانے کے بارے میں آرام کرنے اور ہنسنے میں وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ خاموشی دوسرے بندروں کی پکار کو سننے کی کلید ہے۔
اونچی زمین لینے کا بھی ان چمپس کے لیے دوہرا مطلب ہے۔ اگرچہ جانور تھوڑی سی جاسوسی میں مشغول ہونا پسند کرتے ہیں، لیکن وہ عام طور پر حریف گروپوں کے ساتھ لڑائیوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ چمپ مخالف فریق کی موجودگی کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے پہاڑیوں پر چڑھتے ہیں لیکن ان کے خلاف استعمال نہیں کرتے، بلکہ جانتے ہیں کہ کب اور کیسے ان سے دور رہنا ہے، کیونکہ حریفوں کے ساتھ جھگڑا مہنگا پڑ سکتا ہے
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ چمپینزی انسانوں کے لیے اسی طرح کی جنگی حکمت عملیوں کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق وہ ہمارے جینز کا تقریباً 98 فیصد حصہ رکھتے ہیں
لیموئن کے مطابق ”اس طرح ہم یہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کیا چیز ہمیں انسان بناتی ہے۔ ہم یہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ انسانوں اور چمپینزیوں کے آخری مشترکہ آباؤ اجداد میں کس قسم کے رویے پائے جاتے تھے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قدیم ہومونم پرجاتیوں کا سماجی رویہ کیسا تھا۔“
بدقسمتی سے، چمپس خطرے سے دوچار ہیں، جنگلی میں تقریباً 172,000 سے 299,000 باقی رہ گئے ہیں، جو عام طور پر افریقہ کے کانگو بیسن کے علاقے میں پائے جاتے ہیں۔