سندھ کے ڈاکو: کلہوڑا دور سے آج تک سندھ کے ہر حکمران کے تاج کا کنکر کیوں بنے رہے؟َ

حسن مجتبیٰ

سندھ کے ڈاکوؤں سے منسوب ایک کہانی یہ بھی ہے کہ آٹھویں صدی میں جب عرب تاجروں کا بحری جہاز سری لنکا سے حجاز جا رہا تھا تو سندھ کے سمندری پانیوں میں ڈاکوؤں نے اس بحری جہاز پر لوٹ مار کی تھی۔کہانی کے مطابق، ڈاکوؤں کی اس لوٹ مار پر ایک عرب عورت کی فریاد کی وجہ سے اس وقت کے اموی خلیفہ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کی کمان میں فوجیں سندھ پر حملے کے لیے بھیجیں۔

یہ حملہ سندھ کے حکمران راجہ داہر کی حکومت کے خاتمے اور سندھ پر عربوں کی فتح پر منتج ہوا۔ بہرحال سندھ کی فتح کی ایسی کہانی یا وجہ کو کئی مستند مورخ مسترد کرتے ہیں۔ ان مورخین میں سندھ کی فتح پر مشہور تصنیف چچ نامہ کی از سرنو تشریح کرنے والے پروفیسر منان احمد آصف بھی شامل ہیں۔ منان احمد، جو کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک میں تاریخ کے پروفیسر ہیں، کی سندھ پر عربوں کی فتح پر کتاب

‘A book of Conquest: The Chachnama And Muslim Origins in South Asia’

کے نام سے شائع ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں ”اگر سندھ کی فتح کی ایسی کہانی کو تاریخی حوالہ جات میں دیکھیں تو یہ محض افسانہ ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔“

لیکن سندھ میں عربوں کی فتح کے بعد بھی ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

اٹھارویں صدی کے سندھ میں کلہوڑوں کے دور کو ہی لے لیجیے، جن کی حکومت کو بھی ڈاکوؤں کے مسئلے کا سامنا رہا اور سندھ بدامنی کا شکار رہا۔ جس کی ایک بڑی مثال یہ بھی ہے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سسر مرزا محمد بیگ مغل کی حویلی پر ڈاکوؤں نے حملہ کر کے ان کو ہلاک کر ڈالا تھا۔ اس بات کا تذکرہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے انگریزی زبان میں پہلے مترجم اور سوانح نگار نے اپنی کتاب ’شاہ آف بھٹ‘ میں بھی کیا ہے۔

سندھ پر قابض انگریز حکمران جن کے بارے میں ایک مغالطہ یہ رہا ہے کہ ان کے دور میں امن و امان کی صورت حال اتنی بہتر تھی کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیا کرتے تھے۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے ان کے دور میں بھی اصلی یا ان کے اپنے قرار دیے گئے ’ڈاکوؤں‘ کا ان سے مقابلہ رہا۔ ان میں برطانوی راج کے وہ باغی بھی تھے، جن کو حکومت نے ’ڈاکو‘ قرار دیا تھا، جو ان کے راج کے تسلط کے خلاف بغاوت پر اترے ہوئے تھے۔

پھر انیسویں صدی کی آخری دہائی والی ’حُر بغاوت‘ ہو یا بیسویں صدی کے وسط کی حر بغاوت، انگریزوں کو پیر پاگارو کے ان حروں کی مزاحمت کا سامنا رہا۔ ان مزاحمتی حروں کو انگریزوں نے ’ڈاکو‘ قرار دیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی سرزمین پر انگریزوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہوئی تھی، جن میں بچو بادشاہ، پیرو وزیر اور رحیم ہنگورو کی کاروائیوں کے کئی قصے ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد پیر پاگارو نے اپنے روپوش حروں کو حکومت کے سامنے گرفتاری پیش کرنے کا کہا تھا لیکن رحیم ہنگورو نے حکم عدولی کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ رحیم ہنگورو گرفتار ہوا۔ چند برسوں بعد رحیم ہنگورو کو حیدرآباد سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

انگریزوں کے خلاف مزاحمت میں صرف حر ہی شامل نہیں تھے۔ اس سے قبل جکھرانی اور دھاریجو قبائل نے شمالی سندھ اور تھر کے صحرا نگرپارکر میں، اور کولہی قبائل نے بھی مزاحمت کی تھی۔ کولہی باغیوں کے رہنما روپلو کولہی کو پھانسی دے دی گئی تھی، جسے اب سندھ کے کئی لوگ سورما مانتے ہیں۔

انگریزوں کے دور حکومت میں 1930 کی دہائی میں مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ نانی گوپال کو، جو دادو کے قریب کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں تحقیق کرنے آئے تھے، ڈاکوؤں نے قتل کر دیا۔ ان ہی دنوں سندھ کے معروف اشتراکی دانشور سوبھو گیان چندانی، عظیم بنگالی شاعر رابندرناتھ ٹیگور کی یونیورسٹی شانتی نکیتن میں زیر تعلیم تھے، جنہیں ٹیگور ’مین فرام موہن جو دڑو‘ کہا کرتے تھے۔ ٹیگور سوبھو سے سندھ میں بنگالی ماہر آثار قدیمہ کے قتل کا شکوہ کیا کرتے تھے۔

تقسیم سے قبل ہی راجستھان اور گجرات سے سندھ میں داخل ہو کر ڈاکو (دھاڑیل) ڈھاٹی اونٹوں پر چڑھ کر بستیوں اور رجواڑوں پر دھاوا بولتے اور ان کی ایسی کارروائیوں کی کہانیاں سندھی لوک شاعری اور داستانوں میں بھی موجود ہیں۔ ان کی کارروائیاں پاکستان بننے تک جاری رہی تھیں۔ سندھ کے عظیم شاعر شیخ ایاز نے بھی اپنی جیل کی یادداشتوں میں وہاں قید ڈاکو جیو مل کا ذکر کیا ہے۔

ڈاکو سندھی ادب کا بھی موضوع رہے ہیں۔ سندھ کے شہر خیرپور میرس میں ایک ڈاکو محرم جانوری پر معروف سندھی افسانہ نگار امر جلیل نے ایک افسانہ ’محرم جانوری کا مفرور ساتھی‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔

بھارت کے ڈاکو بھوپت سنگھ نے بھارت میں انڈین نیشنل کانگرس کے کئی حامی قتل کیے تھے اور پاکستان بھاگ آیا تھا اور بالآخر کراچی میں گرفتار ہوا تھا۔ کراچی جیل میں اس نے مذہب اسلام قبول کیا۔ اس کا نیا نام یوسف امین تھا اور پاکستان میں اس نے اپنی نئی زندگی سماجی کارکن کے طور پر بسر کی۔ بھارت میں بھوپت پر ’چمبل کے ڈاکو‘ سمیت کئی فلمیں بھی بنیں۔

اغوا برائے تاوان

لیکن یہ 1970 کی دہائی تھی جب سندھ میں ڈاکوؤں نے اپنی وارداتوں میں بھیانک طریقہ واردات اختیار کیا، یعنی اغوا برائے تاوان جیسا جرم جو آنے والی دہائیوں میں گویا ’صنعت کا درجہ‘ حاصل کر گیا۔

ان ہی دنوں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت تھی اور اغوا برائے تاوان کے جوابداروں سمیت سندھ کی صوبائی حکومت نے کئی جرائم پیشہ افراد کو گولی مارنے کا حکم جاری کیا تھا۔ ان جرائم پیشہ افراد میں کئی بدنامِ زمانہ چور، شہری بدمعاش اور اسمگلر بھی شامل تھے۔

سندھ میں اغوا برائے تاوان کی پہلی واردات گھوٹکی ضلع کے سندھ اور پنجاب کی سرحد پر واقع شہر ڈہرکی میں ہوئی تھی۔ بدنامِ زمانہ ڈاکو خدا بخش عالمانی نے ایک ہندو تاجر کو اغوا کیا تھا۔ اس سے قبل سندھ میں مویشی چوری کر کے ان پر تاوان طلب کیا جاتا تھا۔

ضیا دور اور ڈاکو

ملک میں جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء اور ساڑھے گیارہ سالہ فوجی راج کے دوران سندھ میں ڈاکو فیکٹر نے جرائم کی دنیا کی ہیئت ہی بدل ڈالی۔ معزول وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا تعلق سندھ سے ہونے کی وجہ سے ضیاء کے مارشل لاء کی مخالفت یا مزاحمت کا زیادہ زور سندھ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مزاحمتی تحریک نے کہیں کہیں تشدد کی شکل بھی اختیار کی۔

ڈاکوؤں کی سرکوبی کے نام پر اسی دور میں کئے جانے والے فوجی آپریشنز میں کئی مارشل لا مخالف سیاسی کارکنوں پر ریاستی تشدد نے سندھ کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ ریاستی آپریشنر میں قصورواروں سے زیادہ، دیہی عوام پر جبر اور مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کے واقعات نے سندھ کو آج تک امن و امان کی مخدوش صورت حال میں دھکیلا ہوا ہے۔ شہروں میں ’لسانی‘ مسلح گروپ اور دیہات میں ’ڈاکو‘ جیسے مفروضوں یا اسٹیریو ٹائپس نے دنیا میں سندھ کے صوفیانہ مزاج اور رواداری پر مبنی تصور کو زبردست ٹھیس پہنچائی۔

اسی دور میں بینظیر بھٹو کی پیجارو جیپ پر سَن کے قریب ڈاکوؤں نے حملہ کیا تھا۔ بینظیر خود اس جیپ پر سوار نہیں تھیں۔

اگرچہ سندھ میں کچھ ڈاکوؤں کے پاس اکا دکا اسٹین گن جیسا ہتھیار ستر کی دہائی میں پہنچا ہوا تھا لیکن افغانستان میں جنگ کے دوران سندھ میں بھی ہتھیاروں کا زبردست پھیلاؤ ہوا، جس میں کلاشنکوف یا اے کے 47 جیسے ہتھیار سندھ کے ڈاکوؤں اور شہروں میں سرگرم لسانی گروہوں کے ہاتھوں میں پہنچے۔

23 مارچ 1985 کو ڈاکوؤں نے، باہر سے، سکھر سینٹرل جیل پر حملہ کر کے کئی ڈاکوؤں کو فرار کروایا جو اس وقت پھانسی گھاٹ میں قید تھے۔ سکھر سینٹرل جیل میں کئی سیاسی قیدی بھی تھے۔ جنہوں نے جیل ٹوٹنے کے وقت فرار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن ان سیاسی قیدیوں میں سے کچھ بتاتے ہیں کہ باہر والے ڈاکوؤں نے اپنے ایک لڑکے کو الیکٹریشن کا کام سکھایا تھا اور وہ اسے جیل کی بیرونی دیوار کی برقی تاریں کاٹنے کے لئے اپنے ہمراہ لائے تھے۔ سکھر جیل ٹوٹنے کے بعد سندھ میں امن و امان کی صورت حال مزید مخدوش ہوئی۔

پرو چانڈیو سخی لٹیرا

دادو ضلع کے میہڑ میں شاہ پنجو سلطان کے مزار کے قریبی گاؤں میں ایک ہاری (کسان) کے گھر پیدا ہونے والا پریل عرف پرو چانڈیو سندھ کا ایک خطرناک لیکن سخی لٹیرے جیسا کردار بنا۔ سونا بنڈی جنگلات کو اس نے اپنی کمین گاہ بنایا۔ میہڑ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں مائیکروفون پر اس نے اعلان کیا کہ بیروزگار نوجوان اس کے ٹولے میں بھرتی ہوسکتے ہیں، جن کو اچھی تنخواہیں دی جائیں گی۔

علاقے کے لوگ کہتے ہیں، وہ غریب لڑکیوں کو جہیز دیتا، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کرتا۔ اسے یہ کہتے سنا گیا کہ وہ وڈیروں اور پولیس کے مظالم سے ڈاکو بنا ہے، لیکن ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ”یہ سب کہانیاں ہیں۔ وہ بھی باقی ڈاکوؤں کی طرح بے رحم اور لٹیرا تھا۔ ہم اسکول میں تھے، مجھے یاد ہے جب ہمارے گاؤں کے قریب پرو چانڈیو نے بس لوٹی تھی اور مسافر عورتوں کے زیورات ان کے کانوں، گلے اور ہاتھوں سے زبردستی اتروائے تھے۔“

یہ سندھ میں ایم آر ڈی تحریک کے عروج کے دن تھے، اور اس وقت سندھ میں ریاست سے لڑنے والا کوئی بھی شخص بہت سے لوگوں کی نظر میں ہیرو بن جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پرو جب ’پولیس مقابلے‘ میں مارا گیا تو اس کی میت پر لوگوں نے سینکڑوں اجرکیں ڈالی تھیں، بعد میں پروچانڈیو پر سندھی فلم بھی بنی۔

پرو چانڈیو کے علاوہ ان دنوں دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے جنگلات اور کچے کے علاقے ڈاکوؤں کے گروہوں کی آماجگاہ بنے۔ (یہ وہ علاقے ہیں، جہاں دریائے سندھ کا سیلابی پانی داخل ہو کر زمینوں کو زرخیز بناتا ہے اور گھنے جنگلات کی آبیاری کرتا ہے۔ یہ علاقہ دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے ساتھ کشمور سے کیٹی بندر یعنی ٹھٹہ تک پھیلا ہوا ہے۔)

جنرل ضیاء دور کے خاتمے کے بعد بھی سندھ میں ڈاکوراج قائم رہا۔

کشمور کے قریب جاپانی سیاح اور دادو میں چینی انجینئر بھی ڈاکوؤں کے گروہوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ سندھ میں سماجی طور پر کچلی شیدی اور کولھی برادریوں میں بھی ڈاکو پیدا ہوئے۔ ان میں بکتر بند شیدی اور رام جی کولھی جیسے ڈاکوؤں کو وڈیروں اور نجی جیل رکھنے والے زمینداروں کے مظالم کا رد عمل سمجھا گیا۔

قصہ مختصر یہ کہ ڈاکو، کلہوڑا دور سے لے کر آج تک سندھ کے ہر حکمران کے تاج کا کنکر رہے ہیں۔ چاہے وہ وراثتی بادشاہتیں تھیں یا انگریزوں کا راج، یا برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں منتخب سویلین حکومتیں یا فوجی آمریتیں، لیکن تاریخی طور پر سندھ پر ڈاکو راج کی اندھیری راتیں ہر حکمران کے لیے چیلینج رہی ہیں، اور اس چیلینج سے نمٹنے کی صلاحیتوں کا فقدان سندھ میں یکے بعد دیگرے کئی حکومتوں کی تبدیلیوں اور برطرفیوں کی وجہ بھی رہا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close