سانس لینے کی مشقیں ویسے تو ذہنی دباؤ میں کمی کے لیے انتہائی مفید سمجھی جاتی ہیں لیکن نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ان سے الزائمر یعنی یاداشت کھونے کی بیماری کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے
ہیلتھ لائن ویب سائٹ کے مطابق یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جوان اور بوڑھے دونوں ہی الزائمر کی وجہ بننے والے عوامل کو غیرمؤثر کر سکتے ہیں
تحقیق کے مطابق پرسکون ماحول میں کم از کم بیس منٹ تک لمبی لمبی سانس لینے کی مشق سے ’الزائمر‘ کی بیماری سے بچا جا سکتا ہے، جو کہ دماغی تنزلی اور اعصاب کی خطرناک بیماری ہے
واضح رہے کہ یہ مرض دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، یاداشت ختم ہو جاتی ہے اور ایک خاص قسم کا پروٹین اسے متحرک کرنے کا باعث بنتا ہے
الزائمر ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا اور جو بعد میں ڈیمینشیا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ڈیمینشیا سے نہ صرف یادداشت متاثر ہوتی ہے بلکہ جسمانی اعضا کی کارکردگی بھی بتدریج کمزور ہوتی ہے۔
سانس لینے کا طریقہ کار دل کی دھڑکن پر اثر انداز ہوتا ہے جس کا براہ راست اثر نہ صرف ہمارے نظام اعصاب پر ہے بلکہ دماغ کے پروٹین پیدا اور خارج کرنے کا طریقہ کار بھی متاثر ہوتا ہے
اگرچہ عام طور پر یہ بیماری اکثر معمر افراد کو شکار بناتی ہے، لیکن کسی بھی عمر کے افراد کو یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے اور جیسا بتایا جا چکا ہے کہ یہ ناقابلِ علاج ہے تو ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص سے اس سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے
یہ بیماری بلڈ پلازما میں موجود پروٹین’ایمیلوئیڈ بیٹا’ کے بڑھنے سے ہوتی ہے اور یہ پروٹین بعض اوقات ایک دہائی قبل ہی بڑھنا شروع ہو جاتا ہے
اگرچہ اس بیماری کا کوئی مستند علاج نہیں ہے، تاہم میڈیکل ماہرین مختلف ادویات اور ایکسرسائیز کے ذریعے اس کی شدت کو کم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں
اسی طرح حال ہی میں امریکی ماہرین نے ’الزائمر‘ کو روکنے کے لیے ایک ایکسرسائیز کا طریقہ بنایا اور پھر اس کی آزمائش کی
طبی جریدے ’نیچر‘ کے مطابق امریکی ماہرین نے ’پرسکون ماحول میں لمبی سانس‘ لینے کی مشق ترتیب دی اور پھر اس کی آزمائش ایک سو آٹھ رضاکاروں پر کی
ماہرین نے تمام رضاکاروں کو دو گروپس میں تقسیم کیا، رضاکاروں میں سے نصف کی عمریں اٹھارہ سے تیس ،جبکہ باقی نصف کی عمریں پچاس سے پچپن سال تھیں
ماہرین نے تمام رضاکاروں پر آزمائش کرنے سے قبل ان کا بلڈ ٹیسٹ کر کے ان میں پروٹین ’ایمیلوئیڈ بیٹا‘ کی سطح ریکارڈ کی اور پھر تمام رضاکاروں کو دو مختلف طریقوں کی مشقیں کرنے کا کہا گیا
رضاکاروں نے تمام رضاکاروں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے نوجوان اور زائد العمر افراد کو مکس کر کے آزمائش کی
ماہرین نے ایک گروپ کو کمپیوٹر پر قدرتی نظارے دیکھنے، پسندیدہ موسیقی سننے اور دیگر پسندیدہ مشغلے کرنے کا کہا جب کہ دوسرے گروپ کو ماہرین نے پرسکون ماحول میں لمبی سانسیں لینے کی مشق کرنے کا کہا
ماہرین نے تمام رضاکاروں کو چار ہفتوں تک مذکورہ مشقیں کرتے رہنے کا کہا اور اس دوران ماہرین رضاکاروں کے دل اور دماغ کو کمپیوٹر سے مانیٹر بھی کرتے رہے
بعد ازاں ماہرین نے چار ہفتے مکمل ہونے پر تمام رضاکاروں کے بلڈ ٹیسٹ کرکے بلڈ پلازما میں پروٹین’ایمیلوئیڈ بیٹا’ کی سطح بھی چیک کی
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد نے دن میں دو بار بیس منٹ تک پرسکون ماحول میں لمبی سانس لینے کی مشق کی، ان میں پروٹین ’ایمیلوئیڈ بیٹا‘ کی سطح میں نمایاں کمی ہوئی جب کہ ان کے دل اور دماغ میں تحرک بھی پیدا ہوئے اور ان کے جسم کے دوسرے حصوں کو بھی راحت ملی
ماہرین نے بتایا کہ لمبی سانسیں لینے کی مشق سے پورا جسم تحرک میں آتا ہے اور اندرونی اعضا سمیت بیرونی اعضا بھی متحرک ہوجاتے ہیں، جس وجہ سے اس کے نتائج مجموعی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں
برطانوی ادارے الزائمر ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سوزین کوہل ہاس کا کہنا ہے کہ یہ پہلی تحقیق ہے جو سانس لینے کی مشقوں کے الزائمر پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس کے نتائج حوصلہ کن آئے ہیں اور اسی معاملے پر مزید ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
محقیقین کے مطابق سانس لینے کے چند مخصوص طریقوں سے دل کی دھڑکن کی رفتار میں بھی کمی واقع ہوتی ہے اور انہی مشقوں سے ایمیلوئیڈ پروٹین کی خون میں مقدار بھی کم رہتی ہے جو دراصل الزائمر کی پہلی علامت ہیں۔