صحرائی چھچھوندر، جن کی جلد جھریوں والی ہوتی ہے، ان کے جسم پر بہت ہی کم بال ہوتے ہیں جن کے منہ کے باہر لمبے لمبے دانت ہوتے ہیں، زمین پر موجود دیگر انواع کے مقابلے میں ان کا شمار بد ہئیت مخلوقات میں کیا جاتا ہے
لیکن یہ غیر معمولی خصوصیات کے حامل ہیں، جو دنیا بھر کے ماہرینِ حیوانیات اور طبی محققین کے لیے باعثِ دلچسپی ہیں
گنجے صحرائی تل والے چھچھوندر بڑھاپے کے تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف مزاحمت اور ممکنہ طور پر کینسر کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ سائنسدان اس عجیب مخلوق کا اس لیے مطالعہ کر رہے ہیں کہ انسان کس طرح ایک زیادہ صحت مند اور زیادہ طویل زندگی بسر کر سکتا ہے
گنجے چھچھوندر اوسطاً 30 سال تک زندہ رہتے ہیں، ذیابیطس سمیت دائمی بیماریوں کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں، اور اپنا ایک دلچسپ تولیدی نظام رکھتے ہیں۔
یہ جانور ماحولیات سے موافقت رکھنے والے تعمیراتی معمار یعنی ’ایکو سسٹم انجینیئرز‘ کے طور پر کام کر کے اور مٹی کے اندر اپنے گھر بنانے کے لیے مٹی میں حیاتیاتی تنوّع کو بہتر بنا کر ماحولیاتی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی فیوچر کی ’ان لوڈ ورلڈ‘ Unloved World (وہ دنیا جو پیار سے محروم ہے) سیریز میں اس صحرائی چھچھوندر کے متعلق بتایا گیا ہے کہ بڑھاپے اور درد سے محفوظ، اس عجیب نظر آنے والی مخلوق نے طویل عرصے سے سائنسدانوں کو مسحور کر رکھا ہے۔ اب تحقیق یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ کینسر اور عمر بڑھنے کی ایک حد کو سمجھنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ گنجے چھچھوندروں کی طبی تحقیق کے خاص فوائد ہیں
اس نوع کا سائنسی نام ’ہیٹرو سیفالس گلیبر‘ (Heterocephalus glaber) ہے، جس کا بنیادی مطلب ہے ’مختلف سروں والی گنجی نوع‘، شمال مشرقی افریقہ کے گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ جنگل میں یہ نوع زیر زمین بڑی بڑی کالونیوں میں رہتی ہیں، جہاں ایک کالونی میں ان کی آبادی تین سو تک ہو سکتی ہے
ان کا طرزِ زندگی بھی انتہائی حیران کن اور دلچسپ ہے۔ ان کی زندگی انتہائی اچھے سماجی رشتوں میں استوار ہوتی ہے، ان کالونیوں پر ایک ملکہ کی حکمرانی ہے اور یہ اپنے سماجی تعلقات میں سخت درجہ بندی کی پیروی کرتے ہیں
ان کی ایک کالونی جس میں سرنگوں اور کمروں پر مشتمل بُھول بُھلیاں ہوتی ہیں اور ان کا سائز فٹبال کی کئی گراؤنڈوں کی لمبائی جتنا ہوتا ہے
کم آکسیجن کی سخت حالتیں جن میں گنجے صحرائی چھچھوندر رہتے ہیں یہ کچھ انواع کی غیر معمولی خصوصیات کا اشارہ ہو سکتے ہیں
زیادہ تر ’ایروبک زندگی‘ یا آکسیجن خور زندگی (جِسے زِندَہ رہنے اور پھَلنے پھُولنے کے لِیے ہَوا یا غَیر مُرکَب آکسیجَن کی ضرورت ہو) اس طرح کے کم آکسیجن والے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے، لیکن ایسے ماحول میں گنجے صحرائی چھچھوندر سب سے طویل عرصے تک زندہ رہنے والے چوہوں کی ایک قِسم ہے
اسی طرح کے سائز کا عام چوہا دو سال تک زندہ رہ سکتا ہے، لیکن یہ چھچھوندر تیس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں
چھچھوندر کی کم آکسیجن اور اس جھریوں والی جلد کو دیکھ کر اور ان کے چھوٹے سائز کے تناسب کو انسانی سائز کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ ان سے ملتی جلتی حالت اُن بوڑھے لوگوں کی ہوگی، جن میں ساڑھے چار سو سال کی عمر میں ویسی جُھرّیاں پیدا ہو جاتی ہوں گی
ان کی سب سے انوکھی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ گنجے چھچھوندر کی عمر کتنی ہے، کیونکہ ان میں جسمانی زوال کی محدود علامات ظاہر ہوتی ہیں
اگرچہ انسان آہستہ آہستہ جھریاں، سرمئی، یا دائمی بیماریوں کے لیے زیادہ حساس ہو سکتے ہیں، لیکن اسمِتھ کا کہنا ہے ”عمر بڑھنے کی جو معیاری علامتیں آپ کو زیادہ تر دودھ دینے والے جانوروں یا ممالیہ میں دیکھنے کی توقع کریں گے، وہ ان میں واقعتاً ظاہر نہیں ہوتیں“
ان کے کارڈیک فنکشن، جسم کی ساخت، ہڈی کے معیار یا میٹابولزم میں کوئی خاص تبدیلیاں نظر نہیں آتی ہیں
یونیورسٹی آف کیمبرج میں سمِتھ کی ٹیم تقریباً ایک سو ساٹھ گنجے چھچھوندروں پر مشتمل پانچ کالونیوں کو 60 فیصد نمی پر 30 سیلسیئس کے قریب گرم کمرے میں رکھتی ہے
اسمِتھ کا کہنا ہے ”میرے پاس کیمبرج میں دس سال سے یہ جانور ہیں اور میں نے کبھی بھی کسی جانور کو محض طبعی موت مرتے نہیں دیکھا ہے۔ قید میں ان کی آپس میں لڑائی ان میں کچھ کی موت کا سبب بنتی ہے“
ان کی زیر زمین طرز زندگی ان کے زندہ رہنے کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے، جو ان کی کالونیوں کو سردی، بارش اور آب و ہوا کی انتہا سے بچاتی ہے۔ جنگل میں موت کی سب سے بڑی وجہ سانپ جیسے جانوروں کا شکار کرنا ہے
یہ انسانوں میں موت کی عام وجوہات سے بہت مختلف صورتِ حال ہے۔ اسمِتھ کہتے ہیں ”دو میں سے ایک انسان کو کینسر ہونے کا امکان ہے۔ چوہوں اور ان کی دیگر اقسام میں کینسر ہونے کا امکان یکساں ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس گنجے چھچھوندروں کو کینسر ہونے کا بہت ہی کم امکان ہوتا ہے – ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے“
گنجے چھچھوندروں کے کینسر سے بچنے کی وجہ اب بھی ایک معمہ ہے۔ کئی سالوں کے دوران متعدد نظریے پیش کیے گئے ہیں، سائنسدان ایک مضبوط وضاحت فراہم کرنے کے لیے تاحال کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں
ایک نظریے کے مطابق، گنجے چھچھوندروں میں خاص طور پر ایک اینٹی کینسر میکانزم (کینسر کے خلاف مدافعانہ نظام) کی ایک مؤثر شکل موجود ہوتی ہے، جسے ’خلیاتی بڑھاپا‘ کہتے ہیں – ایک ارتقائی موافقت جو تباہ شدہ خلیوں کو ایک حد سے زیادہ تقسیم ہونے اور کینسر میں بدلنے سے روکتی ہے
ایک اور نظریہ بتاتا ہے کہ گنجے چھچھوندر ایک پیچیدہ ’سپر شوگر‘ خارج کرتے ہیں، جو خلیات کو ایک ساتھ جمع ہونے اور ٹیومر بننے سے روکتی ہے
تازہ ترین تحقیق ان کے جسموں میں اُن منفرد حالات پر مرکوز ہے، جو کینسر کے خلیات کو بڑھنے سے روکتے ہیں
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین تجویز کر رہے ہیں کہ گنجے چھچھوندروں کا مائیکرو ماحولیات کے ساتھ تعامل – کسی خلیے کے ارد گرد موجود خلیات اور مالیکیولز کا پیچیدہ نظام، بشمول مدافعتی نظام – بیماری کو روک رہا ہے، نہ کہ کسی موروثی کینسر کے خلاف مزاحمت کرنے والے طریقہ کار انہیں کینسر سے محفوظ بناتا ہے
کیمبرج یونیورسٹی کے ایک تجربے میں محققین نے 79 مختلف سیل لائنوں (خلیوں کی اندرونی ساخت) کا تجزیہ کیا جو گیارہ انفرادی گنجے چھچھوندروں کی آنت، گردے، لبلبہ، پھیپھڑوں اور جلد کے ٹشوز سے تیار کیے گئے تھے
محققین نے کینسر پیدا کرنے والے جینز متعارف کروانے کے لیے خلیوں کو ان تبدیل شدہ وائرس سے ملایا
ان کے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ متاثرہ گنجے چھچھوندر کے خلیے تیزی سے بڑھنے لگے۔ اس سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ گنجے چھچھوندر کے جسم کا ماحول ہے، جو خلیے (سیل) کی سطح کی خصوصیت کے بجائے کینسر کو بڑھنے سے روکتا ہے
اگرچہ تاحال اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ہے، لیکن اسمِتھ کا کہنا ہے ”ہم جانتے ہیں کہ کینسر بنیادی طور پر ایک تغیر و تبدل (mutation) کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے خلیات ایک بے قابو طریقے سے پھیلتے ہیں۔ بہت سی دوسری انواع کے مقابلے میں گنجے چھچھوندروں میں تغیر و تبدل کی شرح بہت سست ہے“
چھوٹی عمر والے جانوروں میں عام طور پر تغیر و تبدل کی شرح تیز ہوتی ہے لیکن غیر معمولی طور پر گنجے چھچھوندروں کی تغیر و تبدل کی شرح اسی سطح پر ہوتی ہے، جو طویل عرصے تک زندہ رہنے والے دودھ دینے والے جانوروں (ممالیہ) جیسے کہ زرافے کی ہوتی ہے۔
ایک سست تغیر و تبدل کی شرح کا مطلب ہے کہ اس جانور میں ایک مقررہ مدت میں تغیرات پیدا ہونے اور کینسر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے
شاید گنجے چھچھوندر کی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہ درد محسوس نہیں کرتا، یہ اس سے بے نیاز ہے۔
اسمِتھ بتاتے ہیں ”یہ ممکنہ طور پر (ان کے) اعلیٰ کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول میں ارتقائی موافقت کا نتیجہ ہے“
جانور جو سانس لیتے ہیں وہ فضا میں موجود ہوا سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) سے بھرپور ہوتی ہے۔ اگر یہ خارج ہونے والی ہوا زیر زمین سرنگوں میں پھنس جائے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ تر ممالیہ کے لیے، یہ ایک مسئلہ ہوگا۔ اسمتھ کے مطابق ”کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی کے ساتھ رد عمل کے ذریعے کاربونک ایسڈ نامی تیزاب بناتی ہے، جو اعصاب کو متحرک کر کے درد پیدا کر سکتی ہے“
بہت سی سوزش کی بیماریوں میں، جیسے کہ ’ریماٹائیڈ آرتھرائیٹس‘ ٹشوز کی سوجن کے حصے اکثر تیزابیت کا شکار ہو سکتے ہیں اور درد کا باعث بن سکتے ہیں
اسمِتھ کہتے ہیں ”اس کے باوجود گنجے چھچھوندر تیزاب کو تکلیف دہ محسوس نہیں کرتے ہیں، یہ اُس طرح تکلیف محسوس نہیں کرتے ہیں، جس طرح کٹی ہوئی جلد پر لیموں کا رس یا سرکہ چھڑکنے سے تکلیف ہوتی ہے“
اُنہوں نے اِن کی اِس برداشت کی مالیکیولر بنیاد کا مطالعہ کیا ہے اور ایک ایسے جین کی نشاندہی کی ہے، جس کی وجہ سے جسم میں پیدا ہونے والا تیزاب بے ہوشی کی طرح کام کرتا ہے، نہ کہ گنجے چھچھوندر کے اعصاب کو متحرک کرنے کا کام کرتا ہے
برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں فزیالوجی اور میٹابولزم کی پروفیسر گیزلا ہیلفر گنجے چھچھوندر کو انسانی بلوغت کے مطالعہ کے لیے ایک بہترین نمونہ سمجھتی ہیں
مشرقی افریقہ کے ’ڈمارا لینڈ کہلانے والے چھچھوندر‘ (Damaraland mole rat) کے ساتھ ساتھ، گنجے چھچھوندر ’یوسوشل‘ ممالیہ (eusocial mammals) یا اجتماعی حقيقی زندگی بسر کرنے والے جانوروں کی صرف دو مثالوں میں سے ایک ہیں، جن میں جوان اور اگلی نسلیں ایک ہی کالونی میں رہتے ہیں، جہاں صرف ایک مادا چھچھوندر افزائش نسل کی ذمہ دار ہوتی ہے اور باقی ارکان بچوں کی پرورش کے لیے مل کر کام کرتی ہیں
شہد کی مکھیوں کی طرح ایک اعلیٰ درجہ کی ایک ملکہ چھچھوندر ان چھچھوندروں کی کالونی پر راج کرتی ہے، ایک وقت میں ایک سے تین نر چھچھوندر کے ساتھ افزائش نسل کرتی ہے
دوسرے چھچھوندر دیگر قسم کے کردار ادا کرتے ہیں، جیسے کہ وہ کارکن جو کالونی کے بلوں کو اپنے تیز اور لمبے دانت جیسے اوزاروں سے کھودتے ہیں اور کھانے کے لیے چارہ بناتے ہیں، ملکہ کو کھانے کے لیے جڑیں اور دیگر بوٹیاں مہیا کرتے ہیں
ہیلفر بتاتی ہیں کہ عام طور پر ہر کالونی میں ایک زرخیز جوڑا ہوتا ہے اور باقی جانور بلوغت سے نہیں گزرتے ہیں۔ تاہم اگر ایک گنجے چھچھوندر کو اس کی کالونی سے ہٹا دیا جاتا ہے تو یہ فوری طور پر جنسی سٹیرائڈز بنانا شروع کر دے گا اور جانور سنِ بلوغت میں پہنچ جاتا ہے
وہ کہتی ہیں ”انسانوں میں بلوغت سے پہلے کا ایک طویل مرحلہ تقریباً آٹھ سے بارہ سال کے عرصے پر محیط ہوتا ہے۔ جب بچہ بالغ ہے تو اس کے دماغ میں ہارمونز کو متحرک ہوجاتے ہیں، جو جنسی ہارمونز کی پیداوار کا باعث بنتے ہے اور تولیدی نالی کو پختہ ہونے دیتے ہے“ یہ گنجے چھچھوندروں میں بلوغت کے بڑھنے کی عکاسی کرتا ہے، جب کالونی میں ملکہ (غالب مادا) سے ماتحت مادا چھچھوندروں کو الگ تھلگ رکھا جاتا ہے
اس کے برعکس عام چوہے پیدائش کے دو ہفتوں کے اندر خاص طور پر تیزی سے بالغ ہو جاتے ہیں، اس لیے وہ جنسی ہارمونز کے مطالعہ کے لیے ناقص نمونے ہیں
ہیلفر اور دیگر سائنسدان جنسی ہارمونز، خاص طور پر ایسٹروجن اور ٹیسٹوسٹیرون، اور جنسی کروموسوم کے اثر و رسوخ کی تحقیقات کے لیے تیزی سے گنجے چھچھوندروں کی طرف دیکھ رہے ہیں
یہ معلومات طبی علاج جیسے بلوغت مانع عمل، ’ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی‘، ’آئی وی ایف‘ (IVF) اور حیض کے بند ہو جانے کے عمل پر روشنی ڈال سکتی ہیں
ہیلفر کہتی ہیں کہ یہ وہ مسائل ہیں جو ’ابھی صحت کے معاملے میں سب سے آگے ہیں۔‘
بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں گنجے تل چھچھوندر ہیلفر کو اپنی ’ناقابل یقین ذہانت‘ اور چند ’بونکرز‘ (پگلے پن کی) عادات کی وجہ سے اسے متوجہ کرتے ہیں
وہ کہتی ہیں کہ ان کی انتہائی منظم کالونیوں کے اندر، ان کے پاس سونے کے لیے گھونسلے جیسے کمروں اور اپنی رہائش گاہوں کو صاف رکھنے کے لیے بیت الخلا کے کمرے ہیں
جب ان کے بچوں کی پیدائش ہوئی تو وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ کالونی نے گنجے چھچھوندروں کی پرورش کے لیے ایک ’نرسری‘ بنائی ہوئی ہے
ہیلفر بتاتی ہیں کہ وہ (چھچھوندر) ’پیچھے اور آگے یکساں تیزی سے حرکت کرتے ہیں‘ اور اپنی چھوٹی موٹی آنکھوں کو شاذ و نادر ہی استعمال کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ زیر زمین سفر کے لیے سرگوشیوں پر انحصار کرتے ہیں۔‘
گنجے چھچھوندروں کے پاس بھی ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کے منفرد طریقے ہوتے ہیں، مختلف بولیوں کے ذریعے یہ تعین کرتے ہیں کہ کون دوست ہے یا دشمن – بالکل انسانوں کی طرح
ان کی کلاسک ’چرپ‘ کال (مخصوص چہچہاہٹ کی آواز) جانوروں کے گروپ کے لیے منفرد معلومات فراہم کرتی ہے، جس کا ایک مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ جینیاتی طور پر نہیں بلکہ ثقافتی طور پر سیکھتے ہیں۔ شور اکثر ملکہ سے متعلق ہوتا ہے، گود لے کر پالنے والے بچے اس کالونی کے لہجے کو اپناتے ہیں جس نے ان کی پرورش کی ہوتی تھی، جو کہ اگر ملکہ کو تبدیل کر دیا جائے تو بدل سکتا ہے
ایک مطالعہ بتاتا ہے کہ اٹھارہ مختلف آوازیں، جن میں انتباہی آواز، کھانا کھانے کی آواز، اجلاس کے اعلان کی آواز، رفع حاجت کے لیے جانے کی آواز اور ایک جگہ امع ہونے کی آواز شامل ہیں
جب شکاری قریبی خطے میں ہوتے ہیں تو کالونی کے دفاع کے لیے کئی الگ الگ انتباہی آوازوں کا استعمال کیا جاتا ہے
کالونی کے طور پر گنجے چھچھوندروں کا تعاون حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ پائیدار کاشتکاری ہے۔ کھانے کے اوقات میں کالونی کے دوسرے ممبروں کے ساتھ کھانے کے لیے بڑے بڑے پودوں کا زیر زمین تنے، جڑیں اور ’ٹیوبرز‘ (tubers) جیسے میٹھے آلو کو ان کے بلوں میں واپس لانا شامل ہوتا ہے
ہر کھانے کا وزن پچاس کلو گرام تک ہوتا ہے۔ گنجے چھچھوندر پودے کی زہریلی بیرونی تہوں کو ہٹاتے ہیں، ان کا کھانا کھاتے ہیں، اور پھر ان علاقوں کو مٹی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، جس سے ’ٹیوبرز‘ دوبارہ پیدا ہوتے ہیں اور زیرِ زمین سرنگ میں ایک اور کھانا بن جاتا ہے
درحقیقت ان کے پیچیدہ مواصلاتی نظام، طویل زندگی، سماجی ہم آہنگی اور خوراک کے وسائل کے محتاط انتظام کے ساتھ، گنجے چھچھوندروں میں اعلی ذہانت کی مضبوط علامات ظاہر ہوتی ہیں
یہ مخلوقات چند دیگر قابل ذکر خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگرچہ تحقیق محدود ہے، جنوبی افریقہ میں متعلقہ عام اور جنوبی افریقہ کہ چھچھوندروں کی انواع کو ’ایکو سسٹم انجینئر‘ کے طور پر بتایا گیا ہے
ڈارلنگ میں کیپ ٹاؤن سے ساٹھ کلو میٹر شمال میں ’وے لینڈ فلاور ریزرو‘ (Wayland Flower Reserve)، حیاتیاتی تنوع کے لیے دنیا کے اعلیٰ درجہ کی جگہوں میں سے ایک ہے – جو جنگلی پھولوں، شہد کی مکھیوں اور کیڑوں سے بھری ہوئی ہے
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف پریٹوریا میں اپنی پوسٹ ڈاکٹریٹ کے ایک حصے کے طور پر، نکول ہیگناہ نے علاقے کی میعاری اور زرخیز زمینوں میں بہتری پیدا کرنے میں دو مختلف چھچھوندروں کی انواع، عام اور کیپ چھچھوندروں کے کردار کا مطالعہ کیا
اپنے مطالعے میں، جو تین سال پر محیط تھا، اس نے ان کی زیرِ زمین سرنگوں کو بناتے ہوئہ یہ دیکھا کہ ان دو چھچھوندروں کی نسلوں نے کھدائی کی گئی مٹی کو سطح پر ٹیلے کے طور پر جمع کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کیا
سطح پر موجود مٹی کے مقابلے ان ٹیلوں میں غذائیت کی سطح زیادہ تھی، خاص طور پر نائٹروجن۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں یقین ہے کہ یہ زمین کے نیچے کی مٹی کی وجہ سے ہُوا جس میں گلے سڑے پودوں کے مواد اور ممکنہ طور پر گوبر اور پیشاب شامل تھا۔‘ ٹیلے کی مٹی بھی اردگرد کی مٹی سے کم سخت تھی
لہٰذا کیپ اور عام چھچھوندروں نے پودوں کی دو طریقوں سے مدد کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سب سے پہلے پودوں کو بڑھنے کے لیے غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے، اور پودوں کے لیے سب سے اہم غذائی اجزا میں سے ایک نائٹروجن ہے۔
’دوسرے کم سخت (کمپیکٹ) ٹیلے کی مٹی نے پانی کو زمین میں آسانی سے داخل کرنے کے قابل بنایا ہو گا، جو اس کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ پودوں کو جیسے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
حیاتیاتی طور پر دماغ کو حیران کرنے والے گنجے چھچھوندر کی طرح، وہ دیکھ بھال کرنے اور کام کرنے کے لیے سب سے آسان انواع نہیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں نسبتاً کم تحقیقی گروپ اس ناقابل یقین انواع کا مطالعہ کرتے ہیں
اسمِتھ کا کہنا ہے ”اگرچہ ان کی انتہائی حالت کی زندگی یا حیاتیات بہت دلچسپ ہے، اور بہت اچھی بصیرت فراہم کرتی ہے، لیکن ہر کسی کے لیے اس نوع کے لیے اپنی تحقیق کی سہولت قائم کرنا آسان نہیں ہے“
گرم اور مرطوب ماحول کو نقل کرنے کے انتظامات کے علاوہ، گنجے چھچھوندر کی زندگی کا دورانیہ (لائف سائیکل) عام چوہوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر بچے کو جنم دینے میں پچھتر دن لگتے ہیں اور افزائش نسل کا صرف ایک جوڑا ہوتا ہے – جس کے نتیجے میں تجربات کی منصوبہ بندی کرتے وقت طویل انتظار کا وقت ہوتا ہے
اس وجہ سے اسمِتھ نے ’گنجے چھچھوندروں کی افزائش‘ کا ایک منصوبہ (Naked Mole-Rat Initiative) قائم کیا، تاکہ دوسرے طبی شعبوں، جیسے کہ کینسر کے ماہرین کے ساتھ تعاون کیا جا سکے، اور تحقیق کی نئی سمتوں میں مدد دیے کے لیے ان کے منصوبے کے چھچھوندروں کو استعمال کیا جا سکے
اسمِتھ کا کہنا ہے کہ اگر سائنسدان اس بات کا پتہ لگا لیتے ہیں کہ یہ انتہائی ماحول میں زندہ رہنے والے ممالیہ ایک طویل صحت مند زندگی کیوں جیتے ہیں تو وہ اس علم کی روشنے میں اس سے علاج، یا ایسی دوائیوں ’تیار‘ کرسکتے ہیں، جن سے کینسر پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور ان انتہائی غیر معمولی جانوروں کی چھان بین کے دیگر فوائد بھی ہو سکتے ہیں، جن میں سے کچھ کا ابھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں بی بی سی فیوچر میں شائع فرینکی ایڈکِنز کے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے۔