بل وصولی۔۔ پاکستانی پاور ڈسٹریبیوشن کمپنيوں ميں بھی فوجی تعينات

ویب ڈیسک

پاکستانی وزارت توانائی نے ان اطلاعات کی تصديق کی ہے کہ بجلی کی چوری روکنے اور بلوں کی وصولی کے نظام کو بہتر بنانے کے ليے بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں میں فوج، وفاقی تحقيقاتی ادارے اور انٹیلیجنس بیورو کے افسران کو تعينات کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب مزدور رہنماؤں اور تجزيہ کاروں نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی فوجی افسران کو مختلف اداروں میں تعينات کرنے سے کارکردگی بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں، بلکہ اس سے مسائل اور بڑھیں گے

واضح رہے کہ حکومتی ذرائع نے حال ہی میں ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیاں اربوں روپے کی بدعنوانی، بجلی کی چوری اور وصولی کے غير موثر نظام جيسے مسائل کی زد ميں ہيں

سيکرٹری توانائی راشد محمود نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مذکورہ تعیناتیاں کی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق ”ہماری وزارت کی جانب سے وزارتِ دفاع سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس مقصد کے ليے فوجی افسران نامزد کرے۔ يہ تجویز کابینہ کو بھی بھیج دی گئی ہے‘‘

راشد محمود کا مزيد کہنا تھا، ”اس کے علاوہ ایف آئی اے اور آئی بی کے افسران کو بھی تعينات کيا جائے گا کیونکہ ہمارا مقصد اربوں روپے ماليت کی بجلی کی چوری کو روکنا ہے۔ اس پر وزارت کافی عرصے سے کام کر رہی ہے اور کئی بے ضابطگياں پکڑی بھی گئی ہیں۔ یہ افسران نگرانی کا کام کریں گے‘‘

فی الحال يہ واضح نہيں ہے کہ حاضر سروس افسران کو تعينات کيا جائے گيا يا ريٹائرڈ افسران کو۔

دريں اثناء بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں میں بھی مختلف ذرائع کا کہنا ہے کہ فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی، فوج اور انٹیلیجنس بیورو کے افسران کو کمپنیوں میں تعينات کیا جا رہا ہے

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی میں پیغام یونین کے سابق عہديدار قیصر خان نے بتایا ”ہماری کمپنی کو نوٹیفيکیشن موصول ہوا ہے، جس میں ايف آئی اے افسران کے نام اور عہدے درج ہیں۔ اطلاعات ہيں کہ فوجی افسران کو بھی بھیجا جائے گا۔‘‘

قیصر خان کے مطابق اس فيصلے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس سے وصولی کا نظام بہتر ہوگا اور بجلی کی چوری کم کرنے ميں مدد ملے گی۔

قیصر خان بجلی کی چوری کی وجہ بجلی کی زیادہ قيمت کو قرار دیتے ہیں ”اس وقت بجلی کے نرخ پچاس روپے فی یونٹ ہيں۔ اگر کوئی غریب آدمی ايک سو یونٹ بجلی استعمال کرتا ہے تو اس کا بل پانچ ہزار سے زیادہ آتا ہے۔ جب تک بجلی کو سستا نہیں کیا جاتا، اس کی چوری کو روکنا بہت مشکل ہے‘‘

پاکستان مزدور محاذ کے سیکرٹری جنرل شوکت چودھری کہتے ہیں کہ ديگر اداروں کے افسران کے لیے ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے تکنيکی مسائل کو سمجھنا مشکل ہے ”چونکہ وہ اس نوعيت کے مسائل کو سمجھ نہیں سکتے، ان کے ليے مسائل کا حل تلاش کرنا بھی مشکل ہوگا۔ ایسے افسران کو بھيج کر حکومت صرف پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے اخراجات میں اضافہ کرے گی، کیونکہ ان کو مراعات اور دوسری سہولیات ان کمپنیوں سے ہی ملیں گی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں اور دوسرے اداروں میں فوجی افسران کو بھیجا گیا، لیکن اس سے ان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑا

شوکت چودھری نے يہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ فوج کو بھیجنے کا مقصد یونینوں کے کام کو روکنا ہے۔ ”ماضی میں بھی یونین کے کام کو روک کر نجکاری کی گئی اور مجھے لگتا ہے کہ اب بھی ایسا ہی کیا جائے گا‘‘

شوکت چودھری کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بجلی کے حوالے سے مالی خسارے کا سبب ‘انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز‘ یا بجلی بنانے والی نجی کمپنیاں ہیںن ”ان کمپنیوں سے ہم نے بہت گھاٹے والے معاہدے کیے ہیں اور اب وہ بجلی ايک سو میگا واٹ بناتے ہیں مگر معاوضہ ايک ہزار میگا واٹ کا لیتے ہیں‘‘

پاکستان کے معروف اقتصادی ماہر قیصر بنگالی، شوکت چودھری کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کمپنیوں کے معاہدے کی معیاد ختم نہیں ہوتی، اس وقت تک پاور ڈسٹریبیوشن کمپنيوں اور اداروں کے مالی خسارے ميں کمی ممکن نہیں۔

قیصر بنگالی کہتے ہیں ”حکومت نے اس کی گارنٹی دی ہوئی ہے، جب کہ لاگت پر بھی ان کو منافع دیا جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے ان سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی اور اس سے کم از کم یہ ہوا کہ اب ڈالر کی جگہ ہم انہیں روپے میں ادائیگی کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے یا تو دوبارہ بات چیت کی جائے یا پھر ان کمپنیوں کے معاہدے کی معیاد ختم ہونے کا انتظار کیا جائے‘‘

قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ اگر فوج افسران کی تعيناتی سے مختلف اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی، تو وہ کہیں نہ کہیں نظر آتی۔ ”واپڈا کے چیئرمین بھی ایک لیفٹیننٹ جنرل ہيں، جو کئی برسوں سے اس عہدے پر ہيں۔ اس کے علاوہ اسٹیل ملز اور یونیورسٹیوں میں بھی فوجیوں کو وائس چانسلر اور ديگر عہدے ديے گئے، لیکن کیا آپ کو وہاں کوئی بہتری نظر آئی؟‘‘

قیصر بنگالی کے مطابق، ”فوج کے افسران کو ان اداروں میں بھیجنے کا مقصد صرف فوجی کنٹرول کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close