تہذیب، تمدّن اور ثقافت میں فرق کیا ہے؟

عبدالخالق بٹ

تھا ہمیں سے کبھی تہذیب و تمدّن کا وقار،
ہم کبھی شاخِ گلِ تر، کبھی تلوار بھی تھے

شعر ’اقبال انجم‘ کا ہے، جس میں وہ شاخ و شمشیر کے بل پر تہذیب و تمدن کی آبیاری کا احوال سنا رہے ہیں، پر ہمیں سننے سے زیادہ سُنانے میں دلچسپی ہے، سو آگے بڑھتے اور ’تہذیب و تمدن‘ کے ساتھ ساتھ ’ثقافت‘ کی بات کرتے ہیں۔

’تہذیب، تمدّن اور ثقافت‘ تینوں عربی الاصل الفاظ ہیں، اپنے لفظی معنی میں فرق کے باوجود ان الفاظ کے درمیان جُزوی اشتراک انہیں باہم مترادف بنا دیتا ہے۔ آسان لفظوں میں کہیں تو گاہے تمدّن کو تہذیب کے اور تہذیب کو ثقافت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ تہذیب کے لغوی معنی ’کھجور کے درخت سے چھال اتارنا یا صاف کرنا‘ کے ہیں۔ ان معنی کی رعایت سے اس لفظ میں ’آراستگی، شائستگی، اصلاح، ادب و آداب اور ترتیب و تدوین‘ کا مفہوم پیدا ہوا، یوں ذہنی ترقی، طرزِ معاشرت اور ’تمدّن‘ کو بھی ’تہذیب‘ کہا گیا۔

معنی کی اسی رعایت سے ذہنی و قلبی اصلاح یا صفائی کو ’تہذیب باطن‘، جب کہ طرزِ معاشرت کی معنی میں مغربی طرز بود و باش کو ’مغربی تہذیب‘ پکارا گیا، اور اس کے متعلق علامہ اقبال نے آگاہ کیا:
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب،
کہ رُوح اس مَدنِیّت کی رہ سکی نہ عفیف

تہذیب کے ایک دقیق تر معنی ’وہ معاشرتی طرزِ عمل ہے، جس کی پُشت پر شعوری یا لاشعوری طور پر کوئی مذہبی عقیدہ کار فرما ہو۔‘ اب ان معنی کو ذہن میں رکھیں اور انگریزی لفظ سوِلائزیشن (Civilisation) پر غور کریں جو موقع کی مناسب سے کبھی ’تہذیب‘ کا ترجمان ہوتا ہے اور کبھی ’تمدّن‘ کا قائم مقام بن جاتا ہے۔ مثلاً اسے تمدّن کے معنی میں فرانسیسی مصنف ’گستاؤ لی بان‘ کی کتاب The Civilisations of India میں دیکھا جا سکتا ہے، جس کا ترجمہ ’تمدّنِ ہند‘ کیا گیا ہے۔ جب کہ عقیدے کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے معاشرے کے معنی میں Civilisation کو امریکی مصنف سمیول پی۔ ہنٹنگٹن کی کتاب The Clash of Civilizations میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جس کا ترجمہ ’تہذیبوں کا تصادم‘ کیا گیا ہے۔

عربی میں ’شہر‘ کو ’مدینہ‘ کہتے ہیں، اسی سے ’مَدَنَت مَدِیَنٗہ‘ ہے، جس کے معنی شہر آباد کرنے کے ہیں۔ ’تمدّن‘ کا لفظ اسی ’مدینہ‘ سے متعلق ہے۔ فرہنگ ہائے فارسی تمدّن کے معنی اور مترادفات کو ’شہر نشینی، مدینت اور شہری طرزِ معاشرت سے آشنائی‘ کے علاوہ ’ثقافت‘ کے الفاظ میں بیان کرتی ہیں۔

اس سے پہلے کہ لفظ ’ثقافت‘ سے بحث کی جائے، لفظ ’مدینہ‘ سے متعلق یہ جان لیں کہ عربی میں ’مدینہ‘ مطلق شہر کو کہتے ہیں، تاہم جب ’ال‘ کی تخصیص کے ساتھ ’المدینۃ‘ کہا جائے تو اس سے مراد ’شہر رسولؐ‘ کے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آغاز میں ’یثرب‘ چند چھوٹی چھوٹی بستیوں کے مجموعے کا نام تھا، تاہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شہر کی جانب ہجرت کے بعد اسے ’مدینۃ الرسول‘ یعنی ’شہرِرسولؐ‘ پکارا گیا، جو بعد میں ’المدینۃ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں عام طور پر ’مدینہ‘ سے مراد ’مدینہ منورہ‘ لیے جاتے ہیں، اور ’شہرِ مدینہ‘ بھی پکارتے ہیں۔ دیکھیں شاعر رحیم اللہ شاد کیا کہہ رہے ہیں:
اگر گزرے گی میری زندگی شہر مدینہ میں،
عبادت کے لئے اے شادؔ ان کا آستاں ہوگا

جو مدینہ المنورہ سے منسوب ہو اسے ’مدنی‘ کہتے ہیں، اس کے برخلاف ’مدینہ المنصور‘ کی جانب منسوب ’مدینی‘ اور ’مدینہ کسریٰ‘ سے نسبت رکھنے والے کو ’مدائنی‘ کہا جاتا ہے۔

اب ’ثقافت‘ کا ذکر ہوجائے کہ گھوم پھر کر اس کا تعلق ’تہذیب و تمدن‘ سے جڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس طرح انگریزی میں ’تہذیب‘ اور ’تمدن‘ کو ’سولائزیشن‘ کہتے ہیں، ایسے سنسکرت میں تہذیب اور ثقافت ہر دو کے لیے سنسکرتی/ संस्कृति کا لفظ آیا ہے۔ سنسکرت کا سا معاملہ اردو کا بھی ہے، چنانچہ ایک معروف اردو لغت ’ثَقافَت‘ کے ضمن میں وضاحت کرتا ہے:
’کسی قوم یا گروہِ انسانی کی تہذیب کے اعلیٰ مظاہر جو اس کے مذہب، نظام اخلاق، علم و ادب اور فنون میں نظر آتے ہیں۔‘

اس کے بعد لغت نویس نے مزید وضاحت کے لیے لفظ ’تہذیب‘ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

’ثقافت‘ لفظ ’ثقف‘ سے مشتق ہے، جب کہ ’ثقف‘ کے لفظی معنی ’کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں مہارت سے کام لینے کے ہیں۔‘

اسی لیے عربی میں ’حاذق و ماہر ہونا‘، ثَقِفُ العِلمَ والصِّناعةَ کہلاتا ہے۔ اور تعلیم و تربیت حاصل کرنے کو تَثَقَّف في مدرسة کہا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ’ثقف‘ سے بننے والے الفاظ مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں، جن میں ہتھیاروں سے کھیلنے سے لے کر ذہانت اور سمجھداری سمیت دسیوں معنی شامل ہیں۔ اس لیے بخوفِ طوالت، اس قصے کو تمام کرتے اور ثقافت کی رعایت سے ’خواجہ ربانی‘ کے شعر کا لطف اٹھاتے ہیں، جو کہہ گئے ہیں:
حکومت ہے نہ شوکت ہے نہ عزت ہے نہ دولت ہے،
ہمارے پاس اب لے دے کے باقی بس ثقافت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

کچے کے ڈاکو کاروبار یا محبت کا جھانسہ دے کر کیسے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں؟

ساجد علی کے موبائل کی گھنٹی بجی اور سامنے سے زنانہ آواز میں بات کا آغاز ہوا اور تاثر دیا گیا، جیسے یہ رانگ نمبر ہے۔ بعد میں اسی نمبر سے روزانہ کالز آنے لگیں اور گھنٹوں بات چیت ہونے لگی چندہ ماہ میں اس رومانوی کہانی نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا، جب ساجد کو کزن کے ساتھ اغوا

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close