جسم کی چربی اور گَنّے کی شکر کے ایندھن سے جہاز اڑانے کا خواب۔۔۔ مشکلات اور امکانات

ویب ڈیسک

یہ کوئی عام سیلفی نہیں، جس میں ورجن اٹلانٹک کے چیئرمین رچرڈ برانسن تھمبز-اپ کا اشارہ کرتے ہوئے مسکراتے نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسے طیارے میں دورانِ پرواز لی گئی تصویر ہے، جو سو فیصد بائیو گیس ایندھن پر ہواؤں کا سینہ چیرتے ہوئے محوِ سفر تھا۔ یہ بحرِ اوقیانوس کو عبور کرنے والا دنیا کا پہلا تجارتی طیارہ بنا، جو اس وقت نیویارک میں اترا تھا

ورجن اٹلانٹک کا بوئنگ 787 طیارہ پیٹرول کی بجائے پودوں میں موجود شوگر (جیسے کہ گنا) اور فضلے کی چربی سے تیار ایندھن سے چلایا گیا تھا۔ یہ ایندھن پائیدار ایوی ایشن فیول (ایس اے ایف) کی ایک شکل ہے

جس سیلفی کے ذکر سے ہم نے اس کہانی کی ابتدا کی ہے، وہ
برطانیہ کے رکن پارلیمان نے لی تھی، ان کے ساتھ اپنی مسکراتی ہوئی سیلفی سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے رچرڈ برانسن نے اس پرواز کو ’برطانیہ کی ہوا بازی کی ایک اہم کامیابی‘ قرار دیا۔ واضح رہے کہ اس پرواز کو جزوی طور پر برطانیہ کی حکومت نے فنڈ کیا تھا

اگرچہ یہ ایک تاریخی سنگ میل ہے لیکن ابھی تک بائیو فیول پر طیاروں کی پرواز کی اس کی مکمل کامیابی اس حد تک یقینی نہیں ہے

ماہرین جانتے ہیں کہ بائیو ایندھن بنانے کے لیے حیاتیاتی ذرائع کی ایک وسیع رینج درکار ہے، جن میں پودے، خراب کھانے حتی کہ الگئی یعنی کائیاں بھی شامل ہیں۔ جب بائیو ایندھن کو جلایا جاتا ہے تو یہ کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتے ہیں۔ بعض سائنسدان انھیں ایک پائیدار آپشن سمجھتے ہیں کیونکہ وہ قابل تجدید ہوتے ہیں اور جب بائیوماس بڑھتے ہیں تو وہ ماحول سے کچھ کاربن کو کم کرنے کا کام کرتے ہیں

مسئلہ بہت زیادہ ایندھن استعمال کرنے والی ہوابازی کی صنعت کو طاقت دینے کے لیے درکار بائیو ماس کا حجم ہے

اگست میں شائع ہونے والے ایک علمی مقالے میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ اگر آپ تجارتی طیاروں کے لیے بائیو فیول بنانے کے لیے گنے اگانے اور اس کا استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو آپ کو 125 ملین ہیکٹر (482,000 مربع میل) زمین کی ضرورت ہو گی جو کیلیفورنیا، اوریگون، واشنگٹن، نیواڈا اور لوزیانا کے مجموعی رقبے کے برابر ہو گی یا یوں کہیں کہ پورے پاکستان کے سوا گنا رقبے سے زیادہ کی ضرورت ہوگی

اس کا مطلب بہت زیادہ زمین ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ صرف بائیو ماس کے فضلہ کے ذرائع کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بھی دنیا بھر کا فضلہ دنیا کے تمام طیاروں کو ہوا میں رکھنے کے لیے کافی نہیں ہوگا

ایئر لائن انڈسٹری اس وقت تقریباً 3.5 فیصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار ہے، جو جاپان جیسے ملک کے اخراج کے برابر ہے اور یہ دنیا کے سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے شعبے میں سے ایک ہے

مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر ڈیوڈ لی کہتے ہیں کہ ’وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کافی اہم ہے۔ وہ صرف یہ بتا رہے ہیں کہ یہ پرواز بالکل محفوظ ہے، ایندھن کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔‘

ڈیوڈ لی نے آب و ہوا پر ہوا بازی کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے اور ایس ایف ایندھن کی طرف جانے کے امکان پر ایک مقالے کے شریک مصنف ہیں

لی کا کہنا ہے ”ایس اے ایف کی جانب منتقل ہونے سے آپ کاربن کے اخراج کو تقریباً 70 فیصد تک کم کر سکتے ہیں۔ بہرحال یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آپ کون سے حیاتیاتی ایندھن استعمال کر رہے ہیں“

لی نے نوٹ کیا کہ بین الاقوامی ضوابط فی الحال 50 فیصد سے زیادہ ایس اے ایف بطور ایندھن استعمال کرنے والی پروازوں کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور اس کے لیے ورجن اٹلانٹک کو بحر اوقیانوس کے پار جانے کے لیے برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے خصوصی اجازت نامہ لینا پڑا

یہ سب اس ایندھن کے کامیاب تصور کے شواہد ہیں لیکن آج سو فیصد ایس اے ایف کے ساتھ ایک سے زیادہ پرواز کو ایندھن فراہم کرنا مشکل ہوگا

لی کہتے ہیں ”آپ اس ایندھن کو باآسانی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر آپ انجن کو ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں تو بھی اس ایندھن کو خریدنے میں دشواری ہے“

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے ورجن اٹلانٹک بھی تسلیم کرتا ہے۔ استعمال ہونے والے تمام ہوا بازی کے ایندھن کا صرف 0.1 فیصد ایس اے ایف ایندھن ہے

انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے پیشگوئی کی ہے کہ ایئر لائن انڈسٹری کو سنہ 2050 تک 450 ارب لیٹر ایس اے ایف ایندھن کی ضرورت ہو گی جبکہ سنہ 2022 میں صرف 300 ملین لیٹر ایس اے ایف ایندھن پیدا ہوا تھا

تاہم آج تک ایس اے ایف نے سینکڑوں پروازوں کو ایندھن فراہم کرنے میں مدد کی ہے، کم از کم جزوی طور پر ہی سہی

امریکہ میں ایس اے ایف کی پیداوار 2030 تک سالانہ 2.1 ارب گیلن (7.9 ارب لیٹر) تک پہنچنے کا تخمینہ ہے جو کہ صدر بائیڈن کے اس سال تک سالانہ 3 ارب گیلن (11.3 بلین لیٹر) ایندھن پیدا کرنے کے ہدف سے بہت کم ہے

ایس اے ایف کی پیداوار کو بڑھانا مشکل ہے۔ رواں سال کے شروع میں شائع ہونے والی رائل سوسائٹی کی ایک رپورٹ میں لی اور ان کے ساتھیوں نے تجارتی پروازوں کے لیے برطانیہ کی اپنی ایس اے ایف پیدا کرنے کی صلاحیت کا تجزیہ کیا

انھوں نے بتایا ”ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کے لیے واقعی کافی زمین نہیں تھی“

مینجمینٹ کنسلٹینٹ میک کینسی اینڈ کمپنی کا تخمینہ ہے کہ دنیا بھر میں زمین کا مقابلہ سخت ہے اور ہمیں عالمی سطح پر سنہ 2030 تک اضافی 70-80 ملین ہیکٹر زمین کی ضرورت ہو گی جو کہ امریکی ریاست ٹیکساس سے بڑا علاقہ ہے

اس نئی فصلی زمین کی اکثریت (70فیصد) تو مویشیوں کے کھانے کے لیے فصلیں اگانے کے لیے درکار ہے۔ میک کنسی کے مطابق مطلوبہ کل رقبے کا صرف 10 فیصد بائیو فیول کی پیداوار کی طرف جائے گا

مثال کے طور پر ایس اے ایف کا کچھ حصہ فضلے کی چربی سے آتا ہے اور کچھ کھانے کی اشیا بنانے کے سلسلے سے آتا ہے۔ اس طرح کے ذرائع پر انحصار سے نظریاتی طور پر ہی سہی حیاتیاتی ایندھن بنانے کے لیے فصلوں کی کاشت کو بڑھانے کی ضرورت کو کم کر سکتا ہے

آئرلینڈ کے یونیورسٹی کالج کارک کی حنا ڈالی کا کہنا ہے کہ لیکن اس کے لیے بہت کم فضلہ دستیاب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ جمہوریہ آئرلینڈ میں دستیاب تمام بائیوماس فضلہ کو بھی جمع کر لیں تو وہ ملک میں استعمال ہونے والے تقریباً فوسل ایندھن کا صرف چار فیصد ہوگا

وہ بتاتی ہیں کہ دوسرے ممالک میں بھی صورتحال کچھ اسی قسم کی ہوگی

ڈالی کا کہنا ہے ”اس بات کا کافی خطرہ ہے کہ اس ’بیکار کوکنگ آئل‘ کو دھوکہ دہی کرتے ہوئے پھر سے ورجن پام آئل کا لیبل لگا کر فروخت کیا جا سکتا ہے۔ یہ جنگلات کی کٹائی میں حصہ ڈال سکتا ہے“

بہرحال ایس اے ایف کے کچھ متبادل میں ہائیڈروجن فیول اور الیکٹریفیکیشن یعنی بجلی کی توانائی شامل ہیں لیکن فی الحال بڑی تجارتی پروازوں کے لیے یہ قابل عمل آپشنز نہیں

انٹرنیشنل کونسل آن کلین ٹرانسپورٹیشن (آئی سی سی ٹی) کی سینیئر محقق چیلسی بالڈینو اور ان کے ساتھیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ برطانیہ میں فضلہ کے ذرائع سے تیار کردہ ایس اے ایف سنہ 2030 تک برطانیہ کے جیٹ ایندھن کی زیادہ سے زیادہ 15 فیصد طلب کو پورا کر سکے گا

آئی سی سی ٹی کا یہ بھی تخمینہ ہے کہ مکنہ طور پر سنہ 2030 تک امریکہ میں صرف 3.3 سے 4.2 ارب گیلن ایس اے ایف مقامی طور پر تیار کیا جا سکتا ہے جبکہ 2019 میں امریکی ایئر لائنز نے 23 ارب گیلن جیٹ فیول استعمال کیا تھا

برطانیہ کی لیڈز بیکٹ یونیورسٹی میں ماہر معاشیات جوش موس نے ورجن اٹلانٹک کی ایس اے ایف پرواز کو ’گرین واشنگ‘ قرار دیا

ان کا کہنا ہے ”بہتر ہوگا کہ عالمی سطح پر پروازوں کی مانگ کو کم کیا جائے“ ان کے مطابق ایسا شاید اکثر پرواز کرنے والوں پر ٹیکس لگا کر یا ایئر لائن انڈسٹری پر ٹیکس بڑھا کر ہو سکتا ہے۔

مسٹر موس تسلیم کرتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات ’سیاسی اور سماجی طور پر ناگوار ہیں‘ لیکن وہ اور ڈالی دونوں تجویز کرتے ہیں کہ اگر ہم خالص صفر کاربن اخراج کے اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہو سکتے ہیں

ورجن اٹلانٹک کے ترجمان کا کہنا ہے ”ہم نیٹ زیرو کے سنہ 2050 کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور وہاں تک پہنچنے کے لیے عبوری اہداف مقرر کیے ہیں، جس میں 2030 تک 10 فیصد پائیدار ایوی ایشن فیول بھی شامل ہے“

انھوں نے کہا کہ لندن سے نیویارک کے لیے صد فیصد ایس اے ایف فلائٹ کا مکمل انحصار فضلے کے بائیو ماس پر تھا اور یہ کہ آنے والے برسوں میں ایس اے ایف کے استعمال کو بڑھانے کے لیے فرم کی کوششوں میں یہ پرواز ’ایک اہم قدم ہے لیکن حتمی مقصد نہیں۔‘

کچھ لوگوں کو اس پر ابھی شکوک و شبہات ہیں اور ڈالی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ نشاندہی کرتی ہیں کہ اگر ایس اے ایف ہوا بازی کے مقاصد کے لیے ایندھن کے بڑھتے ہوئے تناسب کی جگہ لے بھی لیتا ہے تو مجموعی فائدہ تیزی سے بڑھتی ہوئی ایئر لائن انڈسٹری سے ختم ہو سکتا ہے

یورپی فضائی تحفظ کے ادارے یوروکنٹرول کی پیشگوئی ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا بھر میں پروازوں کی سالانہ کل تعداد 16 ملین تک پہنچ جائے گی اور یہ سنہ 2019 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ ہے۔

ڈالی کہتی ہیں ”میں احساسِ جرم سے پاک پرواز کرنا پسند کروں گی، لیکن یہ ممکن نہیں!“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close