غزہ کی پٹی میں ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر تانیہ حاج حسن صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے کہتی ہیں ”غزہ کی پٹی کے لیے ایک مخفف منفرد تو ہے، مگر حالات کی عکاسی کرتا ہے، یہ مخفف ہے ’ڈبلیو سی این ایس ایف‘ جس کے معنی ہیں ’ونڈڈ چائلڈ، نو سروائونگ فیملی‘ ہے یعنی ’زخمی بچہ، جس کے خاندان میں اب کوئی بھی زندہ نہیں۔“
یہ اظہار غزہ کے بہت سے بچوں کے لیے صورتحال کی ہولناکی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی زندگی ایک سیکنڈ میں بدل جاتی ہے، ان کے والدین، بہن بھائی اور خاندان کے تمام افراد اسرائیلی بمباری میں اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں، اور کچھ بھی دوبارہ پہلے جیسا نہیں ہوتا۔۔ سب ختم ہو جاتا ہے۔۔
دوسری طرف امریکا کی منافقت کی انتہا یہ ہے کہ بشمول بچوں کی بھاری تعداد کے، سترہ ہزار فلسطینیوں کی شہادت کے بعد اب رسمی سی مذمت کر رہا ہے، لیکن وہیں وہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو بھی کر رہا ہے۔۔ ایسے میں اقوام متحدہ کا کردار کسی تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں بچا
حد تو یہ ہے کہ غزہ، جہاں موت برس رہی ہے، خوراک کی شدید قلّت کا شکار ہے اور بچے جہاں اسرائیلی بمباری سے جانیں گنوا رہے ہیں، وہیں بھوک بھی ان سے ان کی زندگیاں چھین رہی ہے۔۔ کھانے کو ترستے اور بھوک سے بلکتے ان بچوں کے لیے اقوامِ متحدہ نے ’کمال مہربانی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’کھانے کی طرح نظر آنے والے کھلونے‘ بھیجے ہیں
فلسطینی صحافی محمد سمری نے ایک تصویر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے بچوں کو کھانے کی طرح نظر آنے والے کھلونے دیے جارہے ہیں۔
حساس دل رکھنے والے انسان اقوام متحدہ کی اس ’مہربانی‘ کو بھوکے اور زخمی بچوں کا مذاق اڑانے سے تعبیر کر رہے ہیں
گزشتہ روز فلسطینی صحافی محمد سمری نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر ایک تصویر شئیر کی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کھانے کی طرح نظر آنے والے کھلونے شاپر میں پیک کیے گئے ہیں
کھلونوں میں مصنوعی چکن نگٹس، دودھ کا پیکٹ، فرنچ فرائز، برگر اور آئس کریم پیک ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں
فلسطینی صحافی نے کیپشن میں لکھا ”ہمارے بچوں کو کھانا دینے کے بجائے اقوام متحدہ کھانے کی طرح دکھنے والے کھلونے دے رہا ہے!“
صحافی کی اس ٹوئٹ پر صارفین نے انتہائی دکھ اور شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا یہ انتہائی فضول مذاق کرنے کا خیال اقوام متحدہ کا ہے؟
صارفین نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ”کیا یہاں کوئی مقابلہ ہو رہا ہے کہ بدترین سلوک کرنے میں کون سی تنظیم سب سے زیادہ نیچے گر سکتی ہے؟“
ایک صارف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ”غزہ کے لوگ پہلے ہی فاقہ کشی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔“
ایک اور صارف نے لکھا کہ غزہ کی خوف ناک صورت حال کے بارے میں لوگوں کو اندازہ نہیں ہے، غزہ میں اس وقت قحط انسانوں کی پیدا کردہ ہے
انہوں نے کہا یہ نسل کشی کا سامنا کرنے والے لاکھوں لوگوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ غزہ کی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے، جہاں 23 لاکھ سے زائد آبادی کو اسرائیل کی بدترین بمباری کا سامنا ہے، پانی، بجلی اور ادویات ختم ہو رہی ہیں اور غزہ کے اندر کی صورت حال کو اقوام متحدہ نے ’تباہی‘ قرار دیا تھا۔
یکم دسمبر کو ایک ہفتہ طویل جنگ بندی کے خاتمے کے بعد مصر سے امدادی ٹرک کی داخلے کی تعداد میں کمی کی وجہ سے بھی صورتحال سنگین ہو گئی ہے
عرب میڈیا کے مطابق بجلی کی بندش اور ضروری سامان کی کمی نے غزہ کی پٹی میں غذا کی شدید قلّت پیدا کر دی ہے
دوسری جانب اسرائیلی اور فلسطینی میڈیا نے ایسی وڈیوز جاری کی ہیں، جن میں اسرائیلی فوج کی حراست میں موجود متعدد فلسطینی شہریوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جارہا ہے
ان وڈیوز میں دِکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے درجنوں فلسطینی شہریوں کو شدید سردی میں کپڑے اتار کر اُن کی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھوں کو باندھ کر کھلے مقامات پر بٹھایا ہوا ہے
اسرائیلی فوج نے ناصرف مغوی فلسطینیوں کو کھلے مقامات پر بٹھایا بلکہ اُنہیں کپڑوں کے بغیر ہی ٹرکوں میں اسرائیل بھی منتقل کیا۔
زیرِ حراست فلسطینیوں کا تعلق غزہ کے مختلف علاقوں سے ہے، جن میں بزرگ اور نوجوانوں کے علاوہ بچے بھی شامل ہیں
یہ وڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد حماس کے سیاسی ونگ کے ایک رکن اسامہ حمدان نے معصوم فلسطینی شہریوں کے ساتھ اسرائیلی فوج کی بدسلوکی کی مذمت کی جبکہ اغوا کیے جانے والے فلسطینی شہریوں کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے بتایا کہ ان کا حماس یا کسی دوسرے گروپ سے کوئی تعلق ہے
دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ترجمان سے جب ان تصاویر اور وڈیوز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دعویٰ کیا ”دہشت گرد ہتھیار ڈال رہے ہیں۔“
تاہم، لندن کے ایک خبررساں ادارے نے تصدیق کی کہ تصاویر میں نظر آنے والے فلسطینی قیدیوں میں اُن کا نامہ نگار بھی شامل ہے، جو غزہ میں اپنی صحافت کے فرائض سرانجام دے رہا تھا
واضح رہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک اسرائیل کے حملوں میں اب تک 17 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 63 صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں 56 فلسطینی، 4 اسرائیلی اور 3 لبنانی شامل ہیں جب کہ صحافیوں کی اہل خانہ کی تعداد اس کے علاوہ ہیں۔