وفاقی حکومت ملک میں کم قیمت والی گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کے لیے نئی آٹو پالیسی تیار کر رہی ہے کیونکہ حالیہ آٹو ڈویلپمنٹ پالیسی (اے ڈی پی 2016 تا 21) کی مدت جون 2021ع تک ختم ہو جائے گی
گاڑیوں کی صنعت سے منسلک موقر ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کے تحت ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی شکل میں گاڑی کی قیمت کی تقریباً 45 فیصد رقم حکومت کو حاصل ہوگی کیونکہ حکومت گاڑیوں کی اسمبلنگ کے لیے استعمال ہونے والے درآمد شدہ آٹو پارٹس پر ڈیوٹیز چارج کرتی ہے
اس وقت مقامی پارٹس (جو پاکستان میں بننے کے باوجود باہر سے منگوائے جاتے ہیں) پر کسٹم ڈیوٹی 45 فیصد جبکہ غیر مقامی پارٹس (جو پاکستان میں نہیں بنتے) پر 30 فیصد ہے۔ اس طرح پارٹس کی درآمد پر 7 فیصد اضافی چارجز دینے پڑتے ہیں
ذرائع کے مطابق ہزار سی سی والی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈھائی فیصد، ہزار سی سی سے دو ہزار سی سی والی گاڑیوں پر 5 فیصد اور دو ہزار سے زائد سی سی والی گاڑیوں پر ساڑھے 7 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس 17 فیصد ہے
آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ کمیٹی (اے آئی ڈی سی) کی حالیہ میٹنگ کے بعد تیار کردہ ایک مسودے کے مطابق ماضی میں چھوٹی گاڑیاں نظر انداز ہوئیں جس کے باعث خریداروں کے پاس مواقع کم تھے۔ لیکن نئی پالیسی میں چھوٹی گاڑیوں پر توجہ دینا ہوگی
ذرائع کے مطابق حکومت نئی پالیسی میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز چارجز کم کرکے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی لا سکتی ہے۔
ایک اور ذریعے سے ملنے والی اطلاع کے مطابق اس وقت کوئی بھی شخص جب گاڑی خریدتا ہے تو اس گاڑی کی کل قیمت کا تقریباً 45 فیصد حکومت کو ادا کرتا ہے۔ یہ رقم بڑی گاڑیوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے پاس گاڑیوں کی قیمت کم کرنے کے لیے بہت زیادہ گنجائش موجود ہے
اے ڈی پی پالیسی 2016-21 رواں سال جون میں ختم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی پی) اور وزارت صنعت و پیداوار نے اگلے پانچ سالوں کے لیے نئی آٹوموٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پلان (اے آئی ڈی ای پی) پر کام کرنا شروع کر دیا ہے
کمیٹی اجلاس میں یہ بات زیر غور آئی کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ حکومت آئندہ (اے آئی ڈی ای پی) میں پورے آٹو سیکٹر کے لیے کسٹمز ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) پر کمی لاسکتی ہے
لیکن اس کے بدلے میں حکومت یہ توقع رکھتی ہے کہ (او ای ایم ایس) اصل ساز و سامان تیار کرنے والی کار ساز کمپنیوں کے ذریعے قیمتوں میں کمی کی جائے گی جبکہ لوکلائزیشن میں اضافہ اور برآمدات میں اضافے کے لیے ٹھوس کوشش کی جائے گی
مسودے کے مطابق ’’مقامی گاڑی تیار کرنے والی کمپنیوں کو لوکلائزیشن میں اضافے کے لیے مقامی سطح پر آٹو پارٹس تیار کرنے والوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنا چاہیئے تاکہ قیمت میں کمی، استحکام اور روزگار پیدا ہو‘‘۔
ہنڈائی، کییا، چنگن اور یونائیٹڈ موٹرز جیسی چند نئی کمپنیوں کو گرین فیلڈ کا درجہ مل گیا ہے، جس کی مدد سے وہ سی کے ڈی کی درآمد پر کم ڈیوٹی ادا کر سکتے ہیں۔ گرین فیلڈ درجے کی حامل کمپنیوں کو مقامی پارٹس (جو پاکستان میں بننے کے باوجود باہر سے منگوائے جاتے ہیں) پر ڈیوٹی 25 فیصد جبکہ غیر مقامی پارٹس (جو پاکستان میں نہیں بنتے) پر 10 فیصد دینا ہوگی
ایک کمپنی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ پرانی اور نئی گاڑیوں کی قیمت میں تقریباً 20 فیصد فرق آئے گا لیکن کام کرنے والی پرانی کمپنیاں اس فرق کو 15 فیصد تک بھی لاسکتی ہیں.