بخشو سیٹھ نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ایک چوکیدار رکھا
دوسرے ہی مہینے چوکیدار نے اپنی تنخواہ بڑھانے کا حکم نامہ مطالبہ کر دیا
یہ دیکھ بخشو سیٹھ کافی حیران ہوا
اور اس حیرانی کے عالم میں، اس نے پہلا کام یہ کیا کہ چوکیدار کی تنخواہ بڑھا دی.
اگلے مہینے چوکیدار نے حکم نما تجویز پیش کی کہ اسے گیٹ پر پکی چوکی بنا کر دی جائے، تاکہ وہ سہولت، آرام اور حفاظت کے ساتھ بخشو سیٹھ کے گھر کی حفاظت کر سکے.
چوکی بننا بھی شروع ہو گئی.
چوکی کا کام ابھی چل ہی رہا تھا، کہ ایک دن چوکیدار نے نوکر کے ہاتھوں بخشو سیٹھ کو اہم پیغام دے کر اپنے پاس بلوایا اور پرانی بندوق کی جگہ نئی رائفل لے کر دینے کا "مشورہ” دیا. ساتھ ساتھ اس نے بخشو سیٹھ کو یہ فراخ دلانہ پیشکش بھی کی کہ وہ یہ کام اپنے ایک جاننے والے کے ذریعے کروا دے گا.
گیٹ پر پکی چوکی بھی بن گئی اور پرانی بندوق کی جگہ نئی رائفل بھی آ گئی، تو چوکیدار نے سی سی ٹی وی، جدید وائر لیس سسٹم وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ وغیرہ بھی گھر کے مالک کو یہ کہہ کر خرید کروائے کہ وہ بہتر طور پر اور حفاظت کے ساتھ اس کی حفاظت کر سکے.
اس نے سیٹھ سے پیسے لے کر، کمال مہربانی سے یہ کام بھی اپنے ایک واقف کار کے ذریعے کروا دیا.
یہ سب ہو جانے کے بعد ایک دن بخشو سیٹھ نے سوچوں میں غلطاں بیٹھے ٹھنڈا سانس بھرا ہی تھا کہ اسے پتہ چلا کہ چوکیدار نے اپنا ایک اسسٹنٹ چوکیدار بھی بھرتی کر لیا ہے،
اس طرح اگلے ماہ اس نے اپنی تنخواہ کے ساتھ اسسٹنٹ چوکیدار کی تنخواہ بھی وصول کی.
ایک دن بخشو سیٹھ کے خانساماں نے آ کر اسے بتایا کہ گھر میں آنے والی ہر شے میں سے اپنا حصہ گیٹ پر لے لینا بھی چوکیدار نے اپنا معمول بنا لیا ہے..
بخشو سیٹھ کی برداشت اب جواب دے چکی تھی، یہ جان کر وہ غصے سے آگ بگولہ ہو گیا،
"اب تو حد ہی ہو گئی…!”
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتا، پیر پٹختا چوکیدار کے پاس پہنچا اور اسے نوکری چھوڑ کر نکل جانے کا حکم دیا..
چوکیدار نے یہ کہہ کر بخشو سیٹھ کو چپ کرا دیا کہ اگر اسے نوکری سے نکالا گیا تو وہ نہ صرف بخشو سیٹھ کے سارے راز افشا کر دے گا بلکہ اسے اغوا کر کے اس کے گھر ڈاکہ بھی ڈلوائے گا.
ناچار، بخشو سیٹھ نے چپ سادھ لی..
پھر چوکیدار نے اپنے متعلق حساس معلومات بخشو سیٹھ تک پہنچانے کے الزام میں خانساماں اور گھر کے دوسرے تمام نوکروں کی چھٹی کروا دی اور ان کی جگہ اپنے با اعتماد لوگوں کو رکھ لیا.
اس کے بعد ایک دن چوکیدار نے چوکی کے لیے بنائے گئے کیبن میں چھوٹی سی دوکان بھی کھول لی.. اور اس پر لکھوا دیا یہاں چپس، چاکلیٹ، ٹافیاں، لولی پاپ، قلفیاں، آئس کریم، کولڈ ڈرنکس، دلیہ، ایزی لوڈ وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ وغیرہ دستیاب ہیں.
اس کی دوکان چل پڑی..
کاروبار جم گیا تو اس نے آہستہ آہستہ دوکان کو تھوڑا تھوڑا کر کے بڑھانا شروع کر دیا..
یوں تھوڑا تھوڑا بڑھتے، ایک دن دوکان اتنی بڑھ گئی، کہ بخشو سیٹھ کے گھر کا سارا داخلی مین گیٹ ہی بند ہو گیا..
بخشو سیٹھ نے اس کی بڑی منت سماجت کی کہ وہ ایسا نہ کرے، گڑگڑاتے ہوئے کہا کہ کم سے کم گھر کا گیٹ تو کھلا چھوڑ دے.. اس نے بخشو سیٹھ کو اپنے معاملات میں مداخلت سے روکتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ ایسا کرے کہ گھر کی پچھلی طرف کی دیوار تڑوا کر وہاں سے گیٹ بنوا لے..
بخشو، جس کے گھر کا دروازہ مشرقی جانب تھا، اسے مغربی جانب سے گیٹ بنوانے پر راضی ہونا پڑا، تب چوکیدار نے گیٹ بنوانے کا ٹھیکہ بھی خود ہی لے لیا!