
مئی کا اک گرم دن تھا، سورج آگ برسا رہا تھا۔ کالج کی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد جیسے ہی میں رکشے میں بیٹھ رہا تھا کہ پروفیسر مبین نے مجھے آواز دی اور اصرار کر کے مجھے اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا دیا۔
اولڈتھانہ پہنچنے پر میں نے پروفیسر صاحب کو کھانے پر اصرار کیا، انہوں نے منع کرتے ہوئے کہا کہ کھانا نہیں، اس نیم والے ہوٹل میں چائے پیئیں گے۔۔۔
یہ رزاق کا ہوٹل تھا، جو گھنے نیم کے سائے میں واقع تھا۔۔۔۔گرمیوں میں اس ہوٹل کا وجود ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
ہم لوگ ہوٹل میں لکڑی کے ایک تختے پر بیٹھ گئے۔ رزاق بھائی حسبِ سابق بہت محبت سے ملے اور ٹھنڈا پانی پیش کر دیا، ہم نے ان کو دودھ پتی چائے کا آرڈر کر دیا۔
پروفیسر صاحب کچھ لمحوں تک خاموش رہے پھر اچانک گویا ہوئے، ”لگتا ہے کہ آپ کے گوٹھ والوں کے معاشی حالات اچھے ہیں اور لوگ کافی خوشحال ہیں۔۔۔“
پروفیسر صاحب کے لہجے میں حیرت نمایاں تھی۔۔۔۔
”آپ نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا؟“ میں نے تعجب سے پوچھا۔
”ہر وقت ہوٹلوں میں لوگوں کا رش لگا رہتا ہے۔۔۔۔ صبح کالج جاتے ہوئے اور دوپہر کالج سے آتے ہوئے میں یہی منظر روزانہ دیکھتا رہتا ہوں خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد یہاں فارغ بیٹھی نظر آتی ہے۔۔۔ اس وقت بھی آس پاس دیکھ لیں یہی منظر نامہ ہے۔۔۔۔“ پروفیسر صاحب نے اپنے روزمرہ کا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے جواب دیا۔
”جی سر، بات تو آپ کی درست ہے، میرے خیال میں قریب بیٹھے نوجوان ہی سے پوچھ لیتے ہیں کہ ان کے یوں فارغ بیٹھنے کا سبب کیا ہے۔۔خوشحالی ہے یا کچھ اور؟“ میں نے اس کا جواب خود دینے کا بجائے پروفیسر صاحب کو تجویز دی۔
”ہاں یہ تجویز اچھی ہے۔۔۔“ پروفیسر صاحب نے میری تجویز کو سراہا۔
”جی بیٹا آپ کا نام کیا ہے؟“ پروفیسر صاحب قریب بیٹھے نوجوان سے مخاطب ہوئے۔
”میرا نام محمد امین ہے۔۔“ نوجوان نے جواب دیا۔
”آپ کی تعلیم کتنی ہے؟“ پروفیسر صاحب نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا۔
”سر میں نے تین سال پہلے انٹر پری میڈیکل کا امتحان دیا تھا مگر تین پیپروں میں فیل ہوں۔۔۔“ نوجوان کے لب و لہجے سے مایوسی چھلک رہی تھی۔
”تو آپ نے سپلیمنٹری امتحان نہیں دیا۔۔۔۔؟“ پروفیسر صاحب نے تجسس آمیز لہجے میں پوچھا۔
”ایک سال سپلی کا امتحان دیا، مگر پاس نہ ہو سکا، اب تو دل ہی ٹوٹ گیا ہے۔۔۔“ نوجوان نے بے فکری سے جواب دیا۔
”والد صاحب کیا کرتے ہیں اور کتنے بہن بھائی ہیں۔۔۔؟“ پروفیسر صاحب نے اگلا سوال پوچھا۔
”والد صاحب کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور ہم چار بھائی ہیں، سب سے چھوٹا بھائی میں ہوں اور مجھ سے چھوٹی ایک بہن ہے۔۔۔“ نوجوان کے لہجے میں افسردگی نمایاں تھی۔
”تو آپ کے دوسرے بھائی کیا کرتے ہیں؟“ پروفیسر صاحب نے سوال کیا۔
”ان کا حال بھی مجھ سے مختلف نہیں ہے، بڑا بھائی پندرہ سالوں سے ایم پی اے صاحب کے آفس کا چکر لگا رہا ہے، مگر اس کو ابھی تک نوکری نہیں ملی۔۔۔۔ دوسرے اور تیسرے بھائی چیئرمین صاحب کے پاس کئی سالوں سے آ جا رہے ہیں، اس نے الیکشن مہم کے دوران نوکری دینے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر سب جھوٹ۔۔۔ ایک بھائی کو بھی نوکری نہیں ملی۔۔۔۔۔“ نوجوان نے بجھے دل کے ساتھ کہا۔
”اب آگے آپ کا کیا پروگرام ہے۔۔۔؟“ پروفیسر صاحب پوچھا۔
”یہ سوچ سوچ کر میں ڈپریشن کا مریض ہوگیا ہوں، ایک بھائی نشے کی لت میں مبتلا ہو گیا ہے۔۔۔۔“ نوجوان نے مایوسی کے عالم میں جواب دیا۔
یہ سن کر پروفیسر صاحب گہری سوچ میں ڈوب گئے۔۔۔وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، وہ اس طرح فراغت کے ہاتھوں اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہیں۔۔ محفل میں کچھ دیر خاموشی رہی۔۔۔
”سر یہ دیگ کا ایک دانہ ہے، اس سے آپ پوری دیگ کا اندازہ کر سکتے ہیں۔۔۔“ میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے حقیقتِ حال کی طرف پروفیسر صاحب کی توجہ مبذول کروائی۔
”یہ صورتحال بہت تشویشناک ہے، یہاں کے سنجیدہ لوگوں کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔۔۔۔۔“ پروفیسر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”دیکھو بیٹا! زندگی کا ابتدائی بیس پچیس برس کا عرصہ نہایت ہی اہم ہوتا ہے۔۔ اگر آپ نے اس عرصے کو کارآمد بنایا تو آپ کی پوری زندگی سکھی رہے گی۔۔۔ اگر آپ نے یہ عرصہ آوارگی، فضول کاموں اور فراغت کے ہاتھوں ضائع کر دیا تو پھر ساری زندگی روتے رہیں گے۔۔۔۔۔ آپ کے پاس تعلیم، ہنر، کاروبار اور مزدوری کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔۔“ پروفیسر صاحب نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ نہایت شفقت سے کہا۔
”مگر اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟“ میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا۔
”ان نوجوانوں کے لیے موٹیوشنل سیشنز اور اسکل ڈویلپمنٹ پروگرامز کا انعقاد۔۔۔ تاکہ ان نوجوانوں کی ذہنی تربیت کی جا سکے اور ان کو باور کرایا جاسکے کہ جو کچھ کرنا ہے تعلیم، ہنر اور کاروبار کے ذریعے خود کریں، اپنے زورِ بازو سے اپنی دنیا آپ پیدا کریں۔۔۔سیاستدانوں کے پیچھے اپنا وقت ضائع نہ کریں۔۔ حیرت ہے یہ لوگ پندرہ سالوں سے سیاستدانوں کے دفتروں کا چکر کاٹ رہے ہیں۔۔۔۔ میں ایک ایسے خان صاحب کو جانتا ہوں، جس نے دس سال پہلے ہاتھ پر ازاربند لیے اپنے کام کا آغاز کیا، کچھ عرصے کے بعد اس نے ایک ٹھیلا خرید لیا، بعد ازاں ٹھیلے کی جگہ ٹھیے نے لی۔۔۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے ایک دکان خرید لی اور اب وہ پوری مارکیٹ کا مالک بن چکا ہے۔۔۔ ہمارے ایک دوست کا بیٹا فری لانسنگ کے ذریعے گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں روپے کما رہا ہے۔۔۔۔“
پروفیسر صاحب کی گفتگو جاری تھی کہ مسجد کے بلند میناروں سے اذان کی صدا گونجی، انہوں نے اجازت چاہی اور میں بھی نماز کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔