گڈاپ، کاٹھوڑ، ملیر، کے-الیکٹرک اور اجتماعی سزا

حفیظ بلوچ

گڈاپ اور ملیر کے علاقے گزشتہ کئی مہینوں سے شدید بجلی بحران کا شکار ہیں۔ کے الیکٹرک نے ان علاقوں میں بجلی کی فراہمی تقریباً بند کر دی ہے۔ متعدد علاقوں میں صرف دو سے تین گھنٹے بجلی آتی ہے، جبکہ بعض علاقوں میں ایک دن چھوڑ کر صرف ایک یا دو گھنٹوں کے لیے بجلی فراہم کی جاتی ہے، اس کے بعد پھر بند کر دی جاتی ہے۔۔ اور اکیسویں صدی کے اس دور میں، شاید آپ یقین نہ کریں، کہ کچھ علاقوں میں کئی کئی روز مسلسل بجلی کی فراہمی معطل رہتی ہے۔

یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ ، جو آج ایک نجی ادارہ ہے، ماضی میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC) کے نام سے ایک سرکاری ادارہ تھا۔ 1913 میں قائم ہونے والا یہ ادارہ 2005 میں نجکاری کے بعد کے الیکٹرک میں تبدیل ہوا۔ اب یہ ادارہ کراچی اور مضافات کے 6,500 مربع کلومیٹر رقبے میں بجلی فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ کمپنی کے 66.4 فیصد حصص ایک بین الاقوامی سرمایہ کار گروپ کے پاس ہیں، جبکہ حکومتِ پاکستان کے پاس 24.36 فیصد حصص موجود ہیں۔
یہ ادارہ اس لیے نجی شعبے کے حوالے کیا گیا تھا تاکہ کراچی میں بجلی کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے، چوری کو روکا جا سکے اور نظام کو مؤثر بنایا جا سکے۔۔ مگر بدقسمتی سے، کے الیکٹرک بھی ادارہ جاتی کرپشن، بدانتظامی، اوور بلنگ اور صارفین کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ آج بھی شہر کے دور دراز اور دیہی علاقوں میں، خاص طور پر ملیر، کاٹھوڑ اور گڈاپ میں، بجلی کی فراہمی غیر یقینی اور غیر منصفانہ ہے۔

کاٹھوڑ، گڈاپ کا ایک اہم علاقہ ہے جہاں 1980 کی دہائی میں پہلی مرتبہ بجلی فراہم کی گئی۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے زرعی رہا ہے۔ ماضی میں جب ندیوں میں پانی ہوتا تھا، کسان ڈیزل انجن کے ذریعے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے تھے۔ بعد میں بجلی آئی، ٹیوب ویلز لگے اور KESC نے پورے علاقے کو روشن کر دیا۔ دیہی گاؤں جہاں پہلے لالٹین جلتی تھی، اب وہاں بجلی کے بلب روشن ہونے لگے۔

اس وقت زمیندار اور دیگر صارفین بل باقاعدگی سے ادا کرتے تھے، اور بجلی کا نظام درست طور پر چل رہا تھا، لیکن پھر KESC کے اپنے ملازمین نے میٹر ٹمپرنگ، کنڈا کلچر، اور دیگر غیر قانونی طریقے متعارف کروائے، اور اس میں باقاعدہ رشوت لی جانے لگی۔ جب ادارے نے دیکھا کہ بجلی زیادہ خرچ ہو رہی ہے اور آمدن کم ہے، تو انہوں نے اوور بلنگ شروع کر دی۔ یوں کرپشن کے بوجھ تلے سارا نظام بگڑ گیا۔

جب KESC کی جگہ ’کے الیکٹرک‘ نے لی تو نظام کو بہتر کرنے کے بجائے بدانتظامی اور بڑھ گئی۔ کے الیکٹرک نے اپنی ناکامیوں اور ناقص انتظامات کا توڑ اجتماعی سزا کا کلچر متعارف کرا کے کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ادارہ بجلی چوری یا بل ادائیگی کی شکایات کی بنیاد پر پورے علاقے کی بجلی کاٹ دیتا ہے، چاہے دیگر لوگ ایمانداری سے بل ادا بھی کر رہے ہوں۔ اجتماعی سزا کی اس پالیسی نے نہ صرف دیہی معیشت بلکہ زرعی پیداوار کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ایسا نہیں کہ سب لوگ چوری میں ملوث ہیں۔ آج بھی کئی غریب لوگ، زمیندار، مزدور اپنی استطاعت کے مطابق بل ادا کرتے ہیں، لیکن جب ادارہ سب کو چور سمجھ کر بجلی منقطع کر دیتا ہے تو یہ سراسر ظلم ہے۔

کے الیکٹرک اگر واقعی مسئلے کا حل چاہتا تو وہ گاؤں کے معتبر لوگوں، منتخب نمائندوں اور کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر میٹر ٹمپرنگ، اوور بلنگ اور بجلی چوری کے خلاف مؤثر اقدامات کر سکتا تھا، لیکن اس کی بجائے ادارہ صرف غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور مسلسل بجلی بند کر کے اپنی ناکامیوں کا بوجھ عوام پر ڈال رہا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے منتخب نمائندے بھی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اداروں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ عوام کو اعتماد میں لیتے، ان کی بات سنتے، اور پھر کے الیکٹرک کے ساتھ مذاکرات کر کے مسئلے کا حل نکالتے۔۔ مگر افسوس کہ وہ عوام کو چور قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button