ہمارے احوال، ہمارے اعمال کی وجہ سے ہیں! (افسانہ)

ڈاکٹر ابوبکر بلوچ

صبح کے آٹھ بج رہے تھے، گیس پریشر میں کمی کے باعث سکینہ کو ناشتہ بنانے میں شدید دقت کا سامنا تھا۔
ناشتہ بروقت تیار نہ ہونے پر اس کا شوہر گل شیر اس پر خوب برس رہا تھا کیونکہ اس کو وقت پر فیکٹری پہنچنا تھا۔

ایک تو لوڈشیڈنگ اور مچھروں کی بہتات کے باعث وہ رات بھر نہیں سو سکا تھا پھر سونے پر سہاگہ، گیس پریشر میں کمی کے باعث اب وہ ناشتے سے محروم ہو رہا تھا۔

وہ ناشتہ کیے بغیر شدید غصے کی حالت میں گھر سے نکلا، کیوں کہ اس کو پونے نو بجے تک لازماً فیکٹری پہنچنا تھا ورنہ بائیو میٹرک میں اس کی غیر حاضری یقینی تھی، مگر جیسے ہی اس نے گلی میں قدم رکھا، اس کو تنگ گلی میں موٹر سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کا ایک بڑا ہجوم نظر آیا، کیوں کہ اس تنگ گلی کو ایک واٹر ٹینکر نے بند کر رکھا تھا
جس کے باعث موٹر سائیکل تو کجا پیدل بھی اس مقام کو کراس کرنے گنجائش موجود نہیں تھی۔۔۔

علاقے میں دس دنوں سے پانی نہیں آ رہا تھا، اس لیے لوگ پیسوں سے پانی خریدنے پر مجبور تھے۔ یہ واٹر ٹینکر نورو نے منگوایا کیا تھا مگر بدقسمتی سے واٹر ٹینکر گلی کے بلکل بیچ میں خراب ہو گیا، جس کی وجہ سے یہ تنگ گلی مکمل طور پر بند ہو گئی تھی۔

راستہ کھلنے کے انتظار میں کھڑے لوگ حکومت، منتخب نمائندوں اور مقامی وڈیروں کو خوب کوس رہے تھے۔۔۔گلشیر تو غصے سے بری طرح پاگل ہو رہا تھا۔۔۔ یہ ایک ہی ہفتے میں تیسرا واقعہ تھا کہ وہ وقت پر فیکٹری نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس سے قبل اسی ہفتے میں مین روڈ پر پانی اور بجلی کے ستائے لوگوں کے احتجاج کے باعث اس کی دو غیر حاضریاں لگ چکی تھیں۔۔۔

”ایک تو تنخواہ پر بمشکل گذارا ہو رہا تھا پھر آئے دن کی غیر حاضریوں کی وجہ سے تنخواہ میں کٹوتی اس پر مزید ایک مصیبت۔۔۔ بچنے والی تھوڑی سی تنخواہ سے ہم گھر کا چولہا جلائیں، بیمار والدہ کی دوا دارو کا انتظام کریں یا بچوں کی فیس ادا کریں۔۔۔۔ اوپر سے ظالم کے الیکٹرک نے بھی تیس ہزار کا بل بھیجا ہے؟“

گل شیر شدید بے بسی کے عالم میں چیخ رہا تھا۔۔۔

”میرا اپنا بھی یہی حال ہے۔۔سوچ سوچ کر اب تو مجھے شوگر کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔“ گلشیر کے قریب کھڑے بچل نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا۔

”سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم یہ کس جہنم میں رہ رہے ہیں، دن کو چین میسر ہے نہ رات کو سکون۔۔۔ اتنے پیسے بھی ہمارے پاس نہیں ہیں کہ یہاں سے نقل مکانی کر کے کہیں اور جا کر بسیں۔“ لالو نے برس کر کہا۔۔ل

”اتنے دنوں سے ہم چیخ رہے ہیں، نہ پانی ہے نہ بجلی اور نہ ہی گیس مگر منتخب نمائندوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔۔۔“ عبدل نے منتخب نمائندوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا۔

”یہ منتخب نمائندے آخر کس درد کی دوا ہیں؟ اگر یہ مسائل حل نہیں کر سکتے تو ان کو استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہیے۔“ بچل نے غصے سے کہا۔

”اب کے الیکشن میں آ جائیں تو ہم ان کو دیکھ لیں گے۔“ گلشیر نے چیخ کر کہا۔

”الیکشن کی بات مت کرو، تم لوگ ماضی میں بھی یہ دعوے کرتے رہے ہو۔۔ مگر جب الیکشن کا وقت آتا ہے تم ساری باتوں کو بھول کر پھر انہی لوگوں کو ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہو۔۔۔سچ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ہمارے اجتماعی اعمال کی سزا مل رہی ہے اور ہمارے یہ احوال ہمارے اعمال کی وجہ سے ہیں۔“

قریب سے گزرتے ہوئے چچا قادر بخش نے یہ تلخ جملہ چھوڑا اور چلتا بنا اور سب اس کا منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button