سائبان تلے (مصری ادب سے منتخب افسانہ)

نجیب محفوظ (اردو ترجمہ: ڈاکٹر آصف فرخی)

بادل آنا شروع اور پھر ایسے گھِر کے آئے، جیسے رات چھائی جارہی ہو۔ پھر پھوار پڑنے لگی۔ سڑک کے اوپر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جس میں جس کی بو بسی ہوئی تھی۔ وہاں سے گزرنے والوں نے اپنی رفتار تیز کردی، سوائے اس گروہ کے جو بس اسٹاپ کے سائبان کے نیچے جمع ہو گیا تھا۔ اس منظر کا معمولی پن اس پر بے حس و حرکتی کا انجماد طاری کر دیتا، اگر ایک آدمی نہ ہوتا، جو بغلی گلی سے پاگلوں کی طرح چیختا ہوا نکلا اور دوسری گلی میں گھس گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے مردوں اور نوجوانوں کا ایک گروہ تھا جو زور زور سے چیخ رہا تھا، ”چور۔۔۔۔ پکڑو چور کو!“ یہ غل غپاڑا آہستہ آہستہ مدھم ہوا پھر اچانک غائب ہوا اور پھوار پڑتی رہی۔ سڑک خالی ہو گئی، یا اس طرح معلوم ہونے لگی اور رہے وہ لوگ، جو سائبان کے تلے جمع ہو گئے تھے، ان میں سے کچھ تو بس کا انتظار کر رہے تھے اور کچھ صرف اس لیے وہاں آگئے تھے کہ بھیگنے سے بچ جائیں۔

اس پکڑا دھکڑی کا شور ایک بار پھر جاری ہو گیا اور قریب آنے لگا تو اس کی آواز بلند ہوتی گئی۔ تعاقب کرنے والے پھر سامنے آئے اور ان لوگوں نے چور کو پکڑ لیا تھا جب کہ ان کے گرد نوجوان چنچناتی ہوئی، تیز آوازوں میں شاباش دے رہے تھے۔ سڑک کے وسط تک پہنچے ہوں گے کہ چور نے بھاگ نکلنے کی کوشش کی، تو انہوں نے اس کو دبوچ لیا اور تھپڑوں، لاتوں کے ساتھ اس پر پل پڑے۔ اتنی زور کی مار کھا کر چور بھی اپنا بچاؤ کر رہا تھا اور اضطراری طور پر وہ بھی مارنے کے لیے وار کر رہا تھا۔ سائبان تلے کھڑے ہوئے لوگوں کی نگاہیں اس معر کے پر پورے انہماک کے ساتھ مرتکز تھیں۔

”کیسے ظالم ہیں جو اس بری طرح مار رہے ہیں؟“

”یہ تو چوری سے بھی بڑھ کر جرم ٹھہرے گا!“

”دیکھو، وہ سپاہی اس عمارت کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوا دیکھ رہا ہے؟“

”مگر اس نے تو منھ موڑ لیا ہے؟“

پھوار تیز ہو گئی اور میں چاندی کے تاروں کا سلسلہ بن گیا پھر تیز بارش ہونے لگی۔ سڑک پوری طرح خالی ہو گئی، سوائے ان کے، جو لڑ رہے تھے اور وہ جو سائبان تلے کھڑے تھے۔ تھک ہار کر پھر ان لوگوں نے چور کو مارنا بند کر دیا اور اس کے گرد گھیرا ڈال دیا، ہانپتے کانپتے ہوئے وہ اس سے چند الفاظ کا تبادلہ کر رہے تھے، جو سنے نہ جا سکے۔ پھر بارش سے بے فکر ہو کر وہ طویل بحث میں جُت گئے جس کی کسی کو سمجھ نہ آ سکی۔ کپڑے بدن سے چپکے جا رہے تھے اور وہ مصمم ارادے سے بحث میں جُٹے ہوئے تھے اور بارش کی طرف ذرا سا بھی دھیان نہیں دے رہے تھے۔ چور کی حرکات وسکنات سے اس کے دفاعی رویے کی شدت ظاہر ہو رہی تھی مگر اس کی بات کوئی نہیں مان رہا تھا۔ وہ یوں ہاتھ چلا رہا تھا جیسے تقریر کر رہا ہو مگر اس کی آواز فاصلے اور بارش کی بوچھار میں دب گئی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہ تھا کہ وہ تقریر جھاڑ رہا تھا اور باقی لوگ اسے سن رہے تھے۔ بارش میں بھیگتے ہوئے وہ گنگ ہو کر اس کی طرف تک رہے تھے۔ سائبان تلے کھڑے ہونے والوں کی آنکھیں ان ہی پر جمی ہوئی تھیں۔

”یہ کیسی بات ہے کہ سپاہی اپنی جگہ سے ہل تک نہیں رہا؟“

”اسی لیے مجھے لگ رہا ہے کہ یہ واقعہ کسی فلم کی شوٹنگ کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔“

”مگر یہ مار تو اصلی تھی!“

”اور یہ بحث اور بارش میں تقریر بازی؟“

کسی غیر معمولی چیز نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ چوک کی جانب سے دو گاڑیاں دیوانہ وار رفتار سے دوڑتی ہوئی آئیں۔ لگ رہا تھا کہ خوف ناک تعاقب ہو رہا ہے۔ آگے والی گاڑی تیزی سے سڑک کو کاٹتی ہوئی جا رہی تھی اور دوسری گاڑی بس اتنے قریب تھی کہ ابھی اس کو پکڑ لے۔ پھر آگے والی گاڑی نے اتنے اچانک بریک لگایا کہ سڑک کی سطح پر پھنس گئی اور دوسری گاڑی ایک زور دار دھماکے کے ساتھ اس سے ٹکرا گئی۔ دونوں گاڑیاں اُلٹ گئیں، اس کی وجہ سے ایک دھماکا ہوا اور فوراً ہی ان میں آگ لگ گئی۔ موسلا دھار بارش میں چیخیں اور کراہیں سنائی دینے لگیں، مگر کوئی بھی تیزی سے اس حادثے کی طرف نہیں بڑھا۔ چور نے تقریر بند نہیں کی اور اس کے گرد جمع ہونے والے بھی ان گاڑیوں کے بچے کھچے ڈھانچے کی طرف نہیں گئے جو ان سے چند گز کے فاصلے پر تباہ ہو گئی تھیں۔ انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی، بالکل جس طرح وہ بارش پر دھیان نہیں دے رہے تھے۔

سائبان تلے کھڑے ہونے والوں نے دیکھا کہ خون میں لت پت ایک شخص اس حادثے کا شکار ہونے والوں میں سے ایک، بہت آہستہ آہستہ گاڑی کے ڈھانچے کے نیچے سے رینگتا ہوا چلا آرہا ہے۔ اس نے چاروں ہاتھوں پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر منھ کے بل گر پڑا۔

”بڑی تباہی ہے، بلا شبہ!“

”پولیس والا جنبش بھی نہیں کرنا چاہتا؟“

”قریب میں کوئی ٹیلی فون تو ہوگا!“

مگر کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ بارش خوف ناک ہوتی جا رہی تھی اور بجلی بھی کڑک رہی تھی۔ چور نے اپنی تقریر مکمل کر لی اور بڑے پرسکون اعتماد کے ساتھ اپنے سامعین کو دیکھنے لگا۔ اچانک اس نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیے، یہاں تک کہ وہ بالکل ننگا ہو گیا۔ اس نے اپنے کپڑے اٹھا کر ان گاڑیوں کے ملبے پر پھینک دیے، جن کی آگ بارش کی وجہ سے بجھ چکی تھی۔ وہ یوں چلنے لگا جیسے اپنے ننگے بدن کی نمائش کر رہا ہو۔ وہ دو قدم آگے بڑھا، پھر دو قدم پیچھے اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ناچنے لگا۔ جو لوگ اس کا پیچھا کر رہے تھے، تالیاں بجا کر تال دینے لگے اور وہاں موجود نوجوان بانہوں میں بانہیں ڈال کر اس کے گرد حلقہ بنانے لگے۔

سائبان تلے کھڑے ہونے والوں نے تعجب اور حیرت کے ساتھ سانس روک لیے۔

”اگر یہ فلم کا سین نہیں ہے تو پاگل پن ہے!“

”اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فلم کا سین ہے اور پولیس والا بھی اس میں اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔“

”اور گاڑیوں کا حادثہ؟“

”تکنیکی مہارت ہے۔۔ اور آخر میں ہمیں کسی کھڑکی کے پیچھے سے ہدایت کار نظر آئے گا!“

سائبان کے بالمقابل عمارت میں ایک کھڑکی کھلی اور اس کی آواز نے اس کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ تالیوں کے شور اور بارش کے باوجود، نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ پورے لباس میں ایک آدمی اس کھڑکی میں نظر آیا۔ اس نے سیٹی بجائی اور فوراً ہی اس عمارت میں ایک کھڑکی اور کھل گئی اور ایک عورت، پورے لباس کے ساتھ اور میک اپ کیے ہوئے، نظر آئی جس نے سیٹی کا جواب سر کی جنبش سے دیا۔ پھر یہ دونوں، سائبان تلے کھڑے ہونے والوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے اور ذرا دیر بعد اس عمارت سے ایک ساتھ باہر نکل گئے۔ بارش کی فکر سے یکسر آزاد، وہ بانہوں میں بانہیں ڈالے باہر آئے۔ وہ گاڑیوں کے ڈھانچے کے پاس کھڑے ہوئے، ان کے درمیان چند الفاظ کا تبادلہ ہوا اور انہوں نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیے، یہاں تک کہ وہ برستی بارش میں سر تا پا ننگے کھڑے تھے۔ عورت نے اپنے آپ کو زمین پر گرا دیا اور سر مردہ آدمی کی لاش پر ٹکا دیا، جو اوندھی پڑی ہوئی تھی۔ وہ مرد اس کے برابر دو زانو ہو گیا اور ہاتھوں اور ہونٹوں سے محبت کے نرم خو الفاظ ادا کرنے لگا۔ پھر اس نے عورت کو اپنے بدن سے ڈھانپ لیا اور وہ دونوں آپس میں مصروفِ عمل ہو گئے۔ وہ رقص اور تالیاں، حلقے میں گھومتے ہوئے نوجوان اور موسلا دھار بارش بدستور جاری رہے۔

”بے ہودہ!“

”اگر یہ فلم کا سین ہے تو بے ہودہ اور اگر حقیقی ہے تو پھر پاگل پن۔“

”پولیس والا سگریٹ سلگا رہا ہے۔“

نیم سنسان سڑک پر پھر زندگی کے نئے آثار نمودار ہوئے۔ جنوب کی جانب سے اونٹوں کا قافلہ آیا، جس کے آگے آگے قافلے کے سرغنہ اور کئی بدو عورتیں اور مرد تھے۔ انہوں نے ناچتے ہوئے چور سے تھوڑے فاصلے پر قیام کیا۔ اونٹوں کی رسیاں مکانوں کی دیواروں سے باندھ دی گئیں، خیمے ایستادہ ہوئے، جس کے بعد کچھ لوگ منتشر ہو گئے کچھ کھانا کھانے لگے یا چائے یا سگریٹ پینے لگے اور دوسرے لوگ باتیں کرنے بیٹھ گئے۔ شمال کی جانب سے سیاحوں کی بسیں یوروپین مسافروں کو لیے ہوئے آئیں۔ وہ چور کے حلقے کی پشت پر رک گئے، پھر مسافر مرد اور عورتیں اترے، ٹولیوں میں بٹ کر ادھر اُدھر ہو گئے اور بہت شوق کے ساتھ اس جگہ کا جائزہ لینے لگے، وہاں ہونے والے رقص، مباشرت، موت یا بارش کی پروا کیے بغیر۔۔

پھر بہت سے تعمیراتی مزدور آئے اور ان کے ساتھ ٹرک، جن پر پتھر، سیمنٹ اور تعمیراتی سازو سامان لدا ہوا تھا۔ نا قابلِ یقین سرعت کے ساتھ انہوں نے عالی شان مقبرہ بنا ڈالا۔ اس کے قریب ہی انہوں نے چٹانوں سے ایک اونچا تخت تعمیر کیا، اسے چادروں سے ڈھکا اور اس کے ہتھے پھولوں سے سجا دیے، وہ بھی یہ سب کچھ برستی بارش میں۔۔ وہ گاڑیوں کے ملبے کے پاس گئے، دونوں لاشوں کو نکالا جن کی کھوپڑیاں پاش پاش ہو چکی تھیں اور بدن جل گئے تھے۔ اوندھے منھ لیٹے ہوئے مردہ آدمی کی لاش کو انہوں نے مباشرت میں مصروف جوڑے کے نیچے سے نکالا، جنہوں نے اس دوران اپنا کام ملتوی نہیں کیا۔ پھر ان لاشوں کو تخت پر سجایا اور اس کے بعد اس جوڑے کی طرف توجہ دی اور ان کو ایک ساتھ اٹھا لیا، اسی طرح ایک دوسرے میں پیوست اور ان کو مقبرے میں اتار دیا، اس کا شگاف بند کیا اور اوپر سے مٹی ڈال کر برابر کر دی۔ اس کے بعد نعرے لگاتے ہوئے، جن کے الفاظ کوئی سمجھ نہیں سکا، وہ ٹرکوں میں سوار ہوئے اور بجلی کی سی تیزی سے وہاں سے نکل گئے۔

”یہ تو ایسا لگ رہا ہے ہم عالمِ خواب میں ہیں!“

”ڈراؤنا خواب ہے، بہتر ہے یہاں سے چل دیں۔“

”نہیں، ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔“

”انتظار کس کا ؟“

”انجام بخیر۔“

”بخیر؟“

”یا پھر ہدایت کار کو بتا دیں کہ اس کے سامنے مکمل بربادی ہے۔۔“

وہ یہ گفتگو کر رہے تھے کہ ایک شخص جج کی قبا پہنے ہوئے مقبرے کے اوپر بیٹھ گیا۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ وہ کہاں سے آیا: کیا وہ یوروپین سیاحوں کے ساتھ آیا، بدوؤں کے ساتھ یا چور کے حلقہِ رقص میں سے۔۔ اس نے اپنے سامنے اخبار بچھا لیا اور ایک خبر اس طرح پڑھنے لگا، جیسے سزا کا فیصلہ سنا رہا ہو۔ کسی کو سنائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کہ اس کی آواز تالیوں کے شور، مختلف زبانوں کے غُل اور بارش میں دب گئی۔۔ مگر اس کے ناشنیدہ الفاظ اکارت نہیں گئے کہ شدید تصادم کی حرکات، تند موجوں کی طرح سڑک پر پھیل گئیں اور فساد برپا ہو گیا بدوؤں کے درمیان بھی اور اس طرف بھی، جدھر یوروپین سیاح موجود تھے۔ باقی لوگ ناچنے گانے لگے۔ بہت سے لوگ مقبرے کے گرد جمع ہو گئے اور برہنہ ہو کر مباشرت میں مشغول ہو گئے۔ چور ایک انوکھے رقص کی مستی میں آ گیا۔ سب کچھ زیادہ شدت اختیار کر گیا اور نقطہِ عروج کو پہنچ گیا: غارت گری اور رقص اور مباشرت اور موت، گرج چمک اور بارش۔

ایک طویل قامت شخص سائبان تلے کھڑے ہونے والوں کے درمیان چپکے سے آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ ننگے سر تھا، پتلون اور سیاہ پُل اوور سوئٹر پہنے ہوئے تھا اور اس کے ہاتھ میں دور بین تھی۔ اس نے لوگوں کو دھکے دے کر اپنا راستہ بنایا اور اپنی دور بین سے اس سڑک کو دیکھنے لگا، اسے مختلف سمتوں میں گھماتا جاتا اور ساتھ ہی ساتھ بڑبڑاتا، ”برا نہیں ہے۔۔۔۔۔ برا نہیں ہے۔“

اس گروہ کی نظریں اس شخص پر جم گئیں۔

”کیا یہی ہے وہ؟“

”ہاں، یہی ہدایت کار ہے۔“

اس شخص نے ایک مرتبہ پھر سڑک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”چلتے رہو، غلطی مت کرو ورنہ پھر ہر چیز شروع سے کرنی پڑے گی۔“

ان لوگوں میں سے ایک نے اس سے پوچھا، ”جناب، کیا آپ۔۔۔۔؟“

مگر اس نے یک لخت، غیر دوستانہ اشارے سے اسے روک دیا، اس لیے سوال پوچھنے والا اپنا ادھورا سوال لے کر چپ ہو گیا۔۔ مگر کسی اور نے اعصابی تناؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوال داغ دیا، ”کیا آپ ہدایت کار ہیں؟“

اس شخص نے سوال پوچھنے والے کی طرف رُخ بھی نہ کیا اور سڑک کی نگرانی جاری رکھی، جس کے دوران ایک انسانی سر بس اسٹاپ کے سائبان کے پاس لڑھکتا ہوا آیا اور اس سے کئی فٹ کے فاصلے پر رک گیا، جس جگہ سے اسے تن سے جدا کیا گیا تھا، وہاں سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔ سائبان تلے کھڑے ہونے والے لوگ دہشت کے مارے چیخنے لگے جبکہ دور بین والے نے کچھ دیر اس کی طرف دیکھا، پھر بڑبڑایا، ”بہت خوب۔۔۔۔ بہت خوب!“

”مگر یہ تو سچ مچ کا خون ہے!“ ایک آدمی نے چیخ کر اس سے کہا۔

اس شخص نے اپنی دور بین کا رُخ ادھر کر لیا، جہاں ایک مرد اور عورت مباشرت کر رہے تھے، پھر بہت بے صبری سے پکار کر کہا، ”پوزیشن بدلو، احتیاط کرو کہ اکتاہٹ نہ طاری ہونے لگے!“

”مگر یہ اصلی سر ہے!“ دوسرے آدمی نے چیخ کر اس سے کہا، ”خدارا کوئی ہمیں سمجھائے تو سہی کہ یہ سب کیا ہے؟“

”آپ کا ایک لفظ بھی ہمیں بتانے کے لیے کافی ہوگا کہ آپ کون ہیں اور یہ سب لوگ کون ہیں؟“ ایک اور آدمی نے کہا۔

”آپ کو بولنے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔“ تیسرے شخص نے التجا کی۔

”حضور۔۔۔“ چوتھے شخص نے درخواست کی، ”ہمیں ذہن فراہم کرنے سے گریز نہ کیجیے۔“

مگر دور بین والے آدمی نے پیچھے کی طرف زقند بھری، جیسے ان کے پیچھے چھپ جانا چاہتا ہو۔ اس کا تکبر پگھل کر متجسس نظروں میں ڈھل گیا، اس کی نخوت غائب ہو گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے یا کسی بیماری نے گھلا کر رکھ دیا ہے۔ سائبان کے گرد جمع ہونے والے لوگوں نے دیکھا کہ سرکاری افسروں جیسے چند لوگ قریب ہی گھوم رہے ہیں۔ کتوں کی طرح بُو سونگھتے پھر رہے ہیں۔ وہ شخص بارش میں دیوانوں کی طرح دوڑ پڑا، وہاں گھومنے والے لوگوں میں سے ایک اس کے پیچھے لپکا اور پھر طوفان کی طرح باقی بھی دوڑنے لگے۔ جلد ہی وہ سب وہاں سے غائب ہو چکے تھے اور سڑک کو قتل، مباشرت، رقص اور بارش پر چھوڑ گئے۔

”خدایا! وہ تو کوئی ہدایت کار نہیں تھا!“

”تو پھر وہ کون تھا؟“

”شاید وہ کوئی چور ہو۔“

”یا پھر مفرور پاگل قیدی۔“

”یا پھر وہ اور اس کے پیچھے بھاگنے والے اس فلم کا کسی سین کا حصہ ہیں۔“

”وہ یا پھر مفرور پاگل قیدی۔“

”مگر یہ اصلی واقعات ہیں اور ان کا اداکاری سے کوئی تعلق نہیں۔“

”مگر اداکاری تو وہ واحد امکان ہے، جو ان کو کسی حد قابل برداشت بناتی ہے۔“

”لیکن کسی امکان کو گھڑ لینے کی ضرورت نہیں۔“

”تو پھر تمہارے نزدیک اس کا کیا مطلب ہے؟“

”یہ حقیقت ہے، حالاں کہ۔۔۔۔“

”یہ سب کچھ کیسے ہو رہا ہے؟“

”یہ ہو رہا ہے۔“

”ہمیں ہر قیمت پر یہاں سے چلے جانا چاہیے۔“

”ہمیں تفتیش کے دوران گواہی کے لیے بلایا جائے گا۔“

“ابھی تھوڑی سی امید باقی ہے۔۔۔۔۔“

جس آدمی نے یہ کہا تھا، چند قدم بڑھ کر پولیس والے کے پاس گیا اور زور سے پکارا، ”سارجنٹ!“ اس نے چار مرتبہ آواز دی تب جا کر پولیس والے نے کان دھرا۔ اس نے منھ بنا لیا اور گلا صاف کرنے لگا، جس پر اس آدمی نے رحم کی درخواست کرتے ہوئے کہا، ”مہربانی فرما کر سارجنٹ صاحب۔۔۔۔۔“

سارجنٹ نے بدمزگی سے بارش کی طرف دیکھا، پھر اوور کوٹ اپنے گرد لپیٹا اور تیز تیز ڈگ بھرتا ہوا ان کے پاس آیا اور سائبان تلے آکر کھڑا ہو گیا، ”تمہیں اس سے کیا ہے؟“

”آپ نے دیکھا نہیں سڑک پر کیا ہو رہا ہے؟“

پلکیں جھپکائے بغیر اس نے کہا، ”بس اسٹاپ پر ہر شخص بس پکڑ کر جاچکا ہے۔ تمہارا کیا ارادہ ہے؟“

”اس سر کو تو دیکھیے۔“

”تمہارا شناختی کارڈ کہاں ہے؟“

ان کے کارڈز کا معائنہ کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک سنگ دلانہ، تمسخر آمیز مسکراہٹ پھیل گئی، ”تمہارے یہاں جمع ہونے کا سبب کیا ہے؟“

وہ نظروں ہی نظروں میں اپنی بے گناہی کا یقین دلانے لگے اور ان میں سے ایک بول اٹھا، ”ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو نہیں جانتا۔“

”یہ جھوٹ اب تمہارے کسی کام نہیں آئے گا۔“

وہ دو قدم پیچھے ہٹا۔ بندوق کا نشانہ ان کی طرف لے کر اس نے تیزی کے ساتھ اور تاک کر نشانہ لگایا۔ ایک کے بعد ایک وہ بے جان ہو کر زمین پر ڈھیر ہو گئے۔ ان کے بے جان بدن سائبان کے نیچے پڑے ہوئے تھے اور سرفٹ پاتھ کے اوپر بارش میں۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button