
دنیا کی سطح پر زندگی اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔
مصنوعی ذہانت لکھ رہی ہے، روبوٹس گاڑیاں چلا رہے ہیں، اور انسان خود کو کائنات کا سب سے ذہین مخلوق سمجھ رہا ہے، لیکن زمین کے اندر گہرائی میں ایک خاموش تعمیر جاری ہے۔ وہاں، جہاں روشنی کم اور راز زیادہ ہیں، ارب پتی ٹیکنالوجی مالکان اپنی ’’پناہ گاہیں‘‘ بنا رہے ہیں۔
فیس بُک کے بانی مارک زکربرگ کے ہوائی جزیرے پر 1400 ایکڑ پر پھیلے کمپاؤنڈ کی کہانیاں کسی سائنس فکشن ناول سے کم نہیں۔ چھ فٹ بلند دیواروں سے گھِرا یہ علاقہ نہ صرف دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہے بلکہ اس میں کام کرنے والے بڑھئی، الیکٹریشن اور انجینیئر بھی سخت معاہدوں کے پابند ہیں۔۔ جی ہاں، کسی کو کچھ بتانے کی اجازت نہیں۔
وائر میگزین کے مطابق، اس وسیع جائیداد میں ایک زیرِ زمین پناہ گاہ بھی شامل ہے، ایسی پناہ گاہ جو بجلی اور خوراک کے معاملے میں مکمل خودکفیل ہوگی۔ یعنی اگر بیرونی دنیا مفلوج ہو جائے، تب بھی زکربرگ کا یہ کمپاؤنڈ اپنی الگ دنیا میں زندہ رہ سکتا ہے۔
اس کمپاؤنڈ کے گِرد چھ فٹ اونچی دیوار ہے تاکہ قریب موجود سڑک سے اس کمپاؤنڈ کے اندر کچھ دکھائی نہ دے۔
جب مارک زکربرگ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ”بنکر“ کسی عالمی تباہی سے بچاؤ کے لیے بنایا جا رہا ہے، تو انہوں نے مسکرا کر کہا، ’’نہیں، یہ تو بس ایک چھوٹا سا بیسمنٹ ہے۔‘‘
لیکن ان کے اس جواب نے چہ میگوئیوں کو ختم نہیں کیا، بلکہ مزید بھڑکا دیا۔
خاص طور پر اس وقت، جب وہ کیلیفورنیا میں 11 جائیدادیں خریدتے پائے گئے، جن کے نیچے 7000 مربع فٹ پر مشتمل ایک اور ’’تہہ خانہ‘‘ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ان کے ہمسایے اسے ’’ارب پتی کا غار‘‘ کہتے ہیں۔
مارک زکربرگ اکیلے نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ مارک زکربرگ کے علاوہ دیگر ٹیکنالوجی کپمنیوں کے مالکان بھی ایسی زمینوں کی خریداری میں مصروف ہیں جن کے ساتھ باقاعدہ تہہ خانے یا مشکل صورتحال میں پناہ لینے کی غرض سے بنائی گئی جگہیں ہیں۔
لنکڈ اِن کے شریک بانی ریڈ ہیفمین بھی ”اپوکلیپس انشورنس“ ، یعنی ’دنیا کی تباہی سے بچاؤ کی تیاری‘ کا ذکر کر چکے ہیں۔
ریڈ ہیفمین نے نیوزی لینڈ میں ایک ایسا گھر بنایا ہے جو بظاہر خوبصورت ریزورٹ لگتا ہے، لیکن دراصل بحران کے دنوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔
تو کیا یہ امیر ترین افراد کسی جنگ، ماحولیاتی تبدیلی یا پھر کسی اور ایسی تباہی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے باقی دنیا واقف نہیں ہے؟
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاملے کو گہرائی تک پرکھنے والے ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا ہے: کیا ٹیکنالوجی کے یہ بادشاہ کسی ایسی تباہی کی تیاری کر رہے ہیں، جس کے بارے میں عام انسان ابھی لاعلم ہیں؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ وہ خود جو تخلیق کر رہے ہیں، ایک دن ان پر ہی قابو پا لے گا؟
حالیہ برسوں میں خطرات کی اس فہرست جس نئے دیو نے جگہ بنائی ہے، وہ ہے مصنوعی ذہانت کا جن، جو کئی ماہرین کے مطابق ”انسانوں کے لیے خوفناک“ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سنہ 2023 کے وسط میں سان فرانسسکو کی ایک فرم نے چیٹ جی پی ٹی ریلیز کیا تھا اور اب دنیا کے کروڑوں افراد اسے استعمال کر رہے ہیں۔ کمپنی اس چیٹ بوٹ کو وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے اپڈیٹ بھی کر رہی ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI) کی اس برق رفتار ترقی نے کئی ماہرین کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ اوپن اے آئی کے چیف سائنسدان ایلیا ستھسکیور خود تسلیم کرتے ہیں کہ انسان ”آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس“ (AGI) کی دہلیز پر کھڑا ہے۔۔ وہ لمحہ، جب مشین انسانی ذہانت کے برابر یا شاید اس سے آگے نکل جائے گی۔
یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے خوف شروع ہوتا ہے۔ صحافی کیرن ہؤ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور نے اپنے ساتھیوں سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ کمپنی کو (اے جی آئی) کی ریلیز سے قبل اہم شخصیات کے لیے زیر زمین پناگاہیں بنانی چاہئیں۔
گویا دنیا کے سب سے ذہین دماغ بھی اپنی ہی تخلیق سے لرزاں ہیں۔
وقت کم، خوف زیادہ
یہ منظر کسی سسپنس فلم کے کلائمکس جیسا لگتا ہے، جہاں خود خالق اپنی تخلیق سے ڈرنے لگتا ہے۔ دنیا کے بڑے سائنسدان اور ٹیکنالوجی کے شہنشاہ، جو کل تک مصنوعی ذہانت کو انسانیت کا سب سے بڑا تحفہ کہتے تھے، اب اسی کے ممکنہ انجام سے لرزاں ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک پوشیدہ خوف ہے، اگر وہ دن آ گیا جب مشین نے سوچنا شروع کر دیا، تو پھر انسان کا کیا بنے گا؟
سوال اب یہ نہیں کہ آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس (AGI) آئے گی یا نہیں،
بلکہ یہ ہے کہ جب وہ آئے گی، تو کیا ہم اسے خوش آمدید کہیں گے یا اس سے پناہ مانگیں گے؟
سیم آلٹمین، اوپن اے آئی کے سربراہ، نے کہا تھا: ”اے جی آئی AGI کئی لوگوں کے اندازے سے پہلے آ جائے گی۔“
کچھ ماہرین کے مطابق، یہ پانچ سے دس سال میں ممکن ہے، اور کچھ اسے 2026 تک کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے، تو ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔
اے آئی دنیا میں تیزی سے بڑھنے والی ٹیکنالوجی ہے۔ دنیا کی کئی کمپنیاں اے آئی پر کام کر رہی ہیں۔
حال ہی میں مصنف ایرک شمٹ نے اپنی کتاب ’جینیئسس‘ Geniuses میں لکھا ہے کہ ہنری کسنجر ایک انتہائی طاقتور ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کرتے تھے جو فیصلہ سازی اور قیادت انتہائی موثر انداز میں کر سکے۔
وہ لوگ جو سپر انٹیلیجنس اور آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس کے حامی ہیں، اسے کسی آنے والے سنہرے دور کی دستک سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک یہ ٹیکنالوجی محض مشین نہیں، ایک معجزہ ہے، جو بیماریوں کے علاج دریافت کرے گی، موسموں کے توازن کو بحال کرے گی اور زمین پر ایک نئی آسودہ زندگی کی بنیاد رکھے گی۔
ایلون مسک تو اسے ”دنیا کی نئی معیشت کا آغاز“ قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سپر انٹیلیجنٹ اے آئی کے دور میں دولت، سہولت اور آسائش کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں رہے گی۔
مسک کے الفاظ میں، ”وہ وقت دور نہیں جب ہر انسان کو بہترین علاج، وافر خوراک، محفوظ گھر اور آسان سفر میسر ہوگا۔۔ اور یہ سب کچھ ’کبھی ختم نہ ہونے والا‘ ہوگا۔“
ایسا لگتا ہے جیسے وہ ایک ایسی دنیا کا نقشہ کھینچ رہے ہوں، جہاں انسان نہیں، بلکہ مشینیں انسانیت کی محافظ ہونگی۔
لیکن سوال پھر وہی ہے:
اگر وہی روبوٹس فیصلہ کریں کہ انسان اس دنیا کے مسائل کی جڑ ہیں، تو کیا ہوگا؟
ورلڈ وائیڈ ویب کے بانی ٹم برنرز لی نے خبردار کیا تھا: ”اگر یہ (مصنوعی ذہانت) آپ سے زیادہ ہوشیار ہو گئی، تو ہمیں اسے بند کرنے کے قابل ہونا ہوگا۔“
مگر کیا ہم واقعی اسے بند کر سکیں گے؟ یا پھر وہ لمحہ آنے سے پہلے ہی ارب پتی طبقہ اپنے بنکروں میں غائب ہو جائے گا؟
امریکی صدر بائیڈن نے 2023 میں کمپنیوں کو پابند کیا تھا کہ وہ اپنے حفاظتی تجربات کے نتائج حکومت کو دیں، لیکن ٹرمپ کے آنے کے بعد یہ حکم نامہ منسوخ کر دیا گیا۔ گویا ٹیکنالوجی ایک بےلگام دوڑ بن چکی ہے اور کوئی بریک موجود نہیں۔
دماغ بمقابلہ مشین: آخری سرحد
کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر نیل لارنس کے مطابق، AGI ایک ”غیر حقیقی تصور“ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”ایسا سمجھنا کہ ایک ہی ذہانت ہر کام کر سکتی ہے، ویسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ایک ہی سواری زمین، سمندر اور فضا میں چل سکتی ہے۔“
انسانی دماغ اب بھی بےمثال ہے۔ 86 ارب نیوران، جو لمحہ بہ لمحہ نئی معلومات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، مشین ابھی وہاں تک نہیں پہنچی۔۔ مگر سوال یہ نہیں کہ وہ کب پہنچے گی، سوال یہ ہے کہ ہم کب تیار ہوں گے۔
کیا زیرِ زمین یہ بنکرز دراصل انسانیت کے نئے دور کا آغاز ہیں؟ جہاں دنیا کی سطح پر افراتفری ہو، مگر زمین کے نیچے چند منتخب افراد ایک نئی ”تہذیب“ کی بنیاد رکھیں؟ یا پھر یہ محض ایک نفسیاتی حفاظتی دیوار ہے، جو خوف کے سایوں میں تعمیر ہو رہی ہے؟
سچ جو بھی ہو، ایک بات طے ہے: انسان جتنا اوپر گیا ہے، اتنا ہی نیچے چھپنے لگا ہے۔۔ اور شاید یہی ہماری ٹیکنالوجی کی اصل کہانی ہے۔۔ ایک ایسی دوڑ، جس کا انجام زمین کے نیچے کہیں چھپا ہوا ہے۔




