
اگر آپ سے کہا جائے کہ سات سو سال تک دنیا کے سب سے بڑے تاریخی سانحے، ’طاعونِ اعظم‘ (Black Death) کے پھیلاؤ سے متعلق جو کچھ ہم جانتے رہے، وہ دراصل ایک ادبی نظم کی غلط تشریح تھی۔۔۔ تو کیسا لگے گا؟
تاریخ کے اوراق میں کبھی کبھی سچ خاموش رہ جاتا ہے اور کہانیاں بولنے لگتی ہیں۔ قرونِ وسطیٰ کے بارے میں ہماری بہت سی معلومات ایسی کہانیوں کی رہینِ منت ہیں جو نسل در نسل نقل ہوتی رہیں، اور بالآخر حقائق کا روپ دھار گئیں، لیکن اب ایک نئی تحقیق نے دنیا بھر کے مورخین کو چونکا دیا ہے: طاعونِ اعظم (Black Death) کے ایشیا بھر میں تیز رفتار پھیلاؤ سے متعلق جدید نظریہ نے کسی تاریخی دستاویز کی بنیاد پر نہیں بلکہ دراصل قرونِ وسطیٰ کی عربی ایک عربی نظم ”مَقَامَہ“ کے غلط فہم مفہوم سے جنم لیا تھا۔
ماہرین نے پایا ہے کہ صدیوں سے دنیا کے نقشوں، کتابوں اور تاریخی بیانات میں جو منظرنامہ دکھایا جاتا رہا کہ طاعون تیزی سے ”شاہراہِ ریشم“ (Silk Route) کے ذریعے پورے ایشیا میں پھیلا، وہ حقیقت میں تاریخی ریکارڈ پر نہیں بلکہ ایک منظوم عربی قصے کی غلط تشریح پر مبنی تھا۔
جی ہاں۔ ایک ادبی صنف، جو تفریح، استعاروں اور مبالغے کے لئے لکھی جاتی تھی اور جس کا مقصد حقیقت بیان کرنا ہرگز نہیں تھا، صدیوں تک تاریخ سمجھی جاتی رہی۔
غلط فہمی کا آغاز: ایک نظم، ایک کہانی
سنہ 748/749 ہجری (1348/9 عیسوی)، شہر حلب (Aleppo)۔ دنیا طاعونِ اعظم کی لپیٹ میں ہے۔ لاکھوں لوگ مر رہے ہیں۔ خوف ہر چہرے پر لکھا ہے۔ ایسے میں ایک شاعر اور مورخ، ابنُ الْوردی قلم اٹھاتا ہے اور ایک ”مَقَامَہ“ لکھتا ہے۔
مَقَامَہ، یعنی وہ داستان جس میں: ایک چالاک، سیّاح یا مکار کردار ہوتا ہے، زبان شاعرانہ، الفاظ تیز تراشے ہوئے، مقصد حقیقت نہیں، اثر پیدا کرنا اور رنگ آمیزی ہوتا ہے۔
اب نئی تحقیق میں یہ تصور سختی سے مسترد کیا گیا ہے کہ جرثومہ محض چند برسوں میں تین ہزار میل کا زمینی سفر طے کر کے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں 1347ء تا 1350ء تک تباہ کن طاعون کا باعث بنا۔
ابن الوردی کی مقامہ (رسالة نَبَأُ الوَبَاءِ) سے وابستہ اس مشہور روایت/کہانی کے مطابق طاعونِ اعظم کا آغاز مشرق سے ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ وبا تاتاری سرزمینوں سے اٹھی، چنگیز اور اس کے جانشینوں کے علاقے سے، جہاں اس نے پہلے جنگلات، شہروں اور بستیوں کو تاراج کیا۔ وہ اس طاعون کو ایسے بیان کرتے ہیں گویا ایک غیبی لشکر ہے جو ہر مقام کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ وبا چین سے ہوتی ہوئی ہندوستان، افغانستان اور ایران کی گزرگاہوں سے گزرتی ہے۔ ابن الوردی خاص طور پر کرمان، ہرمز اور تبریز کا ذکر کرتے ہیں کہ وہاں یہ اتنی تیزی سے پھیلی کہ نہ کفن میسر آئے اور نہ تدفین کا وقت۔ لوگ گھروں میں مرتے اور گھروں میں دفنائے جاتے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بازار ویران اور گلیاں خاموش تھیں، جیسے زندگی نے سانس لینا چھوڑ دیا ہو۔
پھر وہ بتاتے ہیں کہ یہ طاعون شام پہنچا۔ حلب اور دمشق کے شہر میں روزانہ ہزاروں لوگ مر رہے تھے۔ امیر و غریب، عالم و عامی کسی کی جان محفوظ نہ تھی۔ لوگ گھروں کے دروازوں پر تعویذ لٹکاتے، اجتماعات میں دعائیں کرتے لیکن موت کی رفتار روکنے سے باہر تھی۔ شام میں لوگ جنازوں کی قطاروں سے خوفزدہ تھے، جیسے شہر روزانہ اپنے باشندوں کو دفن کر رہا ہو۔
آخرکار یہ وبا مصر اور وہاں سے بحری راستے سے یورپ میں داخل ہوئی۔ ابن الوردی کے الفاظ میں یہ ایک ایسا ’’سفر‘‘ تھا جسے کوئی روک نہ سکا۔ طاعون ایک شہر سے دوسرے شہر تک تاجر قافلوں، مسافروں اور جہازوں کے ذریعے پہنچتا رہا۔ جہاں پہنچتا، وہاں زندگی کا پہیہ رک جاتا۔
یوں اپنی مَقَامَہ میں ابنُ الوردی طاعون کو ایک مسافر دھوکے باز کی طرح پیش کرتے ہیں، جو پندرہ برس میں ایک خطے کے بعد دوسرے خطے کو تباہ کرتا ہے۔ یہ سب ادبی تصویرکشی تھی، لیکن ساتھ ہی ابنُ الوردی نے اسی مَقَامَہ کے چند حصے اپنی تاریخی تحریر میں بھی شامل کر دیے۔ اور یہیں سے غلطی جنم لیتی ہے۔
بعد کے مورخین، خاص طور پر پندرہویں صدی کے عرب مؤرخین نے اسے لفظ بہ لفظ تاریخ سمجھ لیا۔ پھر یہی غلطی یورپ پہنچی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے، دنیا بھر کے نقشوں، کتابوں اور تحقیقی مقالوں نے یہ فرض کرلیا کہ طاعون واقعی اسی طرح اور اسی رفتار سے پھیلا تھا۔
”تیز رفتار پھیلاؤ کا نظریہ“ جو حقیقت میں تھا ہی نہیں
اس غلط تشریح کے نتیجے میں ایک نظریہ پیدا ہوا جسے جدید مورخین نے تیز رفتار پھیلاؤ کا نظریہ Quick Transit Theory کا نام دیا۔ یعنی طاعون پیدا کرنے والا جرثومہ قرغیزستان سے چل کر صرف دس برسوں میں تین ہزار میل دور بحیرۂ روم تک پہنچ گیا!
یہ نظریہ اتنا پختہ سمجھا گیا کہ بعض سائنسی اور جینیاتی مطالعات نے بھی اسے بنیاد بنا لیا، لیکن نئی تحقیق نے بتایا ہے کہ یہ پورا نظریہ صرف ایک نظم کی غلط تعبیر تھا۔ نہ اس کے حق میں دوسرے تاریخی متون موجود ہیں، نہ معاصر شہادت، نہ سائنسی ثبوت۔
”مکڑی کے جال کا مرکز“ تحقیق کی روشنی میں
یہ انکشاف کیا ہے دو محققین نے: پی ایچ ڈی محقق، عربی و اسلامی مطالعات کے ماہر محمد عمر اور ماہرِ تاریخِ طبِ اسلامی، یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے نہیان فانسی۔
نہیان فانسی ہتے ہیں کہ طاعون کے تیز رفتار پھیلاؤ کے غلط تصور تک پہنچنے والے تمام راستے اسی ایک متن تک جاتے ہیں۔ یہ متن اس غلط فہمی کے مکڑی کے جال کا مرکز ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے، ”یہ رسالہ ادبی تھا، تاریخی نہیں۔ یہ لوگوں کو دکھانے کے لیے تھا کہ طاعون سفر کرتا ہے اور دھوکہ دیتا ہے۔ اسے حقیقت سمجھنا ہی غلطی تھی۔“
مَقَامَہ: ادب، تفریح اور نفسیاتی بقا
مَقَامَہ کوئی عام متن نہیں تھا۔ یہ ایک ادبی پرفارمنس تھی، ایسی تحریر جو ایک ہی نشست میں بلند آواز سے پڑھی جاتی تھی۔ مبالغہ آرائی، تمثیل، مزاح، زبانی چہل پہل۔۔ یہ اس صنف کے بنیادی عناصر تھے۔
مَقَامَہ کی صنف دسویں صدی کے آخر میں پیدا ہوئی، اور بارہویں صدی کے بعد خاص طور پر مقبول ہوئی۔ طاعون کے موضوع پر تحریر کردہ کئی مَقَامَات آج بھی دنیا بھر کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔
چودھویں صدی کے مملوک دور میں مَقَامَہ بہت مقبول تھی۔ اسی زمانے میں طاعون کے موضوع پر کم از کم تین مَقَامَات لکھی گئیں، ابنُ الوردی کی مقامہ ان میں سے ایک تھی۔
محققین کے مطابق ان مَقَامَات کے معنوی پہلو کو سمجھنا ضروری ہے: یہ وہ دور تھا جب لوگ بے بسی، خوف اور موت کے درمیان گھرے ہوئے تھے۔ تخلیق شاید ان کا نفسیاتی سہارا تھی۔
نہیان فانسی ایک دلچسپ مثال دیتے ہیں: ”جس طرح کووِڈ۔19 کے دور میں لوگوں نے کھانا پکانا، مصوری اور نئی چیزیں سیکھنا شروع کیں، اسی طرح طاعون کے دور میں لوگ مَقَامَہ لکھ رہے تھے۔ تخلیق، ایک طرح کی بقا تھی۔“
کہانی ختم، مگر سبق باقی
قبل ازیں بھی مورخین اور سائنس دان طویل عرصے تک اس سوال پر پریشان رہے کہ بلیک ڈیتھ نے اتنے مختصر وقت میں اتنے وسیع علاقے کو کیسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بعض ماہرین نے یہ خیال پیش کیا کہ وبا کی اصل شکل بوبونک نہیں بلکہ نیومونک طاعون تھی، کیونکہ نیومونک طاعون ہوا کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے، اور بظاہر اس سے تیزی سے پھیلاؤ کی وضاحت ممکن تھی۔
لیکن تحقیق نے اس مفروضے کو کمزور کر دیا۔ نیومونک طاعون اگرچہ مہلک ترین صورت ہے، مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت جلد مہلک ثابت ہوتا ہے، بعض اوقات صرف چند گھنٹوں میں، جس کی وجہ سے متاثرہ شخص زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا کہ وہ دوسروں کو متاثر کر سکے۔ یوں، جو چیز بظاہر تیز پھیلاؤ کو ممکن بناتی ہے، وہی حقیقت میں پھیلاؤ کو محدود بھی کرتی ہے۔
اب، سات سو برس بعد، یہ نئی تحقیق تاریخ دانوں کے ہاتھ میں ایک نیا عدسہ دے رہی ہے۔ ہم تسلی سے پیچھے دیکھ سکتے ہیں اور پوچھ سکتے ہیں: کیا واقعی طاعون تیز رفتاری سے پھیلا؟ یا ہمارا ذہن بھی ابنُ الوردی کے مسافر دھوکے باز کے پیچھے بھاگ رہا تھا؟
نئی تحقیق کے مطابق: طاعون کا آغاز غالباً وسطی ایشیا میں ہوا۔ اور یہ کہ مقامی وبائیں پہلے سے جاری تھیں، جیسے: 1258ء میں دمشق اور 1232–33ء میں کائی فنگ (Kaifeng)
اب تاریخ دان ان پہلے واقعات پر تحقیق کر رہے ہیں، جو پہلے مَقَامَہ کی چھاؤں میں چھپے رہے۔
کبھی کبھی ایک ادبی متن، ایک نظم اتنی طاقت رکھتی ہے کہ صدیوں تک تاریخ کا دھارا بدل دے۔ لیکن سچ یہی ہے: تاریخ صرف وہ نہیں جو لکھی جائے، تاریخ وہ بھی ہے، جسے پڑھنے والا سمجھ لے۔ اور اگر پڑھنے والا غلط سمجھ لے تو ایک ادبی چالاک کردار سات سو سال تک ہمیں دھوکہ دے سکتا ہے۔
یہ صرف طاعون کی کہانی نہیں، یہ بیانیے کی طاقت ہے اور علم کی ذمہ داری کی کہانی ہے۔
امر گل
حوالہ:
Mamluk Maqāmas on the Black Death
مصنفین: Muhammed Omar اور Nahyan Fancy
تاریخِ اشاعت: 31 اکتوبر 2025
Journal of Arabic and Islamic Studies
DOI: 10.5617/jais.12790




