
پاکستان میں عوامی مفاد کی عدالتی لیٹیگیشن نہ ہونے کے برابر ہیں، تقریباً موجود ہی نہیں۔ آپ سو موٹو اختیارات چھین سکتے ہیں، عدالتوں کی تشکیلِ نو کر سکتے ہیں، لیکن بنیادی حقوق یا وہ قانونی بنیادیں جن پر مقدمات کھڑے ہوتے ہیں، انہیں کبھی ختم نہیں کیا جا سکا۔
اس ملک میں قانون کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم 2007 سے آگے بڑھے ہی نہیں۔ اُس وقت ہمارے نعرے ”عدلیہ کی آزادی“ اور ”قانون کی حکمرانی“ تھے، اور آج بھی وہی ہیں۔ ذرا ٹھہر کر اس بات کو سوچ کر دیکھیں۔ قانون کی حکمرانی اچھی لگنے والی بات ضرور ہے، مگر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ بیرک گولڈ کو اُن کے معاہدوں کے مطابق سونا دینے کی اجازت ہو۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک سزا یافتہ قیدی کو رات کی تاریکی میں پھانسی دے دی جائے۔ قانون کی حکمرانی یہ بھی ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں جائز ہیں کیونکہ وہ باقاعدہ طور پر قائم کی گئی ہیں۔ قانون کی حکمرانی ایک دن یہ بھی ماننے پر مجبور کرے گی کہ 26ویں اور 27ویں ترامیم کو قبول کیا جائے۔ تو برائے مہربانی اپنے نعرے بدلیں، کہیں کہ ”عوام کے لیے قانون“ اور ”قانون کا یہ مطلب ریئل اسٹیٹ اور ورلڈ بینک نہیں ہے“۔
ہم نے گزشتہ اٹھارہ سالوں میں کوئی تنقیدی، تجزیاتی اور ساخت شکن قانونی جدوجہد پیدا ہی نہیں کی۔ ہمارے لاء اسکول ایسے وکیل پیدا کر رہے ہیں جو مجھے یہ سمجھاتے ہیں کہ ”ان کسانوں کے پاس ملکیتی دستاویزات نہیں، اور اگر وہ زمین ریئل اسٹیٹ مافیا کو بیچنا چاہیں تو یہ ان کی آزادیِ انتخاب ہے“۔ جو قسم کی فیمنسٹ وکالت ہم تیار کر رہے ہیں، وہ جیلوں کے خاتمے کے بجائے صرف سزا دلوانے پر مُصر ہے، اور بحالی انصاف (restorative justice) کو ایسے پیش کرتی ہے جیسے یہ کوئی انقلابی نظریہ ہو، حالانکہ جیلوں کی صنعت اور اُن کی نوآبادیاتی تاریخ کے تناظر میں یہ محض ایک عارضی مرہم ہے۔ اس پس منظر میں جیلوں کی صنعتیں، نوآبادیاتی تشدد اور ان کی سفاک تاریخیں آج بھی زندہ ہیں۔ ہم آج بھی اسی کالونیل استعماری دور میں زندہ ہیں، جس دور میں برطانیہ سامراج نے غریبوں کو کچلنے کے لیئے قوانین بنائے گئے تھے، آج انہی قوانین کے ذریعے یہاں کے انڈیجینئس مقامی لوگوں کو اپنے ہی زمینوں سے بےدخل کیا جا رہا ہے۔
قانون ایک ایسا میدان ہے جس میں بے شمار امکانات تھے، مگر یہ چند مردوں کے تنگ نظر مقاصد کا زینہ بن چکا ہے۔ مجھے تو خوشی ہوتی اگر وکیل قانونی باریکیوں کے دیوانے ہوتے، مگر وہ اس طرح محنت اور مطالعہ کرنے والے نہیں۔ اگر آپ دنیا بھر کے فیصلے پڑھیں تو شاید کبھی بھی ”لغاری“ والے فیصلے پر اتنا فخر محسوس نہ کریں، مگر میں دیکھتی ہوں کہ میرے سابقہ طلبہ اپنے سوٹ کے برانڈ اور دفتر کی چمک دمک پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ”بیرسٹر“ کا لقب کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ اچھی قانونی تعلیم ضرور ہے اور میں اپنے سابقہ طلبہ کی محنت کا احترام بھی کرتی ہوں، مگر یہ ٹائٹل اپنے آپ میں کھوکھلا ہے، برطانیہ آپ کو نہ ویزا دیتا ہے، نہ نوکری، نہ اپنی عدالتوں میں پریکٹس کا حق۔ کسی بھی سنجیدہ اور باشعور معاشرے میں اگر کوئی میئر بیرسٹر کا لیبل لگا کر گلوبل ساؤتھ کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرے، خاص طور پر ایک ایسے شہر میں جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا اور اب کھنڈر ہے، تو اسے بے رحمی سے مذاق کا نشانہ بنایا جائے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے میں کہوں کہ کیلیفورنیا بار پاس کرنے سے میں سیدہ بن گئی ہوں۔
قانون کی عملی دنیا کو بنیادی طور پر چند اشرافیہ وکلا نے یرغمال بنا لیا ہے۔ اُن میں نہ صبر ہے، نہ وہ اہلیت کہ ویسے ہی سڑکوں پر نکلیں جیسے 2007 میں نکلے تھے۔ تب بھی وہ انتہائی متکبر تھے اور محنت کش وکلاء کو اپنی طاقت کے زور پر احتجاج کے لیے باہر لاتے تھے۔ انہی وکلا نے اب غالب حیثیت اختیار کر لی ہے اور عدالتوں کو مردانہ غلبے اور پیسہ کمانے کی جگہیں بنا دیا ہے۔ اس حد کی جارحانہ مردانہ عصبیت اور پدرسری کا کوئی جواز نہیں کہ ہماری عدالت میں اور سڑکوں پر ہر دو سو مردوں کے مقابلے میں ایک عورت دکھائی دے۔
مجھے خوشی ہے کہ سندھ کے وکیل اب آواز اٹھا رہے ہیں، مگر جب تک ہم ان ’ایلیٹ‘ یا اشرافیہ وکیلوں کو ہٹائیں گے نہیں، جو سندھ کے وکیلوں کی جدوجہد پر مفت کی سواری کر رہے ہیں، یہ شعبہ اسی طرح اقربا پروری، عورت دشمنی اور طاقتور طبقے کے مفادات کے گرد گھومتا رہے گا۔




