مینڈک کے آنتوں سے ملنے والا جرثومہ، کینسر کے علاج کے لیے نئی امید

ویب ڈیسک

کینسر کے علاج کی دنیا میں ایک غیر متوقع مگر حیرت انگیز پیش رفت سامنے آئی ہے اور اس کا آغاز کسی جدید لیبارٹری میں تیار کی گئی دوا سے نہیں، بلکہ جاپانی درختوں کے مینڈک کے آنتوں میں پائے جانے والے ایک معمولی سے بیکٹیریا سے ہوا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق، اس بیکٹیریا کی صرف ایک خوراک نے تجرباتی طور پر چوہوں میں موجود کینسر کے ٹیومرز کو مکمل طور پر ختم کر دیا، وہ بھی ایسے انداز میں جو موجودہ معیاری علاج سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوا!

یہ تحقیق جاپان ایڈوانسڈ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (JAIST) کے محققین نے کی، جنہوں نے ایک عرصے سے امفیبیئنز اور رینگنے والے جانوروں کی غیر معمولی حیاتیاتی خصوصیات پر غور کیا ہوا تھا۔ سوال یہ تھا کہ آخر یہ جانور، جو جراثیم سے بھرپور ماحول میں رہتے ہیں، جسمانی ساخت میں تبدیلی (میٹامورفوسس) اور اعضا کی دوبارہ افزائش جیسے شدید خلیاتی دباؤ سے گزرتے ہیں، اور اپنے جسامت کے مقابلے میں طویل عمر بھی پاتے ہیں، ان میں کینسر اتنا کم کیوں پایا جاتا ہے؟

سائنس دانوں نے دیکھا کہ جنگلی امفیبیئنز اور رینگنے والے جانوروں میں خود بخود بننے والے ٹیومرز نہایت نایاب ہیں، اور اگر کبھی سامنے آئیں بھی تو وہ زیادہ تر آلودگی یا غیر فطری تجربہ گاہی حالات سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ تمام عوامل عام حالات میں کینسر کے خطرے کو بڑھانے والے سمجھے جاتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ یہی تضاد محققین کو اس سمت لے گیا کہ شاید اس غیر معمولی تحفظ کا راز خود جانوروں کے خلیات میں نہیں، بلکہ ان کے اندر بسنے والے جرثوموں میں چھپا ہو۔

اسی خیال کے تحت ٹیم نے جاپانی درختی مینڈکوں، جاپانی فائر بیلی نیوٹ (Cynops pyrrhogaster) اور جاپانی گھاس چھپکلی (Takydromus tachydromoides) کے آنتوں سے 45 مختلف اقسام کے بیکٹیریا الگ کیے۔ ان سب کی کڑی جانچ پڑتال کے بعد فہرست نو ایسے بیکٹیریا تک محدود ہو گئی جن میں ٹیومر کے خلاف سرگرمی دیکھی گئی۔ ان میں سب سے زیادہ طاقتور اور نمایاں اثر ایک بیکٹیریا نے دکھایا، جس کا نام ہے ایوِنگیلا امیریکانا Ewingella americana، اور یہی اس تحقیق کا اصل ہیرو بن کر سامنے آیا۔

محققین کے مطابق، ایوِنگیلا امیریکانا نے نہایت غیر معمولی خلیاتی زہریلا اثر دکھایا، مگر اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ اثر منتخب طور پر صرف ٹیومر کے خلیات تک محدود رہا۔ یہ بیکٹیریا فیکلٹیٹو اینیروبک ہے، یعنی کم آکسیجن والے ماحول میں بہتر طور پر زندہ رہ سکتا ہے، اور ٹھوس ٹیومرز عموماً ایسے ہی ماحول پر مشتمل ہوتے ہیں۔

مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بیکٹیریا دوہری حکمتِ عملی کے تحت کام کرتا ہے: ایک طرف یہ براہِ راست کینسر کے خلیات کو ہلاک کرتا ہے، اور دوسری طرف یہ میزبان کے مدافعتی نظام کو اس شدت سے متحرک کر دیتا ہے کہ ٹی سیلز، نیوٹروفِلز اور بی سیلز مل کر ٹیومر پر بھرپور حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ تجربات میں یہ بھی سامنے آیا کہ ایوِنگیلا امیریکانا نے ٹیومر کے سکڑاؤ میں ان معیاری علاجوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، جو اس وقت دنیا بھر میں استعمال ہو رہے ہیں، جیسے اینٹی PD-L1 اینٹی باڈی اور کیموتھراپی کی معروف دوا ڈوکسوروبیسن۔

جب اس بیکٹیریا کی ایک ہی خوراک رگ کے ذریعے کولوریکٹل کینسر میں مبتلا چوہوں کو دی گئی تو نتائج حیران کن تھے۔ ہر علاج شدہ چوہے میں ٹیومر مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ اثر وقتی نہیں تھا۔ بعد میں جب انہی چوہوں کو دوبارہ کینسر کے خلیات کے سامنے رکھا گیا تو کسی میں بھی نیا ٹیومر پیدا نہیں ہوا۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ علاج نے محض ٹیومر کو ختم نہیں کیا، بلکہ مدافعتی نظام میں ایسی دیرپا یادداشت پیدا کر دی جو آئندہ حملوں کے خلاف بھی ڈھال بن گئی۔

تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے یہ راز بھی کھولا کہ ایوِنگیلا امیریکانا اتنا مؤثر کیوں ہے۔ اس بیکٹیریا کو ٹھوس ٹیومرز کے اندر کم آکسیجن والا ماحول قدرتی طور پر اپنی طرف کھینچتا ہے۔ نتیجتاً، صرف 24 گھنٹوں کے اندر اس کی تعداد تقریباً تین ہزار گنا بڑھ گئی، لیکن حیرت انگیز طور پر یہ کسی صحت مند عضو یا بافت کی طرف منتقل نہیں ہوا۔ ٹیومر کے اندر یہ بیکٹیریا ایسے زہریلے مادّے خارج کرتا ہے جو براہِ راست کینسر کی افزائش کو ختم کر دیتے ہیں۔

اسی کے ساتھ ساتھ، بیکٹیریا کی موجودگی نے جسم کے قدرتی مدافعتی نظام کو بھی چوکنا کر دیا۔ ٹیومر کے اردگرد نیوٹروفِلز، ٹی سیلز اور بی سیلز کی بھرمار ہو گئی، جبکہ سوزش سے متعلق سگنلز میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ یوں ایک مشترکہ حملہ تشکیل پایا، جس میں ایک طرف بیکٹیریا خود کینسر پر وار کر رہا تھا اور دوسری طرف جسم کا اپنا دفاعی نظام پوری قوت سے متحرک ہو چکا تھا۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ نچلے درجے کے فقاری جانوروں کے آنتوں کے مائیکروبایوم میں ایسے بے شمار بیکٹیریا موجود ہو سکتے ہیں، جن کی علاج کی صلاحیتیں ابھی تک انسان کے علم میں نہیں آ سکیں۔ یہ مطالعہ قدرتی، غیر مرض پھیلانے والے بیکٹیریا پر مبنی علاج کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ مائیکروبیل حیاتیاتی تنوع مستقبل کے کینسر علاج میں کس قدر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو اس بیکٹیریا کی حفاظت سے متعلق ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا کہ E. americana تیزی سے خون سے خارج ہو جاتا ہے اور 24 گھنٹوں کے اندر ناقابلِ شناخت ہو جاتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے سوزشی اثرات بھی عارضی تھے اور 72 گھنٹوں میں ختم ہو گئے۔ دو ماہ تک جاری رہنے والی نگرانی میں کسی عضو کو نقصان یا دائمی زہریلے پن کے شواہد نہیں ملے۔ مزید یہ کہ یہ بیکٹیریا اینٹی بایوٹکس کے لیے حساس پایا گیا، یعنی کسی ہنگامی صورت میں اسے باآسانی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ محققین کے مطابق، یہ خصوصیات اسے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیکٹیریا پر مبنی علاج کے مقابلے میں زیادہ محفوظ بناتی ہیں۔

اگرچہ یہ نتائج نہایت حوصلہ افزا ہیں، لیکن سائنس دان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور صرف چوہوں تک محدود ہے۔ انسانوں اور چوہوں کے ٹیومرز میں کئی مالیکیولی مماثلتیں ضرور ہیں، لیکن مدافعتی نظام اور ردِعمل میں فرق بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود، قدرتی بیکٹیریا کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا یہ تصور کینسر کے علاج میں ایک بالکل نئی راہ کھولتا دکھائی دیتا ہے۔

آنے والے مرحلوں میں محققین اس بیکٹیریا کی افادیت کو چھاتی کے کینسر، لبلبے کے کینسر، میلانوما اور دیگر ایسی بیماریوں میں جانچیں گے۔ ساتھ ہی خوراک اور ترسیل کے طریقوں کو مزید بہتر بنایا جائے گا، اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آیا یہ علاج موجودہ امیونو تھراپی اور کیموتھراپی کے ساتھ مل کر بطور معاون طریقہ استعمال ہو سکتا ہے یا نہیں۔

تحقیق کے اختتام پر سائنس دانوں نے کہا کہ ایوِنگیلا امیریکانا کی بطور ایک طاقتور، قدرتی اینٹی کینسر ایجنٹ شناخت، مائیکروبایوم سے ماخوذ علاج کے تصور کو مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہی دریافت مستقبل میں پریسژن آنکولوجی کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں لے آئے اور ان مریضوں کے لیے نئی امید بنے، جن کے کینسر موجودہ علاج کے سامنے مزاحمت اختیار کر چکے ہیں۔

یہ مطالعہ سائنسی جریدے Gut Microbes میں شائع ہوا ہے۔ جس کا ماخذ جاپان ایڈوانسڈ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، بذریعہ MedicalXpress ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button