
فلمی کیریئر کا مختصر خاکہ
دھرمیندر کے مطابق وہ 1935 میں غیرمنقسم پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ فلموں میں آنے کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں دلیپ کمار کی فلم ”شہید“ (1948) دیکھنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بمبئی (آج ممبئی) جاکر دلیپ کمار بننے کی کوشش کریں گے۔ دلیپ کمار ہمیشہ ان کے آئیڈیل رہے۔ انہی کے الفاظ میں ”اُس آفتاب (دلیپ کمار) سے روشنی چُرا کر اپنی حسرتوں کے دیے کو روشن کیا ہے“ ۔
اتفاق سے جب وہ ممبئی پہنچے تو دلیپ کمار کے ایک اور پرستار نوجوان؛ منوج کمار بھی انہی کی طرح دلیپ کمار بننے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ دونوں ایک ہی کمرے میں رہ کر فلم انڈسٹری میں جگہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔ منوج کمار کو کام مل گیا مگر دیہاتی دھرمیندر تلاش بسیار کے باوجود ناکام رہے۔ ایک دن تھک ہار کر گاؤں لوٹنے کا فیصلہ کیا مگر منوج کمار نے زبردستی روک لیا۔ یہ رکاوٹ مبارک ثابت ہوئی۔ انہیں ”دل بھی تیرا ہم بھی تیرے“ (1960) میں بلراج ساہنی جیسے قدآور اداکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا۔
اس فلم میں ایک سڑک چھاپ اور غریب نوجوان کے کردار میں دھرمیندر کی اداکاری پر دلیپ کمار کے اثرات غالب تھے، تاہم بعد کی فلموں میں رفتہ رفتہ انہوں نے اپنا منفرد انداز بنا لیا۔ بالخصوص رومانوی فلم ”شعلہ اور شبنم“ (1961) کو ان کے منفرد فلمی کیریئر کا نکتہِ آغاز مانا جاسکتا ہے۔ 60 کی دہائی میں لیکن ان کی دو فلمیں ایسی ہیں، جو انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز مقام دلاتی ہیں۔
ایک ”آئی ملن کی بیلا“ (1963) اور دوسری ”دیور“ (1966) ۔ ”آئی ملن کی بیلا“ کے ہیرو راجندر کمار ہیں۔ دھرمیندر نے اس فلم میں ولن کا کردار نبھایا ہے۔ ان کی منفی اداکاری اس قدر جان دار اور پرقوت ہے کہ فلم کے ہیرو راجندر کمار کسی قطار شمار میں ہی نہیں رہتے۔ ان کی کینہ توز نگاہیں، سازشی تاثرات اور نفرت انگیز افعال ان کی اداکاری کی معراج ہیں۔ ”دیور“ میں وہ چچا زاد بھائی (دیون ورما) کی سازشوں کے باعث اپنی بچپن کی محبت (شرمیلا ٹیگور) کو بھابھی بنتا دیکھتے ہیں۔
ساٹھ کے عشرے میں البتہ دھرمیندر کی جس فلم نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی، وہ ”پھول اور پتھر“ (1966) ہے۔ اس فلم کو کمائی کے لحاظ سے اس دور کا "شعلے” کہا جاتا ہے۔ اسی فلم سے ان کی He Man شبیہ پختہ ہوئی۔
60 کے عشرے میں ہندی سینما کی پہلی اسپائی تھرلر ”آنکھیں“ یا سسپنس تھرلر (مرڈر مسٹری) ”شکار“ یا ضمیر کی خلش سے تکلیف میں مبتلا کردار ”آئے دن بہار کے“ وغیرہ کی بھی الگ اہمیت ہے۔ ”دیور“ کے بعد البتہ ان کی اہم ترین فلمیں ”ستیہ کام“ (1969) اور ”میرا گاؤں میرا دیش“ (1971) ہیںم ”ستیہ کام“ نے جہاں ثابت کیا وہ محض ”ہی مین“ نہیں بلکہ رشی کیش مکھرجی کے مڈل کلاس سینما میں بھی رنگ بھر سکتے ہیں، وہاں ”میرا گاؤں میرا دیش“ کے ذریعے انہوں نے ایک نئے رجحان کی ابتدا کردی، جس کا عروج فلم ”شعلے“ (1975) ہے۔ ان فلموں نے ہندی سینما کا رخ ہمیشہ کے لئے بدل دیا۔ اسی تھیم پر ”پرتگیا“ (1975) بھی ایک اہم فلم ہے، جس میں انہوں نے ”جٹ یملا پگلا دیوانہ“ کے پُرمزاح کردار میں ڈھل کر اداکاری کے جوہر دکھائے۔
80 کے عشرے میں جب وی سی آر اور ”رامائن“ و ”مہابھارت“ جیسے مقبول ٹی وی ڈراموں نے سینما کو دباؤ کا شکار بنایا تو وہ دھرمیندر تھے، جنہوں نے ماس انٹرٹینمنٹ کے ذریعے باکس آفس کو سہارا دیا۔ جیسے 1987 میں انہوں نے مسلسل 7 ہٹ/سپرہٹ فلمیں ”حکومت“ ، ”وطن کے رکھوالے“ ، ”آگ ہی آگ“ ، ”انصاف کی پکار“ ، ”لوہا“ ، ”جان ہتھیلی پہ“ اور ”انسانیت کے دشمن“ دی ہیں۔ ایک ہی سال میں سات ہٹ/سپرہٹ فلمیں دینا تاحال ایک ریکارڈ ہے۔ جب پورا بالی ووڈ وی سی آر اور ٹی وی ڈراموں سے تھرتھر کانپ رہا تھا، دھرمیندر وہ واحد اداکار تھے جو تھیٹر میں فلم بینوں کی لائنیں لگوا رہے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ عوام میں کس حد تک مقبول تھے
وہ 90 کے عشرے میں بعض سی گریڈ فلمیں بھی کرتے رہے، مگر اسی عشرے میں انہوں نے ”ظلم کی حکومت“ (امریکی ناول گاڈ فادر سے ماخوذ) ، ”فرشتے“ (1991) ، ”کشتریا“ (1993) اور ”پیار کیا تو ڈرنا کیا“ (1998) جیسی صحت مند تفریحی فلمیں بھی سینما تک پہنچائیں۔ نئی صدی میں ”جونی غدار“ (2007) , ”یملا پگلا دیوانہ“ (2011) اور ”روکی اور رانی کی پریم کہانی“ (2023) یا ”تیری باتوں میں ایسا الجھا جیا“ (2024) سے انہوں نے ثابت کیا کہ ’ایج جسٹ آ نمبر‘ ۔
اپنی وفات 24 نومبر 2025 تک وہ متعلقہ رہے۔ وہ سینما کے حوالے سے مکیش کے سدا بہار گیت: ”جینا یہاں مرنا یہاں، اس کے سوا جانا کہاں“ کی عملی تصویر تھے۔
اسٹار امیج پر نظریاتی بحث
دھرمیندر کے اسٹار امیج کو نظریاتی طور پر سمجھنے کے لئے دو برطانوی فلمی اسکالرز رچرڈ ڈائر (Richard Dyer) اور جان ایلیس (John Ellis) کے نظریات معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈائر کے مطابق فلم اسٹار فرد نہیں، ایک متن (text) ہوتا ہے جسے ناظر اپنے مخصوص سیاسی، سماجی اور طبقاتی پسِ منظر کے ساتھ پڑھ کر معنی دیتا ہے۔ یہ متن مختلف عوامل سے تشکیل پاتا ہے؛ جیسے اخبارات کا پروپیگنڈا، میگزین کورز، فلمی ریویوز، انٹرویوز ، فلمی کردار اور ذاتی زندگی وغیرہ۔
دھرمیندر کی پہلی فلمی شناخت فلم ”شعلہ اور شبنم“ (1961) سے ایک رومانی ہیرو کی صورت سامنے آئی۔ بعد میں فلم ”پھول اور پتھر“ (1965) سے اخبارات نے انہیں ”انڈیا کا ہی مین“ قرار دیا جو ان کی پہلی رومانی شناخت سے متضاد تھا۔ اس تضاد سے تشکیل پانے والی شخصیت نے سماج کے لئے انہیں قابلِ ہضم بنا دیا۔
رومانی ہیرو، ہی مین شخصیت، دیہی پنجابی پسِ منظر اور اس دور کے معروض نے مل کر انہیں ایک قابلِ قبول شناخت عطا کی (واضح رہے 60 اور 70 کی دہائی کے سیاسی معروض پر آگے تفصیل سے بات کریں گے)۔ جان ایلیس کے مطابق اسٹار خود نہیں بولتا بلکہ اس کی جگہ میڈیا بولتا اور اس کی ایک شناخت بناتا ہے جو اس کی حقیقی شناخت سے یک سر مختلف ہوتی ہے۔ دھرمیندر بھی حقیقی زندگی میں ’ہی مین‘ نہ ہونے کے باوجود ہائپر مردانگی کے نمائندے تسلیم کئے گئے، جس نے ان کی عوامی مقبولیت کو مستحکم کر دیا۔ ”میرا گاؤں میرا دیش“ ، ”چرس“ ، ”پرتگیا“ ، ”شعلے“ ، ”لوفر“ اور ”یادوں کی بارات“ جیسی فلموں نے جہاں ان کی ہائپر مردانگی کی شبیہ کو آگے بڑھایا وہاں ”ستیہ کام“ ، ”انوپما“ ، ”چپکے چپکے“ ، ”میرے ہمدم میرے دوست“ اور ”نوکر بیوی کا“ جیسی فلموں سے ان کی نرم ، سنجیدہ اور بساں اوقات مزاحیہ رومانی شناخت بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔
ایلیس کے تصور پبلک امیج کے مطابق ان کے فلمی کرداروں کے پسِ منظر میں میڈیا پروپیگنڈے نے انہیں عوام کی نگاہ میں ایک ایسے ہیرو کی صورت پیش کیا، جو بیک وقت غصیلا مرد بھی ہے اور مہذب رومانی نوجوان بھی۔
مادھو پرساد (Madhava Prasad) کی فلم تھیوری کی روشنی میں وہ ایک ایسے ہیرو بنے، جو اپنی جسمانی طاقت کے ذریعے داخلی سطح پر ہندوستانی اقدار اور عالمی اسٹیج پر قومی مفادات کی حفاظت کرتا ہے، جیسے فلم ”شعلے“ اور ”آنکھیں“ ـ وہ ماڈرن لباس میں دیہی کلچر کی نمائندگی کر کے قدیم اقدار پر قائم جدید بھارت کا عکس پیش کرتے تھے۔
جاری ہے




