امریکہ اور یورپی ملکوں کے علاوہ بہت سے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں تعلیم اور صحت سے متعلق نجی ادارے وجود رکھتے ہیں۔ ادارے چاہے نجی ہوں یا سرکاری وہ عمومی معاشرے کے رجحانات کے عکاس ہوتے ہیں۔ اگر حکومتیں مضبوط ہوں تو ادارے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر قانون کی تعظیم کی جاتی ہو تو اداروں میں بھی قوانین اور اصولوں کی پاسداری کی جاتی ہے۔ اگر معاملہ برعکس ہو تو تعلیم اور صحت سے وابستہ ادارے چاہے وہ سرکاری ہوں یا نجی انحطاط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے اداروں کو نجی ہاتھوں میں دیے جانے کی ضرورت تب محسوس کی جاتی ہے، جب ان کی طلب زیادہ ہو لیکن حکومتیں اپنے وسائل کے ذریعے ایسے اداروں کا انتظام و انصرام کرنے سے قاصر ہوں۔
ملک عزیز میں نجی تعلیمی ادارے تو ایک عرصے سے کافی تھے مگر گزشتہ دہائیوں سے طبی تعلیمی اداروں یعنی میڈیکل کالجوں کو بھی نجی ہاتھوں میں دیے جانے کا چلن ہوا ہے۔ اگر معاشرہ مجموعی طور پر انحطاط اور بدعنوانی کا شکار ہو تو ایسے میں سرکاری میڈیکل کالج تو پھر بھی کسی حد تک اپنا معیار اور استعداد برقرار رکھ سکتے ہیں لیکن بہت سے نجی میڈیکل کالج ایسا کرنے میں تساہل برتتے ہیں۔ اس کی وجہ ایسے اداروں کا مالیاتی حوالوں سے غیر پیشہ ورانہ ہاتھوں میں ہونا ہوتا ہے۔
بہت سے میڈیکل کالج عام صنعت کاروں کی ملکیت ہیں جنہیں تعلیم اور اس کے معیار سے اتنی دلچسپی نہیں ہوتی جتنا انہیں منافع کمانے سے ہوتی ہے۔ ایسے کالجوں کی سالانہ فیسیں پانچ سے دس لاکھ روپے سالانہ تک ہیں۔ ہوسٹلوں میں رہائش، غذا، لباس، کتب وغیرہ کے اخراجات ان سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ڈاکٹر کی تعلیم کی تکمیل اور تربیت پر پینتیس سے ستر لاکھ روپے تک کے اخراجات اٹھتے ہیں۔ جب سے اوپن میرٹ ہوا ہے، میڈیکل میں داخل ہونے والوں میں اسی فیصد طالبات ہیں۔ ان طالبات میں سے اسی فیصد ڈاکٹر بننے کے بعد شادی ہو جانے یا کسی دوسری وجہ سے زود یا بدیر پیشے سے روگردانی اختیار کر لیتی ہیں۔
مثال کے طور پر پنجاب میں ایسے میڈیکل کالجوں کی کل نشستیں تین ہزار سے کچھ ہی زائد ہیں مگر ان کے لیے پینتالیس ہزار طلبا و طالبات میں مقابلہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا خاص طور پر طالبات کے ورثاء لاکھوں کی رقوم ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں تاکہ یہ رقم رشوت کی ایک شکل ”ڈونیشن“ یعنی عطیے کی شکل میں کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج کو دے کر پندرہ بیس نمبروں کے فرق سے صرف نظر کروا کر اپنی بچیوں کو داخلہ دلوا سکیں۔ اطلاع ہے کہ کچھ ایسے میڈیکل کالجوں نے تیس سے چالیس لاکھ فی فرد ایسے عطیات پکڑے بھی ہیں۔
ایسے کسی ایک ادارے میں طلبا کی تعداد پانچ سو سے آٹھ سو تک ہو سکتی ہے۔ یوں ان کی فیسوں سے حاصل ہونے والی رقوم کا کل اربوں روپوں میں جا پڑتا ہے۔ پی ایم ڈی سی کے قانون کے مطابق کسی شعبے میں مثال کے طور پر ”پتھالوجی“ میں ایک پروفیسر، دو ایسوسی ایٹ پروفیسر، چار اسسٹنٹ پروفیسر اور چھ تا آٹھ ڈیمانسٹریٹر تعینات کرنے چاہئیں مگر بعض ایسے اداروں میں ان سولہ افراد کی بجائے محض دو یا تین افراد سے کام چلایا جاتا ہے، باقی عملہ کاغذوں میں دکھایا جاتا ہے کہ یا تو وہ تعطیل پر ہے یا ٹریننگ کی خاطر بیرون ملک مقیم۔ اول تو کوئی پوچھتا ہی نہیں، اگر کوئی پڑتال کر بھی لے تو اس کی مٹھی گرم کر دی جاتی ہے یا منہ بند کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح اخراجات بچائے جاتے ہیں.
نچلا عملہ جسے پیرا میڈیکل سٹاف کہا جاتا ہے کی تنخواہیں بہت کم رکھی جاتی ہیں یعنی دس پندرہ ہزار روپے تک اور زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار روپے۔ اگر ان کی تنخواہوں میں دو سے چار ہزار روپے کے اضافے کی تجویز دے بھی دی جائے تو کم پڑھے لکھے صنعت کار مالکان ایک ڈیڑھ ہزار روپے سے زیادہ بڑھانے کی فکر نہیں کرتے کیونکہ ایسے لوگ ان کے نزدیک ”حرام خور“ اور ”کام چور“ ہوتے ہیں، جن کو زیادہ منہ نہیں لگانا چاہیے۔ اخراجات بچا کر اربوں اگر نہیں تو کروڑوں روپے سالانہ کمانے کو وہ اپنا جائز حق سمجھتے ہیں اور خود کو ”حرام خور“ یا ”کام چور“ نہیں سمجھتے۔ اس لیے کہ انہوں نے سرمایہ لگایا ہے اور ان کو کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے لیے دوسرے لوگ کام کرتے ہیں۔
ایسے ہی چند میڈیکل کالجوں کے صنعت کار مالک، ملک کے اندر اور حرمین شریفین میں ہر ماہ رمضان کے دوران لنگر چلاتے ہیں تاکہ عوام اور اللہ کی نظروں میں سر بلند ہو سکیں لیکن اگر کسی طالب علم پر کوئی افتاد پڑ جائے اور وہ خطیر فیس دینے سے قاصر ہو جائے تو یہ ”حلال خور“ مجال ہے کہ اس میں کوئی کمی کریں، معاف کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کسی کی تعلیم خراب ہوتی ہے یا جاری رہتی ہے۔ انہیں بس اپنے منافع سے غرض ہوتی ہے۔
ڈاکٹری کو بطور پیشہ اختیار نہ کرنے والی لڑکیوں کو ڈاکٹر بنائے جانے کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا ایک ”سٹیٹس“ بن جائے اور یوں ان کے اچھے رشتے ہو جائیں۔ مگر وہ لڑکیاں جو میڈیسن کی اضافی تعلیم حاصل کرنے لگ جاتی ہیں اور جن کی عمریں تیس سال سے تجاوز کر جاتی ہیں ، ان کی ویسے ہی شادیاں نہیں ہوتیں۔ والدین بھی اس دوڑ میں دیوانے ہو چکے ہیں۔ مجھے ایک پروفیسر نے ایک طالبہ کے بارے میں بتایا جو پہلے دو سالوں میں سات بار فیل ہو چکی تھی اور کلاس میں آنے سے گریزاں تھی۔
پروفیسر موصوف خود اس سے ملنے کے لیے ہوسٹل پہنچے کیونکہ ان کے خیال میں وہ نالائق طالبہ نہیں تھی بلکہ طلبا کے ایک عیش کوش گروہ سے وابستہ ہونے کے باعث تعلیم میں تساہل برتنے لگی تھی۔ پروفیسر صاحب کی مشفقانہ گفتگو سننے کے بعد وہ رونے لگی۔ انہوں نے اسے اپنا فون پکڑایا اور درخواست کی کہ وہ اپنے والد سے ان کی بات کروا دے۔ بات ہوئی تو انہوں نے والد سے کہا کہ ایک بار آ کر ان سے ضرور ملیں۔
چند روز بعد سلوٹوں والے عام کپڑے پہنے ایک ادھیڑ عمر شخص ان سے ملنے آیا جو اس طالبہ کا والد تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ جنوبی پنجاب کے ایک دور افتادہ قصبے کے ہائی سکول میں استاد ہے۔ پروفیسر نے باقی باتوں کو چھوڑ کر کہا، ”میں تین لاکھ ماہانہ مشاہرہ پانے والا شخص بھی اپنے بچے کو اس نجی ادارے میں پڑھانے کی ہمت نہیں کر سکتا، آپ ایسا کیسے کر پا رہے ہیں۔ اس شخص نے بتایا کہ اس نے اپنی زمین بیچ کر پچیس تیس لاکھ روپے بینک میں جمع کرائے تھے اور سوچا تھا کہ یہ پانچ سال کی تعلیم کے لیے کافی ہوں گے ۔ چار سال گزر چکے تھے اور جمع پونجی ختم ہونے کو تھی۔ لڑکی نے ڈاک کے اہلکار کے ساتھ مل کر اپنی تعلیم کے بارے میں رپورٹیں بھی والد تک نہیں پہنچنے دی تھیں۔ پروفیسر نے اس کے والد سے پوچھا کہ اب کیا کرو گے تو اس نے کہا کہ اب گھر بیچ کر اسے پڑھاؤں گا.
پروفیسر موصوف نے بتایا کہ ہمارے کالجوں میں جو دس پندرہ فیصد غیر خوشحال گھرانوں کی لڑکیاں ہیں، ان میں سے کئی اپنی ہم جماعتوں جیسے مہنگے کپڑے پہننے کی خاطر اور ان کے ہم پلہ دکھائی دینے کی دوڑ میں کیا کچھ نہیں کرتی ہیں، اس کے بارے میں بتاتے ہوئے میری زبان لڑکھڑائے گی۔
بشکریہ ہم سب