اکتوبر انیس سو نوے کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف پہلی بار وزیرِ اعظم بنے۔جس طرح آج کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران حکومت ایک صفحے پر ہیں۔بعینہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں تیس برس پہلے یہی خیال تھا۔اور کیوں نہ ہوتا۔ سیاسی افق پر شریف خاندان انیس سو اناسی میں پنجاب کی سیاسی ایٹلس پر نمودار ہوا۔
تحریکِ استقلال کے سابق رکن نواز شریف گورنر غلام جیلانی خان کی مارشل لا انتظامیہ میں مشیرِ خزانہ مقرر کیے گئے۔برادرِ خورد شہباز شریف لاہور چیمیر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر تھے۔ہال روڈ کا تاجر مارشل لا دور کے استحکام کے سبب خود کو محفوظ و مامون تصور کر رہا تھا اور راوی بہ کنارِ راوی بیٹھا سکھ چین لکھ رہا تھا۔
صنعت کار اس لیے بھی ضیا دور کے گرویدہ تھے کیونکہ بھٹو دور میں قومیائے گئے صنعتی یونٹ اصل مالکوں کو واپس کیے جا رہے تھے۔اتفاق فونڈریز بھی انھی یونٹوں میں شامل تھی۔حالات پلٹے تو اسٹیبلشمنٹ کے توسط سے اللہ کا فضل و کرم دن دونی رات چوگنی ترقی کی شکل میں برسنے لگا۔
محمد خان جونیجو کی شکل سے نالاں ہونے کے سبب ان کی مئی انیس سو اٹھاسی میں وزارتِ عظمی سے برطرفی عمل میں آئی۔ لگ بھگ تین ماہ بعد ضیا الحق کا بھی بلاوا آ گیا۔مگر ضیا الحق کے بعد بھی جونیجو صاحب کا سیاسی وجود فیصلہ سازوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا تھا۔لہٰذا وہ مسلم لیگ جو انیس سو پچاسی کی غیر جماعتی پارلیمنٹ میں پیدا کی گئی تھی اسے جونیجو صاحب کے اثر سے پاک کرنے کے لیے ایک اندرونی تختہ پلٹ کارروائی ہوئی۔
شریف برادران اور چوہدری برادران نے ہاتھ ملایا اور جونیجو کو جنرل کونسل کے نام پر اجلاس بلا کر پارٹی صدارت سے چلتا کر دیا گیا۔مسلم لیگ کے دو دھڑے بن گئے ن اور ج۔مگر سب جانتے تھے کہ پلڑا کس جانب جھکا ہوا ہے۔لہٰذا ن کو سب نے کندھے پر اٹھالیا اور ج کو سڑک پر چھوڑ دیا گیا۔( یہی ڈرامہ دو ہزار دو میں ن کے ساتھ ہوا جس میں سے ق پیدا کر کے اقتدار تھما دیا گیا اور ج کو بھی ق میں گم کر دیا گیا )۔
مسلم لیگ ن کی شناخت شریف برادران تھے۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت کی ناک میں ن کو نکیل ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔بے نظیر حکومت کو آپریشن مڈ نائٹ جیکال کی مدد سے ہارس ٹریڈنگ اور تحریکِ عدم اعتماد کے ’’ آئینی و جمہوری ‘‘ طریقے سے چلتا کرنے کی کوشش کی گئی۔جب یہ کوشش ناکام ہوئی تو چند ماہ بعد براہِ راست ’’ آئینی ’’ قدم اٹھاتے ہوئے صدرِ مملکت نے حکومت کو باہر جانے کا دروازہ دکھا دیا۔ پھر مہران گیٹ اور پھر انتخابات اور پھر نواز شریف کی پہلی وزارتِ عظمی۔
نوے کی دہائی میں انتقالِ اقتدار کبھی نہیں ہوا۔ البتہ شراکت اقتدار ضرور ہوتی رہی۔تکون کے ایک کونے پر آٹھویں ترمیم سے مسلح صدر ، دوسرے کونے پر سپاہ سالار اور نچلے کونے پر سویلین وزیرِاعظم۔
بطور ایک منتخب بہو یہ ذمے داری وزیرِ اعظم پر تھی کہ وہ تکون کے باقی دونوں کونوں کو کیسے ساتھ لے کر چلے۔
مگر جس طرح بے نظیر کی نہیں بنی۔اسی طرح کرسی پر بیٹھتے ہی نواز شریف نے بھی خود کو اصلی باتصویر حکمران سمجھنا شروع کر دیا۔ لاہور پنڈی موٹر وے منصوبہ اور یلو کیب اسکیم شروع ہوئی۔مالیاتی قوانین کو بائی پاس کر کے پسندیدگان کی کاروباری سہولت کے لیے ایس آر اوز بکثرت جاری ہونے لگے۔ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے اور پیسہ باہر لے جانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں اور پوچھ پڑتال کم سے کم ہوتی گئی۔پنجاب میں کوآپریٹو سوسائٹیوں کے دیوالیہ ہونے کے اسکینڈل نے لگ بھگ سات لاکھ لوگوں کو پونجی سے محروم کر دیا۔
قوانین کو لچکیلا بنانے اور ایس آر اوز کی حکمتِ عملی سے تاجر اور صنعت کار طبقہ ایک ایسی طاقت بنتا چلا گیا جس نے سرمائے کو سیاست کے لیے اور سیاست کو مزید سرمایہ پیدا کرنے کے لیے بن داس استعمال کیا۔ (یہی مجرب فارمولا نام بدل بدل کر آج بھی کامیابی کی کنجی ہے )۔
یہاں تک بھی ٹھیک تھا مگر جب سویلین حکومت نے تکون کے دو دیگر کونوں کو اختیاراتی داؤ پیچ سے کند کرنے کی کوشش کی تو بدزنی نے دراڑ ڈال دی۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیرِ اعظم ایک دوسرے پر سوتنی نگاہ رکھنے لگے اور جی ایچ کیو دونوں ایوانوں کی سرگرمیوں پر آنکھ رکھنے لگا۔القصہ مختصر جب نواز شریف نے حقیقی وزیرِ اعظم بننے کی مہم جوئی میں ہاتھ ڈالا تو تاک میں بیٹھے صدر غلام اسحاق خان نے ہاتھ ہی مروڑ دیا۔اپریل انیس سو ترانوے میں نواز شریف حکومت رخصت ہوئی اور بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیرِ اعظم بنایا گیا۔
بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں آصف زرداری بھی بطور وزیرِ ماحولیات شامل کیے گئے۔حالانکہ صرف ڈھائی برس پہلے ہی زرداری صاحب کو مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور کر کے ان کی اہلیہ کی حکومت انھی صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کر کے آصف زرداری کو کرپشن کے الزامات میں بند کیا تھا۔
جب سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت کی برطرفی کو جولائی میں غیر قانونی قرار دے دیا تو پھر فوجی قیادت کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہ رہا کہ وہ صدر اور وزیرِ اعظم دونوں سے رخصت ہونے کی درخواست کرے اور ایک نئی تکون تشکیل پائے۔سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد قائم مقام صدر اور عالمی بینک کی غلام گردشوں سے امپورٹڈ معین قریشی کو نگراں وزیرِ اعظم بنایا گیا۔
اگرچہ نگراں حکومت کا کام انتخابی اہتمام کرنا تھا۔ مگر معین قریشی نے سابق ادوار کے بینک ڈیفالٹرز کی فہرست شایع کر دی۔سرکاری زمینوں پر قابض مافیاؤں کے خلاف جہاد ، زرعی ٹیکس اور کالا دھن برآمد کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا۔گویا نوے دن کے لیے آنے والی حکومت نے اپنے منہ سے بڑا نوالہ بنا لیا۔ جسے نگلے بغیر یہ نگراں حکومت رخصت ہوئی اور انتخابات کے نتیجے میں ایک بار پھر بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آ گئیں۔
بے نظیر حکومت نے آتے ہی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دور میں موٹر وے منصوبے ، یلو کیب اسکیم ، اٹھارہ ارب روپے کے کوآپریٹو اسکینڈل اور بینکوں پر دباؤ ڈال کر بھاری قرضے لینے کے الزامات میں لگ بھگ ڈیڑھ سو احتسابی پرچے اور قانونی ریفرنسز بنا دیے۔مگر انھیں کسی خاص شد و مد سے بوجوہ آگے نہ بڑھایا۔
بے نظیر نے سینئیر معتمد سردار فاروق لغاری کو صدر بنایا۔البتہ بلاواسطہ انداز میں وقتاً فوقتاً سردار صاحب کو اس ’’ احسان ‘‘ کے بارے میں جتایا بھی جاتا رہا۔یہ جانے بغیر کہ انسان کو بار بار یاد دلایا جائے کہ تمہاری کرسی ہماری مرہونِ منت ہے تو ایک نہ ایک روز وفادار بھی کماں دار میں تبدیل ہو جاتا ہے اور لغاری صاحب تو بالحاظِ مرتبہ تمن دار بھی تھے۔
چنانچہ جب بیس ستمبر انیس سو چھیانوے کو مرتضی بھٹو کا قتل ہوا تو بے نظیر کے دوسرے دور کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا۔نومبر میں فاروق لغاری نے حکومت برطرف کر دی۔کرپشن کی چھان بین کے لیے ایک آرڈیننس کے ذریعے احتساب کمیشن بنا۔کل تک جس نواز شریف اور ان کی جماعت کا احتساب ہو رہا تھا انھیں دو تہائی اکثریت ملی اور اس اکثریت کے بل پر چار ماہ کے اندر صدر لغاری کو ہی آٹھویں ترمیم کی تلوار سے محروم کر کے چلتا کر دیا گیا۔
اب نواز شریف کی باری تھی پچھلی حکومت کا احتساب کرنے کی۔فاروق لغاری کے قائم کردہ احتساب کمیشن کو ناکافی سمجھتے ہوئے شریف حکومت نے ایک احتساب بیورو تخلیق کیا جس کی لگام سینیٹر سیف الرحمان کے ہاتھ میں دے دی۔
سیف الرحمان نے بھی انت مچا دی۔ سوئس بینک اکاؤنٹس ، آئی پی پیز کے ساتھ مشکوک سمجھوتوں، اے ایس جی کوٹیکنا ، ٹریکٹروں کی درآمد کے گھپلے سمیت جانے کتنے ریفرنسز بنائے گئے۔ سی آئی اے سینٹر کراچی میں تشدد کے دوران آصف زرداری کی زبان پر چیرا بھی لگایا گیا۔مخالف سمجھے جانے والے میڈیا مالکان کے خلاف مقدمے بنائے گئے۔غرض جس جس نے بھی ماضیِ قریب میں جو بھی ناپسندیدہ کام کیا۔ دو تہائی اکثریت کے بلڈوزر سواروں نے اس پر سیف الرحمان چھوڑ دیا۔
جلد ہی دو تہائی اکثریت طاقت بننے کے بجائے ہاضمے پر بوجھ بنتی گئی۔احتساب اور انتقام کا فرق مدہم ہوتا گیا۔مزید اختیارات کی بھوک نے آئین میں چودھویں ترمیم کے راستے امیر المومنین بننے پر اکسایا۔
پھر غضب یہ ہوا کہ سچ مچ کا وزیرِ اعظم بننے کے شوق میں پہلے دور کا سبق بھلا کر دوسرے دورِ حکومت میں نواز شریف نے پہلے اعلیٰ عدلیہ فتح کی اور پھر فوجی قیادت سے سینگ پھنسا لیے۔مگر استعفی دینے والے چیف کی جگہ جو نیا چیف پورے شجرے کا اطمینان کر کے چنا گیا۔اسے دیکھ کر ضیا الحق کی یاد آگئی جنھیں طاقتور ذوالفقار علی بھٹو نے بالوں میں درمیان سے نکلی مانگ والی تصویر کی بنیاد پر چنا تھا۔پھر جس طرح ضیا الحق نے بھٹو صاحب کو چنا اسی طرح پرویز مشرف نے دو تہائی سے مسلح نواز شریف کو کرگل کی دیوار میں چن دیا۔
بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کی کارروائی کے ایک ماہ بعد نیب وجود میں آیا۔چونکہ بائیس سالہ نیب کے فضائل و کمالات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔لہٰذا انھیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔کچھ لوگ پیار سے اسے نیشنل آرم ٹوئسٹنگ بیورو بھی کہتے ہیں۔
قائم تو نیب ایک فوجی حکمران نے کیا تھا۔مگر تیسری باری لینے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سویلین حکومتوں نے بھی اس ادارے کو جملہ اختیارات کے ساتھ یہ سوچ کر برقرار رکھا کہ اب تو تاحیات اقتدار میں ہی رہنا ہے لہٰذا نیب ساتھ رکھنے میں کیا حرج ہے۔
آج یہی نیب عمران حکومت کا بھی قیمتی ترکہ ہے۔احتساب کی ٹرین کا تیز رفتار سفر پہلے کی طرح جاری ہے۔اگلے کسی اسٹیشن پر جب موجودہ مسافر اترے گا تو وہاں بھی کوئی نہ کوئی ٹکٹ چیکر کھڑا ہوگا۔اور مسافر اسے سمجھا رہا ہوگا ’’ بھائی صاحب آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ایک منٹ میری بات تو سنیں۔۔‘‘ (قصہ ختم)
بشکریہ ایکسپریس
(وسعتﷲ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)