جان بچانے والے دوست سے جدائی پر سارس اداس، کھانے پینے سے انکار کرتا رہا

ویب ڈیسک

بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع سمیتھی کے گاؤں مندھکا میں ایک کسان محمد عارف پر وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہونے کے بعد انہیں اس سارس پرندے سے جدا ہونا پڑا۔

پینتیس سالہ محمد عارف کو یہ سارس گزشتہ برس فروری میں اپنے کھیتوں میں زخمی حالت میں ملا تھا، وہ اسے اپنے ساتھ گھر لائے تھے اور اس کی مرہم پٹی کی تھی

محمد عارف تقریباً 13 ماہ تک سارس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ سارس صحتیاب ہونے کے بعد ان سے مانوس ہو گیا اور مانوسیت بالآخر دوستی میں بدل گئی

لیکن ہفتے کے روز وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہونے کے بعد سارس کو پہلے رائے بریلی میں پرندوں کی پناہ گاہ منتقل کیا گیا اور بعد میں کانپور کے چڑیا گھر بھیج دیا گیا

جدا کیے جانے پر جہاں عارف اداس اور مایوسی کا شکار تھا، وہیں سارس کے لیے بھی اپنے دوست سے علیحدگی کا دکھ برداشت کرنا آسان نہ تھا

سارس کانپور کے چڑیا گھر منتقل کیے جانے کے بعد شدید افسردہ ہو گیا ہے۔ اپنے دوست سے علیحدگی کے بعد چالیس گھنٹوں تک سارس کچھ بھی کھانے پینے کو تیار نہیں تھا، جس سے اس کی اداسی واضح تھی

سارس کی مکمل خاموشی اور بھوک ہڑتال سے چڑیا گھر کی انتظامیہ بھی پریشان ہو گئی

کانپور کے چڑیا گھر میں لانے کے بعد سارس کے سامنے دو کلو چھوٹی مچھلی رکھی گئی، جو اس پرندے کی پسندیدہ خوراک سمجھی جاتی ہے لیکن اس نے کھانے سے انکار کر دیا

چڑیا گھر کی انتظامیہ نے بتایا کہ سارس کو دیگر پرندوں سے علیحدہ رکھا ہوا تھا اور اس نے چالیس گھنٹے بعد اتوار کی رات کو کھانا کھایا

انتظامیہ کے مطابق نہ صرف یہ کہ پرندہ کچھ کھا پی نہیں رہا تھا بلکہ بالکل سست پڑا ہوا تھا

چڑیا گھر کے ڈائریکٹر کے کے سنگھ کا کہنا ہے کہ تین ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم سارس کا معائنہ کر رہی ہے اور آئندہ پندرہ دنوں تک اس کی نگرانی کی جائے گی

ڈائریکٹر نے امید کا اظہار کیا کہ سارس اپنے نئے گھر کا عادی ہو جائے گا

سارس کی خوارک کے لیے خصوصی پلان تیار کیا گیا ہے، تاکہ اس کی اچھی صحت برقرار رہے

سارس کو روزانہ کی بنیاد پر خوراک میں چاول، دالیں اور ابلے ہوئے آلو کے علاوہ مچھلی بھی دی جاتی ہے

پیر کی دوپہر رکن پارلیمان امیتابھ اگنی ہوتری نے چڑیا گھر کا دورہ کیا اور ایک انوکھی تجویز پیش کی

انہوں نے انتظامیہ سے مالک محمد عارف کی تصویر پنجرے میں لگانے کو کہا تاکہ سارس کے دل بہلا رہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close