بلوچستان میں امریکی انگوروں کے باغ کی کہانی، مالک کی زبانی

ویب ڈیسک

انگورکا حیاتیاتی تام Vitis vinifera ہے۔ یہ سخت سرد یا سخت گرم اور مرطوب آب و ہوا والے علاقہ جات کے علاوہ دنیا کے تمام حصوں میں کاشت ہوتا ہے۔ یعنی سطح سمندر سے لے کر دس ہزار فٹ تک کی بلندی تک اگایا جا سکتا ہے، لیکن پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقہ جات تقریباً چھ ہزار فٹ کی بلندی تک اس کی کاشت کے لیے نہایت موزوں سمجھے جاتے ہیں

انگور تجارتی پیمانے پر باغ کی صورت میں لگایا جاتا ہے، جسے وائن یارڈ (vineyard) کہتے ہیں۔ انگور کی کاشت پودے سے پودا 8 فٹ اور قطار سے قطار 10 فٹ فاصلے کے مطابق کی جاتی ہے اس طرح ایک ایکڑ میں پودوں کی تعداد 550 بنتی ہے۔ یہ پودا ایک بیل کی صورت میں اگتا ہے اور اس کا پھل گچھوں کی صورت میں ہوتا ہے

پاکستان میں انگور کی زیادہ تر کاشت صوبہ بلوچستان میں کی جاتی ہے۔ اس کی کچھ اقسام آج کل میدانی علاقوں میں بھی کامیابی سے کاشت کی جا رہی ہیں

صوبہ بلوچستان کو پاکستان کی فروٹ باسکٹ یعنی پھلوں کی ٹوکری کہا جاتا ہے۔ اس کی زمین اور پہاڑ منفرد خصوصیات کے حامل ہیں، جس میں سب سے میٹھے اور رسیلے سیب اور انگور اگتے ہیں

بلوچستان کے ضلع پشین میں روایتی کاشتکاری سے ہٹ کر جدید طرز پر ایک باغ موجود ہے، جس میں بہترین معیار کے انگور پیدا ہوتے ہیں۔ ان انگوروں کو آٹم رائل اور ریڈ گلوب کہا جاتا ہے

باغ کے مالک عبدالرشید کا کہنا ہے ”امریکن اور ہمارے انگوروں میں فرق صرف ملک کا ہے، باقی ہمارے انگور زیادہ ذائقہ دار ہیں“

انہوں نے کہا ”یہ انگور آپ کو بہت کم یہاں کی مارکیٹ میں ملیں گے۔ ذائقے کے ساتھ یہ ہر قسم کے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسے مون سون کی بارشیں ہوئیں لیکن ہمارے درخت اور ان کے پھل محفوظ ہیں“

عبدالرشید کے مطابق ’ہمارے ہاں کاشت کاری کا طریقہ تقریباً دو سو سال پرانا ہے، جس میں زمین زیادہ اور درخت کم لگتے ہیں جبکہ جدید طریقوں سے ہم کم زمین پر زیادہ بڑا باغ لگا سکتے ہیں“

عبدالرشید نے بتایا کہ وہ خاندانی زمیندار نہیں نہ پہلے کسی نے یہ کام کیا

وہ بتاتے ہیں ”2008ع میں ضلع پشین میں زراعت کے حوالے سے ایک پروگرام ہوا تھا۔ جس میں ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ سے انہوں نے کچھ انگوروں کی اقسام منگوائی ہیں، جو لوگ لگانا چاہتے ہیں تو ہم ان کو قلمیں دیں گے۔ اس وقت سے مجھے بھی انگور کے باغ لگانے کا شوق ہوا“

انہوں نے بتایا ”میں نے باقاعدہ اس کام کا آغاز 2012ع میں کیا جب مجھے انگور کی قلمیں دی گئیں، جن میں امریکن اقسام آٹم رائل، ریڈ گلوب اور کرمسن سیڈ لیس شامل تھے۔۔میں نے یہ کام شروع کیا تو خود بھی بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی، تحقیق اور تجربے کیے۔ ایک قسم میں ہمیں مسئلہ ہوا وہ کرمسن سیڈ لیس ہے، جس کو دنیا میں بہت اچھا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں موسم کی وجہ سے یہ ناکام ہے“

عبدالرشید نے بتایا ”ریڈ گلوب اور آٹم رائل انگور کو آپ اسٹور بھی کر سکتے ہیں۔ دکاندار کو بھی اس کو رکھنے میں فائدہ ہوتا ہے کیونکہ روایتی انگور کو دکاندار ایک دن میں فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ دوسرے دن یہ خراب ہوجاتا ہے، جبکہ یہ اقسام خراب نہیں ہوتیں“

انہوں نے کہا ”ہماری جو روایتی قسمیں ہیں کشمش اور سُندر خانی، وہ جلد پک جاتی ہیں اور ان کو فوری کاٹنا پڑتا ہے جبکہ امریکن اقسام کی خوبی ہے کہ اگر مارکیٹ میں قیمتیں کم ہیں تو آپ ان کو دو مہینے تک درخت پر ہی چھوڑ سکتے ہیں“

ان کا کہنا تھا ”اس سال جو مون سون کی بارشیں ہوئی ہیں، ان میں ہمارے ضلعے میں 80 فیصد باغات تباہ ہوئے ہیں، جبکہ ہمارے انگور کے باغ کو کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ کیوں کہ اس کی جنگ ہی ان بارشوں سے ہے“

عبدالرشید نے بتایا کہ رنگ والے انگور کے لیے دھوپ اور چاند کی روشنی کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے

عبدالرشید روایتی طریقے سے ہٹ کر تین دن بعد پانی دینے کی بجائے، قطرہ قطرہ پانی ڈرپ ایری گیشن سے دیتے ہیں، جو بیلوں کی جڑ تک پہنچتا ہے

ان کے مطابق ”اس طریقہ کار میں انگور کے درخت پر پھل بہت زیادہ لگتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سالانہ بہت زیادہ پھل حاصل کرتے ہیں۔“

انہون نے بتایا کہ ان کے باغ سے حاصل شدہ پچاس فیصد تک انگور آرگینک ہوتے ہیں

کھاد بنانے کی غرض سے وہ گوبر کی بجائے بھیڑ بکریوں کی مینگنیاں استعمال کرتے ہیں، جو سبی سے منگواتے ہیں

عبدالرشید نے بتایا ”ہم باغ میں بہت سے کچھوے بھی رکھتے ہیں۔ کچھوے کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ یہ انڈے دینے کےلیے زمین کو نرم بناتا ہے، جو بیکٹریا کے لیے مناسب جگہ ہوتی ہے“

وہ مزید بتاتے ہیں ”اس کے علاوہ ایک جڑی بوٹی ہے، جس کو ہم پشتو میں شوتل کہتے ہیں۔ اس کے بیج سالانہ تین چار من ڈالتے ہیں۔ اس جڑی بوٹی کی خوبی یہ ہے کہ اس کی جڑ مولی کی طرح ہوتی ہے، جو زمین کو توڑ دیتی ہے، جس میں بیکٹیریا آسانی سے بنتے ہیں۔“

کھاد اور ادویات کے استعمال کے حوالے سے عبدالرشید کہتے ہیں کہ روایتی زمین دار مقابلے میں اپنے باغ کو آدھا حصہ بھی کھاد نہیں دیتے۔ جب اس کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت ڈالنے سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اس لیے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کھاد کس وقت کتنی مقدار میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔‘

گرافٹنگ یا پیوند کاری کے بارے میں عبدالرشید نے بتایا ”بلوچستان میں لوگ سیب اور دوسرے درختوں کی پیوندکاری کرتے ہیں لیکن انگور کی کوئی نہیں کرتا ہے. اس نظام کو سمجھنے کے لیے میں نے آٹھ، دس سال کام کیا تب جا کر میں اس کو سمجھنے کے قابل ہوا“

ان کے مطابق ”انگور میں پندرہ اقسام کی پیوندکاری ہوتی ہے، جس کا وقت اور طریقہ کار ہوتا ہے۔۔ میں نے دو سو درخت/بیلیں لگا کر ایک تجربہ گاہ بھی بنا رکھی ہے، جہاں میں سارا سال کام کرتا ہوں، اس وجہ سے میری پیوند کاری سو فیصد کامیاب رہتی ہے“

عبدالرشید کہتے ”پیوند کاری کے لیے درخت کو کس چیز سے کاٹنا چاہیے، یہ ایک حساس مسئلہ ہے. ہمارے لوگ درخت کو آری سے کاٹتے ہیں۔ خاص طور پر انگور کو بھی اسی طرح کاٹا جاتا ہے یا جو چین کی بنی ہوئی قینچی ہے اس سے کاٹتے ہیں۔ یہ طریقہ کار انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس کے لیے مخصوص قینچی اور چھری کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو ہمارے علاقے میں دستیاب نہیں۔ اسی لیے مجھے درخت کاٹنے والی قینچی اور پیوند کاری کا آلہ سوئٹزرلیںڈ سے منگوانا پڑا جو اب بھی ہمارے استعمال میں ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close