فرانس کے ایک بڑے، گہرے اور تاریک غار میں پندرہ رضاکاروں کو اتار دیا گیا ہے جو وہاں چالیس دن تک الگ تھلگ رہیں گے؛ جبکہ ان کے پاس موبائل فون اور گھڑی سمیت ایسا کوئی آلہ نہیں ہوگا کہ جس سے وقت کا پتا چل سکے یا وہ بیرونی دنیا سے رابطے میں رہ سکیں
صرف دو روز پہلے، یعنی 14 مارچ 2021ع کو شروع ہونے والے اس دلچسپ سائنسی تجربے کو ’’ڈیپ ٹائم‘‘ کا نام دیا گیا ہے، گروپ میں آٹھ مرد اور سات خواتین رضاکار شریک ہیں۔ اس کا اختتام چالیس روز بعد یعنی 22 اپریل کو ہوگا
تجربے کا مقصد دو باتوں کے بارے میں خاص طور پر جاننا ہے: ایک یہ کہ طویل عرصے تک ساری دنیا سے مکمل طور پر کٹ کر رہنے کے نتیجے میں انسان کی جذباتی کیفیت اور اکتسابی صلاحیت پر کیا اثر پڑتا ہے، جبکہ دوسری یہ کہ وقت کا تعین کرنے والے کسی بھی بیرونی ذریعے کی غیر موجودگی میں انسانوں کو ’’وقت کا بہاؤ‘‘ کیسا محسوس ہوتا ہے
اگرچہ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ’’دنیا کا سب سے پہلا‘‘ تجربہ بھی قرار دیا جارہا ہے، لیکن 1960ع سے اس طرح کے مختلف تجربات کیے جاتے رہے ہیں. جن میں ایک یا ایک سے زیادہ رضاکاروں نے کسی گہرے غار میں، وقت کا حساب رکھے بغیر، چند دنوں سے چند مہینے تک گزارے ہیں
زیرِ زمین غار میں اس طرح سب سے زیادہ وقت گزارنے کا عالمی ریکارڈ ایک سو تیس دن کا ہے جو 1989ع میں ایک تجربے کے دوران اطالوی خاتون اسٹیفانیا فیلونی نے قائم کیا تھا
البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ’’ڈیپ ٹائم‘‘ کے تحقیقی مقاصد، ماضی میں کیے گئے، اسی قسم کے دیگر تجربات کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع اور منفرد ہیں
یہ پورا منصوبہ کرسچیان کلاٹ کے ذہن کی اختراع ہے جو خود بھی ان رضاکاروں میں شامل ہیں جو فرانس کے پیرینیس پہاڑی سلسلے کے گہرے غار میں اتر چکے ہیں۔ ان رضاکاروں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی شعبے کا ماہر ہے
چالیس دن تک بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹ کر زندگی گزارنے کا تمام ضروری سامان پہلے ہی اس غار میں اتارا جا چکا ہے، جو تقریباً 1500 کلوگرام وزنی ہے
ان تمام رضاکاروں کے جسموں پر مختلف اقسام کے ہلکے پھلکے سینسرز بھی نصب کر دیئے گئے ہیں، جن کی مدد سے باہر موجود سائنسدان ان کی عمومی صحت سے لے کر ذہنی کیفیت تک، ہر چیز پر ہر وقت نظر رکھ سکیں گے
بغار کا مستقل درجہ حرارت 12 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ ہوا میں نمی کا تناسب بھی 95 فیصد ہے
غار میں ایک عدد ’’پیڈل بوٹ سسٹم‘‘ بھی اتار دیا گیا ہے جسے کسی سائیکل کی طرح پیروں سے گھما کر بجلی بنائی جاسکتی ہے
البتہ تازہ پانی حاصل کرنے کےلیے انہیں غار میں 45 میٹر گہرائی میں اتر کر جانا ہوگا، جو یقیناً ایک محنت طلب کام ہے
’’ڈیپ ٹائم‘‘ کی نگرانی اور تجزیئے کا کام پیرس کے مشہور تحقیقی ادارے ’’ایکول نورمیل سپیریئر‘‘ کے سپرد ہے، جس کے ماہرین نہ صرف ان رضاکاروں کی کیفیات سے ہر وقت باخبر رہیں گے، بلکہ تجربہ مکمل ہوجانے کے بعد حاصل شدہ نتائج پر تحقیق بھی کریں گے.